وَالتَّاسِعُ مَا زَالَ، وَالْعَاشِرُ مَا بَرِحَ، وَالْحَادِيَ عَشَرَ مَا انْفَكَّ، وَالثَّانِيَ عَشَرَ مَا فَتِيَ۔ ان افعال ناقصہ میں چار افعال اور ہیں ،نویں نمبر پر ہے  مَا زَالَ، دسویں پر ہے مَا بَرِحَ ، گیارویں پر ہے  مَا انْفَكَّ ، اور بارویں پر ہے مَا فَتِيَ ۔
اس میں آقا جان دو تین لفظیں ہیں، ان کو غور سے توجہ سے کاپی پر رکھ لیں کہ 
نمبر ایک : مَا علیحدہ ہے، زَالَ علیحدہ ہے، یعنی اصل فعل ہے زَالَ۔ بَرِحَ،  اِنْفََكَّ، اور فَتِيَ ، ان سے پہلے جو مَا ہے، یہ مَا نَافِيَہ ہے۔ 
نمبر دو:  مَا نَافِيَہ ان سب کی ابتدا میں کیوں آئی ہے؟ جواب: کیونکہ زَالَ، بَرِحَ، اِنْفََكَّ، فَتِيَ، یہی درحقیقت نفی کا معنی دیتے ہیں۔ زَالَ یُزِيلُ، یعنی زائل ہونا۔ اِنْفََكَّ ، جدا ہونا۔ بَرِحَ کا معنی بھی زائل ہونا۔ فَتِيَ کا معنی بھی یہی ہوتا ہے، یعنی یہ فلاں شے فلاں سے جدا ہو گئی، زائل ہو گئی، دور ہو گئی۔
 تو جب نفی پر نفی کا حرف آجائے گا، تو وہ پھر اثبات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی، زَالَ زائل ہوا، لیکن جب اس پر مَا آجائے گی، یہ بن جائے گا مَا زَالَ، زائل نہیں ہو گیا، یعنی کیا؟ ہمیشہ رہا۔ پھر مَا بَرِحَ، اِنْفََكَّ، مَا فَتِيَ، پھر ان کا معنی اب یہ نہیں کہ وہ زائل ہو گیا، ختم ہو گیا، جدا ہو گیا، بلکہ اب یہ معنی بن جائے گا جب مَا آجائے گی، مثبت کہ ، نہیں، ایسا ہمیشہ رہا۔
 یہ چاروں افعال کیا بتاتے ہیں؟ کیا معنی دیتے ہیں؟ بہت غور سے۔ یہ چار افعال یہ بتاتے ہیں کہ جب سے ہمارے اس اسم نے اس خبر کو قبول کیا ہے، بس یہ تب سے اس کے ساتھ ہمیشہ چل رہی ہے، پھر کبھی ان میں جدائی نہیں آئی۔ 
 یہ چار افعال ناقصہ،  مَا زَالَ، مَا بَرِحَ، مَا اِنْفََكَّ، اور مَا فَتِيَ ، یہ کیا بتاتے ہیں؟ بہت غور سے، یہ بتاتے ہیں کہ لِدَوَامِ ثُبُوتِ خَبَرِهَا لِاسْمِهَا، کہ ہماری خبر ہمارے اسم کے لیے دائمی ہے، مُنذُ قَبِلَه، جب سے اس نے اس کو قبول کیا ہے، بلکل آسان، جب سے اس نے اس کو قبول کیا ہے، ٹھیک ہو گیا۔
اب ذرا غور کرو: وَالتَّاسِعُ مَا زَالَ،نویں نمبر پر ہے  مَا زَالَ۔ وَالْعَاشِرُ مَا بَرِحَ، دسْویں نمبر پر ہے  مَا بَرِحَ۔ وَالْحَادِيَ عَشَرَ، گیارویں نمبر پر ہے مَااِنْفََكَّ ۔ وَالثَّانِيَ عَشَرَ مَا فَتِيَ ۔ اس مَا فَتِيَ کو قَدْ يُقَالُ مَا فَتَأَ بھی پڑھتے ہیں، مَا أَفْتَأَبھی پڑھتے ہیں۔ جیسے میں نے کہا، مختلف لغات ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے۔
 کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْأَفْعَالِ الْأَرْبَعَةِ، اربع ہو گیا، چار افعال جمع ہو گئی۔ فعل کی ان چار افعال میں سے ہر ایک کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْأَفْعَالِ، ان چار افعال میں سے، یعنی ہر ایک یہ معنی کیا دیتے ہیں؟ لِدَوَامِ ثُبُوتِ خَبَرِهَا لِاسْمِهَا، کہ ان کی خبر ان کے اسم کے لیے دائمی ہوتی ہے، ہمیشہ سے ہوتی ہے، مُنذُ قَبِلَه، جب سے اس نے اس کو قبول کیا ہے، جب سے جس وقت سے اس میں خبر کی قابلیت پیدا ہوئی ہے، جب سے یہ خبر اس اسم میں آئی ہے، بس یہ خبر مسلسل ہے، دائمی ہے، چنانچہ یہ کبھی اس اسم اور خبر کے درمیان کوئی جدائی نہیں آئی۔
 وَيَلْزَمُهَا النَّفْيُ، یہ جو ہم فَتِيَ ، بَرِحَ، وَزَالَ سے پہلے حرف نفی مَا لگا رہے ہیں، فرماتے ہیں مَا کا ان سب سے پہلے آنا لازم ہے، یعنی ہمیشہ مَا زَالَ  پڑھنا ہے، مَا بَرِحَ پڑھنا ہے، مَا فَتِيَ ، مَا اِنْفََكَّ پڑھنا ہے۔ زَالَ یا بَرِحَ صرف نہیں، مَا زَالَ زَيْدٌ عَالماََ  ، زید ہمیشہ سے عالم رہا «ما بَرِحَ زيدٌ صائماً» زید ہمیشہ روزہ دار رہا ، و«ما فتئ عمروٌ فاضلاً» عمرو ہمیشہ فاضل رہا ، و«ما انفكّ بكرٌ عاقلاً ، بکر ہمیشہ عاقل رہا ۔کیا مطلب ہے یہ افعال بتا رہے ہیں جب سے علم زید میں آیا ہے بس زید عالم ہی چلا آرہا ہے ، جب سے زید نے روزے رکھیں ہیں تب سے وہ روزہ ہی رکھ رہا ہے ۔۔۔
والثِالثُ عَشر لَيْسَ:  افعال ناقصہ میں سے آخری ہے لَيْسَ یہ لَیسَ کہاں استعمال ہوتا ہے؟ فرماتے ہیں لِنَفْيِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ فِي زَمَانِ الْحَالِ۔ ھِیَ لَنفیِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ فِی  زَمَانِ الْحَالِ لیس مضمونِ جملہ کی زمانے حال میں نفی کرتا ہے، یعنی یہ بتاتا ہے کہ یہ جو کام ہے، جو مثلاً لَيْسَ زَيْدٌ قَائِمًا، مَضْمُونُ جملہ کیا تھا؟ قِيَامُ زَيْدٍ۔ لَيْسَ بتاتا ہے کہ ابھی اس وقت یہ زَيْدٌ، قائم نہیں ہے، قِيَام زَيْد کی زَمَان حَالِ میں نفی کرتا ہے۔ وَقَالَ بَعْضُهُمْ، لیکن بعض اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ نہیں، زَمَان حَالِ نہیں، فِي كُلِّ زَمَانٍ، کہ لَيْسَ یہ بتاتا ہے کہ یہ مَضْمُون جمْلہ کسی بھی زمانے میں نہیں تھا، یعنی مِثْلُ لَيْسَ زَيْدٌ قَائِمًا، اگر فقط زَمَانِ الْحَالِ میں نفی کرے گا، تو اس کا ترجمہ کریں گے: زَيْدٌ ابھی قائم نہیں ہے۔ اور اگر ہر زمانے میں کریں گے، تو پھر کہیں گے: زَيْد قائم نہیں تھا، نہ ہے، نہ ہو گا۔