درس شرح مائة عامل

درس نمبر 20: افعال ناقصہ 3

 
1

خطبہ

2

افعال ناقصہ: ما زَالَ، ما بَرِحَ، ما اِنْفََكَّ، ما فَتِيَ اور لَيْسَ کی بحث

وَالتَّاسِعُ مَا زَالَ، وَالْعَاشِرُ مَا بَرِحَ، وَالْحَادِيَ عَشَرَ مَا انْفَكَّ، وَالثَّانِيَ عَشَرَ مَا فَتِيَ۔ ان افعال ناقصہ میں چار افعال اور ہیں ،نویں نمبر پر ہے  مَا زَالَ، دسویں پر ہے مَا بَرِحَ ، گیارویں پر ہے  مَا انْفَكَّ ، اور بارویں پر ہے مَا فَتِيَ ۔

اس میں آقا جان دو تین لفظیں ہیں، ان کو غور سے توجہ سے کاپی پر رکھ لیں کہ 

نمبر ایک : مَا علیحدہ ہے، زَالَ علیحدہ ہے، یعنی اصل فعل ہے زَالَ۔ بَرِحَ،  اِنْفََكَّ، اور فَتِيَ ، ان سے پہلے جو مَا ہے، یہ مَا نَافِيَہ ہے۔ 

نمبر دو:  مَا نَافِيَہ ان سب کی ابتدا میں کیوں آئی ہے؟ جواب: کیونکہ زَالَ، بَرِحَ، اِنْفََكَّ، فَتِيَ، یہی درحقیقت نفی کا معنی دیتے ہیں۔ زَالَ یُزِيلُ، یعنی زائل ہونا۔ اِنْفََكَّ ، جدا ہونا۔ بَرِحَ کا معنی بھی زائل ہونا۔ فَتِيَ کا معنی بھی یہی ہوتا ہے، یعنی یہ فلاں شے فلاں سے جدا ہو گئی، زائل ہو گئی، دور ہو گئی۔

 تو جب نفی پر نفی کا حرف آجائے گا، تو وہ پھر اثبات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی، زَالَ زائل ہوا، لیکن جب اس پر مَا آجائے گی، یہ بن جائے گا مَا زَالَ، زائل نہیں ہو گیا، یعنی کیا؟ ہمیشہ رہا۔ پھر مَا بَرِحَ، اِنْفََكَّ، مَا فَتِيَ، پھر ان کا معنی اب یہ نہیں کہ وہ زائل ہو گیا، ختم ہو گیا، جدا ہو گیا، بلکہ اب یہ معنی بن جائے گا جب مَا آجائے گی، مثبت کہ ، نہیں، ایسا ہمیشہ رہا۔

 یہ چاروں افعال کیا بتاتے ہیں؟ کیا معنی دیتے ہیں؟ بہت غور سے۔ یہ چار افعال یہ بتاتے ہیں کہ جب سے ہمارے اس اسم نے اس خبر کو قبول کیا ہے، بس یہ تب سے اس کے ساتھ ہمیشہ چل رہی ہے، پھر کبھی ان میں جدائی نہیں آئی۔ 

 یہ چار افعال ناقصہ،  مَا زَالَ، مَا بَرِحَ، مَا اِنْفََكَّ، اور مَا فَتِيَ ، یہ کیا بتاتے ہیں؟ بہت غور سے، یہ بتاتے ہیں کہ لِدَوَامِ ثُبُوتِ خَبَرِهَا لِاسْمِهَا، کہ ہماری خبر ہمارے اسم کے لیے دائمی ہے، مُنذُ قَبِلَه، جب سے اس نے اس کو قبول کیا ہے، بلکل آسان، جب سے اس نے اس کو قبول کیا ہے، ٹھیک ہو گیا۔

اب ذرا غور کرو: وَالتَّاسِعُ مَا زَالَ،نویں نمبر پر ہے  مَا زَالَ۔ وَالْعَاشِرُ مَا بَرِحَ، دسْویں نمبر پر ہے  مَا بَرِحَ۔ وَالْحَادِيَ عَشَرَ، گیارویں نمبر پر ہے مَااِنْفََكَّ ۔ وَالثَّانِيَ عَشَرَ مَا فَتِيَ ۔ اس مَا فَتِيَ کو قَدْ يُقَالُ مَا فَتَأَ بھی پڑھتے ہیں، مَا أَفْتَأَبھی پڑھتے ہیں۔ جیسے میں نے کہا، مختلف لغات ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے۔

 کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْأَفْعَالِ الْأَرْبَعَةِ، اربع ہو گیا، چار افعال جمع ہو گئی۔ فعل کی ان چار افعال میں سے ہر ایک کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْأَفْعَالِ، ان چار افعال میں سے، یعنی ہر ایک یہ معنی کیا دیتے ہیں؟ لِدَوَامِ ثُبُوتِ خَبَرِهَا لِاسْمِهَا، کہ ان کی خبر ان کے اسم کے لیے دائمی ہوتی ہے، ہمیشہ سے ہوتی ہے، مُنذُ قَبِلَه، جب سے اس نے اس کو قبول کیا ہے، جب سے جس وقت سے اس میں خبر کی قابلیت پیدا ہوئی ہے، جب سے یہ خبر اس اسم میں آئی ہے، بس یہ خبر مسلسل ہے، دائمی ہے، چنانچہ یہ کبھی اس اسم اور خبر کے درمیان کوئی جدائی نہیں آئی۔

 وَيَلْزَمُهَا النَّفْيُ، یہ جو ہم فَتِيَ ، بَرِحَ، وَزَالَ سے پہلے حرف نفی مَا لگا رہے ہیں، فرماتے ہیں مَا کا ان سب سے پہلے آنا لازم ہے، یعنی ہمیشہ مَا زَالَ  پڑھنا ہے، مَا بَرِحَ پڑھنا ہے، مَا فَتِيَ ، مَا اِنْفََكَّ پڑھنا ہے۔ زَالَ یا بَرِحَ صرف نہیں، مَا زَالَ زَيْدٌ عَالماََ  ، زید ہمیشہ سے عالم رہا «ما بَرِحَ زيدٌ صائماً» زید ہمیشہ روزہ دار رہا ، و«ما فتئ عمروٌ فاضلاً» عمرو ہمیشہ فاضل رہا ، و«ما انفكّ بكرٌ عاقلاً ، بکر ہمیشہ عاقل رہا ۔کیا مطلب ہے یہ افعال بتا رہے ہیں جب سے علم زید میں آیا ہے بس زید عالم ہی چلا آرہا ہے ، جب سے زید نے روزے رکھیں ہیں تب سے وہ روزہ ہی رکھ رہا ہے ۔۔۔

والثِالثُ عَشر لَيْسَ:  افعال ناقصہ میں سے آخری ہے لَيْسَ یہ لَیسَ کہاں استعمال ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں لِنَفْيِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ فِي زَمَانِ الْحَالِ۔ ھِیَ لَنفیِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ فِی  زَمَانِ الْحَالِ لیس مضمونِ جملہ کی زمانے حال میں نفی کرتا ہے، یعنی یہ بتاتا ہے کہ یہ جو کام ہے، جو مثلاً لَيْسَ زَيْدٌ قَائِمًا، مَضْمُونُ جملہ کیا تھا؟ قِيَامُ زَيْدٍ۔ لَيْسَ بتاتا ہے کہ ابھی اس وقت یہ زَيْدٌ، قائم نہیں ہے، قِيَام زَيْد کی زَمَان حَالِ میں نفی کرتا ہے۔ وَقَالَ بَعْضُهُمْ، لیکن بعض اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ نہیں، زَمَان حَالِ نہیں، فِي كُلِّ زَمَانٍ، کہ لَيْسَ یہ بتاتا ہے کہ یہ مَضْمُون جمْلہ کسی بھی زمانے میں نہیں تھا، یعنی مِثْلُ لَيْسَ زَيْدٌ قَائِمًا، اگر فقط زَمَانِ الْحَالِ میں نفی کرے گا، تو اس کا ترجمہ کریں گے: زَيْدٌ ابھی قائم نہیں ہے۔ اور اگر ہر زمانے میں کریں گے، تو پھر کہیں گے: زَيْد قائم نہیں تھا، نہ ہے، نہ ہو گا۔

3

افعال ناقصہ کے بارے میں دو علمی نکتے

آگے ایک نوٹ ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا ہے، یہ جتنے بھی افعال ناقصہ ہیں، یہ مُبْتَدَا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں۔ مُبْتَدَا ان کا اسم بن جاتی ہے، اور اگلی اسم ان کا خبر ہوتا ہے، یعنی جملہ اسمیہ پر آتے ہیں۔ جُزْء أَوَّل: اسم، جُزْء ثَانی : ان کی خبر۔ ابھی تک ہم کیا پڑھتے ہیں؟ کہ پہلے اسم، بعد میں خبر۔

 اب یہاں پر ایک نکتہ بتا رہے ہیں کہ وَاعلَم أَنَّ تَقدِيمَ أَخبارِ هَذِهِ الأَفعَالِ : ان افعال کی خبروں کو مقدم کرنا عَلَى أَسْمَائِهَا، ان افعال کے اسموں پر جائز ہے، یہ بھی جائز ہے، اور ان افعال ناقصہ کے عمل کو باقی رکھتے ہوئے۔ یعنی مثال سمجھانا کیا چاہتے ہیں؟ وہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہ جو ایک فعل ناقص ہوتا ہے، اس کے بعد اس کا اسم آتا ہے، بعد میں آتی ہے خبر۔ یہاں سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ یعنی خبر کو اسم پر مقدم کرنا جائز ہے، اور یہ اپنا عمل اسی طرح کریں گے، یعنی اسی طرح اسم کو رفع دیں گے، اور خبر کو نصب۔ لیکن لکھنے میں خبر اسم سے پہلے آ جائے۔ مثلاً ہم عام طور پر پڑھتے ہیں: كَانَ زَيْدٌ قَائِمًا، لیکن آپ اگر پڑھنا چاہتے ہیں:«كَانَ قائماً زَيدٌ»، خبر کو مقدم کر دے، یہ بھی جائز ہے، لیکن كَانَ کا عمل اسی طرح رہے گا۔ قَائِمًا خبر مقدم زیدٌ اسم موخر، اس طرح کر کے پڑھیں گے۔ وَعَلى هَذَا الّقِياسِ فِي البَوَاقِي،بات فقط كَانَ کی نہیں ہے، تمام افعال ناقصہ میں ان کی خبروں کو ان کے اسموں سے پہلے لانا، مقدم کرنا جائز ہے، جبکہ ان کا عمل اسی طرح رہے گا، اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیں گے۔ یہ تو ہو گئی بات، ختم۔

 اگلی بات: أَيْضًا أَنَّهَا تَقْبَلُ تَقَدُّمَ الْخَبَرِ عَلَى الْفِعْلِ النَّاقِصِ نَفْسِهِ، حتی کہ چند افعال ناقصہ ایسے ہیں کہ ان کی خبر کو خود ان افعال ناقصہ پر بھی مقدم کرنا جائز ہے یعنی پہلے آ جائے خبر، بعد میں آئے فعل ناقصہ، اور بعد میں آئے اس کا اسم۔ ایک تو ہے نا کہ خبر کو اسم پر مقدم کرنا جائز ہے، وہ بات ختم ہو گئی۔ آگے فرماتے ہیں:

 وَ أَيْضًا أَنَّهَا تَقَدَّمَ الْخَبَرُ عَلَى الْفِعْلِ النَّاقِصِ نَفْسِهِ، یعنی افعال ناقصہ کی خبروں کو خود افعال ناقصہ پر مقدم کرنا اور اس سے پہلے لانا بھی جائز ہے۔ سِوَىٰ لَيْسَ، لَيْسَ پر اس کی خبر کو مقدم نہیں کر سکتے، اور ان افعال کو جن کی ابتدا میں مَائے نافیہ آتی ہے، ان کی خبر کو مقدم کرنا جائز نہیں۔ یہ لفظی ترجمہ ہو گیا۔

اب تھوڑا مرادی ترجمہ  آسان سے  کاپی پر لکھ لیں آئے تو کیا؟ پہلی سطر یہ بن جائے گی کہ 

  1. افعال ناقصہ کی خبروں کو ان کے اسموں پر مقدم کرنا جائز ہے، تیرہ کے تیرہ میں حکم برابر ہے ۔
  2.  وہ افعال ناقصہ جن کی ابتدا میں مَائے نافیہ آتی ہے، جیسے مَا زَالَ، مَا بَارَحَ، اور لَيْسَ، ان کے علاوہ باقی افعال ناقصہ کی خبر کو خود ان افعال ناقصہ پر مقدم کرنا بھی جائز ہے۔ البتہ لَيْسَ کی خبر کو لَيْسَ پر مقدم نہیں کر سکتے اور جن افعال کی ابتدا میں مَائے نافیہ آ گئی ہے، ان کی خبر کو بھی ان پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ 
    وَ أَيْضًا فرماتے ہیں: ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں، تَقْدِيمُ أَخْبَارِهَا عَلَى اَنفُسِھَا ،خود افعال ناقصہ کی خبروں کو مقدم کرنا عَلَى أَنْفُسِهَا، خود افعال ناقصہ پر، خود افعال ناقصہ پر بھی جائز ہے ، البتہ لَيْسَ کی خبر کو لَيْسَ پر مقدم نہیں کر سکتے۔ وَالْأَفْعَالُ الَّتِي، اور وہ افعال ناقصہ الَّتِي كَانَ فِي أَوَائِلِهَا مَاءِِ نَافِيَة، جن کی ابتدا میں مَائے نافیہ آتی ہے، البتہ ان کے، جیسے مَا دَامَ، مَا بَرِحَ، مَا فَتَئ، ان کی خبروں کو بھی ان پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ نہیں، پس قَائِماََ کَانَ زَیدٌ ،  کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں، غَنِیّاََ صَارَ زَیدٌ ، کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

 وَقَالَ بَعْضُهُمْ، جبکہ بعض اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ تَقْدِيمُ الْأَخْبَارِ عَلَى ھَذِہِ الْأَفْعَالِ أَيْضًا جَائِزٌ، بعض کہتے ہیں نہیں، بے شک وہ لَيْسَ ہی کیوں نہ ہو، بے شک وہ بھی کیوں نہ ہو کہ جن کی ابتدا میں مَائے نافیہ آتی ہے، اُن پر بھی اُن کی خبروں کو مقدم کرنا جائز ہے، سوای مَا دَامَ کے، سوائے مَا دَامَ کے۔ یعنی اُن کے نظریے میں سے بارہ کی خبروں کو اُن پر مقدم کر سکتے ہیں، صرف مَا دَامَ کی خبر کو مقدم نہیں کر سکتے۔ یہ بات ختم۔

دو سطریں اور ہیں آسان:
نمبر ایک: تَقْدِيمُ أَسْمَائِهَا عَلَیھَا فَغَيْرُ جَائِزٍ، افعال ناقصہ کے اسموں کو خود افعال ناقصہ پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ زَيْدٌ كَانَ قَائِمًا، ٹھیک نہیں۔ زَيْدٌ صَارَ غَنِيمًا، کہنا درست نہیں۔ تَقْدِيمُ أَسْمَائِهَا، افعال ناقصہ کے اسموں کو خود افعال ناقصہ پر مقدم کرنا فَغَيْرُ جَائِزٍ، یہ جائز نہیں، ختم۔

اگلی سطر: پھر وہ بالکل مختلف ہے، وہ ہے کہ إِنَّ حُكْمَ مُشْتَقَّاتِ ھَذِہِ الْأَفْعَالِ كَحُكْمِ ھَذِہِ الْأَفْعَالِ فِی الْعَمَلِ، جو عمل كَانَ کرتا ہے، وہی کچھ كَانَ سے مشتق ہونے والا کرے گا، جیسے يَكُونُ، كَائِنٌ، وَكَانَ، وہ بھی وہی عمل کرے گا۔ جو عمل سَارَ کرتا ہے، جو صَارَ سے مشتق ہوگا، مثلاً يَصِيرُ، وہ بھی وہی عمل کرے گا۔ لہٰذا فرماتے ہیں: وَاعْلَمْ أَنَّ حُكْمَ مُشْتَقَّاتِ ھَذِہِ الْأَفْعَالِ، یہ جو افعال ناقصہ ہم نے بیان کیے ہیں، ان کا جو بھی عمل ہوتا ہے، اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ اگر ان افعال میں سے کوئی اور مشتق ہوتا ہے، جیسے كَانَ سے مثال کے طور پر يَكُونُ مشتق ہوتا ہے، كَائِنٌ مشتق ہوتا ہے، كَانَ مشتق ہوتا ہے، تو فرماتے ہیں: وَاعلَم أَنّ حُكمَ مُشتَقَّاتِ هَذِهِ الأَفعَالِ كَحُكْمِ ھَذِہِ الْأَفْعَالِ فِی العَمَلِ، خود انہیں افعال والا ہوگا عمل میں، کہ جیسے یہ عمل کرتے ہیں اسم کو رفع اور خبر کو نصب دینے کا، ان کے مشتقات بھی یہی کریں گے۔

وَصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِہ وسَلَّمَ

الصباح، ونحو: «أضحى زيد حاكماً» معناه: حصل له الحكومة في وقت الضحى، ونحو: «أمسى زيد قارياً» معناه حصل لـــه قرأته في وقت المساء، وهذه الثلاثة قد تكون بمعنى «صار»، مثل: «أصبح الفقير غنيًّا»، و«أمسي زيد كاتباً»، و«أضحى المظلم منيراً» وقد تكون تامّة، مثل: «أصبح زيد» بمعنى دخل زيد في الصباح، و«أمسى عمرو» أي: دخل عمرو في المساء، و «أضحى بكر» أي: دخل بكر في الضحى، والسادس: «ظَلَّ» والسابع: «بَاتَ» وهما لاقتران مضمون الجملة بالنهار والليل، نحو: «ظلّ زيد كاتباً» أي: حصل كتابته في النهار، و«بات زيد نائماً» أي: حصل نومه في الليل، وقد تكونان بمعنى «صار»، مثل: «ظلّ الصبي بالغاً»، و«بات الشابّ شيخاً» والثامن: «مَا دَامَ» وهي لتوقيت شيء بمدّة ثبوت خبرها لاسمها؛ فلا بدّ من أن يكون قبلها جملة فعليّة أو اسميّة، نحو: «اجلس مادام زيد جالساً»، و«زيد قائم مادام عمر قائماً»، والتاسع: «مَا زَالَ» والعاشر: «مَا بَرِحَ» والحادي عشر: «مَا انْفَكَّ» والثاني عشر: «مَا فَتِيَ» وقد يقال: «مَا فَتَأَ»، و«مَا أَفْتَأَ»، وكلّ واحد من هذه الأفعال الأربعة لدوام ثبوت خبرها لاسمها من قَبِلَه، ويلزمها

النفْيُ، مثل: «ما زال زيد عالماً»، و«ما برح زيد صائماً»، و«ما فتئ عمرو فاضلاً»، و«ما انفكّ بكر عاقلاً»، والثالث عشر: «لَيْسَ» وهي لِنَفْيِ مضمون الجملة في زمان الحال، وقــال بعضهم: «في كلّ زمان»، مثل: «ليس زيد قائماً».

واعلم أنَّ تقديم أخبار هذه الأفعال على أسمائها جائز بإبقاء عملها، مثل: «كان قائماً زيد»، وعلى هذا القياس في البواقي، وأيضاً تقديم أخبارها على أنفسها جائز سوى «ليس» والأفعالِ التي كان في أوائلها «ما»، مثل: «قائماً كان زيـــد»، وقال بعضهم: «تقديم الأخبار على هذه الأفعال أيضاً جائز سوى ما دام» أمّا تقديم أسمائها عليها فغير جائز.

واعلم أنّ حكم مشتقّات هذه الأفعال كحكم هذه الأفعال في العمل.

النوع الحادي عشر

أفعال المقارَبة وإنّما سمّيت بهذا الاسم؛ لأنّها تدلّ على المقارَبة، وهي أربعة: الأوّل: «عَسَى» وهو فعل متصرّف؛ لدخول تاء التأنيث الساكنة فيه، نحو: «عَسَتْ» وغير متصرّف