وَالثَّالِثُ أَصْبَحَ، وَالرَّابِعُ أَضْحَى، وَالْخَامِسُ أَمْسَى، فَهَذِهِ الثَّلَاثَةُ لِقْرَانِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ بِأَوْقَاتِهَا الَّتِي هِيَ الصُّبْحُ وَالضُّحَى وَالْمَسَاءُ۔
بحث چل رہی تھی ہماری افعال ناقصہ کی۔ ان میں سے پہلا تھا "كَانَ"، دوسرا تھا "صَارَ"۔ فرماتے ہیں: ان افعال ناقصہ میں سے تیسرا ہے "أَصْبَحَ"، چوتھا ہے "أَضْحَى"، پانچواں ہے "أَمْسَى"۔ یہ پانچ کیا کرتے ہیں؟ پہلی بات تو ہوئی: مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں، مبتدا کو یہ رفع دے کر اپنا اسم بناتے ہیں، اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ لیکن یہ کہاں استعمال ہوتے ہیں؟ معنی کیا دیتے ہیں؟ بات کیا سمجھاتے ہیں؟
فرماتے ہیں: ان تین کا کام یہ ہے کہ جو کچھ بعد والے اس جملہ اسمیہ میں ہوتا ہے، اس کا جو مضمون ہوتا ہے، یہ بتاتے ہیں کہ وہ مضمون کس وقت میں حاصل ہوا۔ یعنی اس کے مضمون کو وقت کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔
"أَصْبَحَ" صبح کو، "أَضْحَى" ضحیٰ (دن) کو، "أَمْسَى" مساء (شام) کو۔ یہ ان کے مصدر ہوگئے، یعنی مقصد کیا ہے؟
اب درحقیقت آسان ایک مثال سمجھ لیں، تاکہ بعد میں آپ کو بالکل زیادہ آسانی ہو جائے گی اس کو سمجھنے میں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: "أَصْبَحَ زَیْدٌ غَنِيًّا"۔ اب "أَصْبَحَ" فعل ناقصہ میں سے ہے۔ "زَیْدٌ غَنِيًّا" یہ اصل جملہ اسمیہ تھا۔ جب "أَصْبَحَ" آیا، تو اس نے "زَیْدٌ" کو اپنا اسم بنا لیا (مبتدا کو)، اور "غَنِيًّا" کو اپنی خبر بنا کر اس کو نصب دے دیا۔ تو یہ بن گیا: "أَصْبَحَ زَیْدٌ غَنِيًّا"۔
مضمونِ جملہ کیا ہے؟ "زَیْدٌ غَنِيًّا"۔ اس کا مضمونِ مطلب کیا ہے؟ مضمونِ مطلب یہ ہے کہ زید مالدار ہوا، زید غنی ہے۔ تو "أَصْبَحَ" بتاتا ہے کہ یہ جو زید غنی ہے، یہ مالداری اور غنی اُس کو حاصل کس وقت ہوا۔ یعنی یہ اُس کے اُس غنی ہونے کے وقت کو بیان کرتا ہے۔
یہ مطلب ہوتا ہے کہ مضمونِ جملہ کو ملایا جاتا ہے اپنے اوقات کے ساتھ۔ وہ جو عربی لکھی، اس کا لفظی ترجمہ وہ بنتا ہے۔ اب آپ یہ کہیں گے: یعنی یہ تین افعال یہ بتاتے ہیں کہ یہ جو بعد میں خبر اسم کے لیے ثابت ہوئی ہے، یہ جو غنی زید کو حاصل ہوا ہے، یہ بتاتے ہیں کہ یہی چیز حاصل کس وقت میں ہوئی۔ یہ اُن کے اُس وقت کو بیان کرتے ہیں کہ فلان وقت میں یہ خبر اس اسم کے لیے ثابت ہوئی ہے۔ یہ اِس کا آسان ترجمہ یہی بنتا ہے۔
وَالثَّالِثُ (افعال ناقصہ میں سے تیسرا) "أَصْبَحَ"، وَالرَّابِعُ (چوتھا) "أَضْحَى"، وَالْخَامِسُ (اور پانچواں) "أَمْسَى"۔ فَهَذِهِ الثَّلَاثَةُ (یہ جو تین افعال ہیں: "أَصْبَحَ"، "أَضْحَى"، اور "أَمْسَى")، یہ کس معنی کے لیے آتے ہیں؟ لِاِقْتِرَانِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ بِأَوْقَاتِهَا (یہ مضمون جملہ کو ملتے ہیں اپنے اوقات کے ساتھ)۔
کیا مطلب؟ یعنی یہ افعال یہ بتاتے ہیں کہ یہ جو بعد میں جملہ اسمیہ ہے، اس میں جو ایک خبر ایک اسم کے لیے ثابت تھی، وہ کس وقت میں اس کو حاصل ہوئی۔
"أَصْبَحَ" اس کا وقت کیا ہے؟ صباح (صبح کا وقت)۔
"أَضْحَى" اس کا وقت کیا ہے؟ یعنی ضحیٰ (دن کا وقت)۔
"أَمْسَى" ان کا وقت کیا ہے؟ مساء (شام کا وقت)۔
یعنی گویا کہ یہ بتاتے ہیں۔ مثلاً:
"أَصْبَحَ زَیْدٌ غَنِيًّا"۔
"أَصْبَحَ" فعل ناقصہ ہے۔ "زَیْدٌ" اس کا اسم ہے، "غَنِيًّا" اس کی خبر ہے۔ اب "زَیْدٌ غَنِيًّا" جو پہلے مبتدا اور خبر تھے، یہ جو غِنَا (مالداری) زید کو ملی تھی، "أَصْبَحَ" یہ بتا رہا ہے کیا؟ یہ بتا رہا ہے: "حَصَلَ غِنَاہُ" (زید کو غِنَا (مالداری) حاصل ہوئی) "فِي وَقْتِ الصُّبْحِ" (صبح کے وقت میں)۔
یعنی "أَصْبَحَ" نے آ کر بتایا کہ وہ جو زید غنی ہوا تھا، وہ جو مالدار بنا تھا، وہ غِنَا کب حاصل ہوئی؟ صبح کے وقت میں۔
اسی طرح اگلی مثال:
"أَضْحَى زَیْدٌ حَاكِمًا"۔ اب "زَیْدٌ" "أَضْحَى" کا اسم ہے، "حَاكِمًا" اس کی خبر ہے۔ اچھا، اگر "أَضْحَى" نہ ہو، تو یہ جملہ اسمیہ ہے : "أَضْحَى زَیْدٌ حَاكِمًا"۔ حکومت زید کے پاس، زید حاکم ہے۔ لیکن "أَضْحَى" بتاتا ہے کہ یہ حکومت زید کو ملی کس وقت میں ہے۔ "أَضْحَى" کا یہ کام ہے۔
یعنی جب کہیں گے: "أَضْحَى زَیْدٌ حَاكِمًا"، معنی ہو تو اس کا معنی ہم کریں گے: "حَصَلَ لَهُ الْحُكُومَۃُ" (زید کو حکومت حاصل ہوئی) "فِي وَقْتِ الضُّحَى" (دن کے وقت میں)۔ یعنی یہ بتا رہا ہے کہ زید کے حاکم  بننے کا وقت کیا تھا۔
یہ مضمونِ جملہ تھا کہ زید حاکم ہے، اب اس کو ملایا جاتا ہے اس کے وقت کے ساتھ کہ یہ حکومت کا وقت زید کیا تھا؟ وہ تھا دن کا۔
اسی طرح:
"أَمْسَى زَیْدٌ قَارِئًا"۔ اب یہاں بھی یہ ہے: اصل جملہ کیا ہے؟ "أَمْسَى"  سے ہٹ کر "زَیْدٌ قَارِئًا"۔ لیکن "أَمْسَى" بتا رہا ہے کہ "حَصَلَ لَهُ الْقِرَاءَةُ" (زید کو قرات حاصل ہوئی ہے) "فِي وَقْتِ الْمَسَاءِ" (شام کے وقت میں)۔
مضمونِ جملہ کیا تھا؟ کہ زید قاری ہے۔ لیکن "أَمْسَى" نے بتایا کہ یہ جو قاری ہے زید، اس کو قرات حاصل کس وقت ہوئی ہے۔ یہ کام کیا ہے "أَمْسَى" نے ، پس یہ مطلب ہے کہ یہ مضمون جملہ کو اپنے اوقات کے ساتھ ملتے ہیں۔ مراد اس سے یہ ہے۔
وَھٰذِهِ ثَلَاثَةٌ قَدْ تَكُونُ بِمَعْنَى صَارَ (یہی "أَصْبَحَ"، "أَضْحَى"، اور "أَمْسَى" کبھی کبھی "صَارَ" کے معنی میں ہوتے ہیں)۔ یعنی وہاں پر آپ نے جب ترجمہ کرنا ہے، تو پھر وقت والا ترجمہ نہیں کرنا، بلکہ "صَارَ" کے معنی والا ترجمہ کرنا ہے۔
جیسے ہم کہتے ہیں: "أَصْبَحَ الْفَقِيرُ غَنِيًّا"، تو اس کا معنی ہوگا: "فقیر غنی ہو گیا"، یہ نہیں کہ فقیر کو غنی ہوا صبح کے وقت میں۔ وہ بالاترجمہ یہاں نہیں کرنا۔
"أَمْسَى زَیْدٌ كَاتِبًا" (زید کاتب ہو گیا)، یعنی "صَارَ زَیْدٌ كَاتِبًا"۔
"أَضْحَى الْمُظْلِمُ مُنِيرًا" (اندھیرہ روشن ہو گیا)۔
خوب، وَقَدْ تَكُونُ تَامَّةً (یہی افعال ، کَانَ  کی طرح، کبھی کبھی تامہ بھی ہوتے ہیں)، یعنی "أَصْبَحَ"، "أَمْسَى"، اور "أَضْحَى" کبھی کبھی تامہ بھی ہوتے ہیں ، یعنی  فقط ان کا فاعل بھی  آجائے، تو بھی معنی تام ہو جاتا ہے۔
جیسے ہم کہتے ہیں: کہیں "أَصْبَحَ زَیْدٌ"، تو اس کا معنی کیا ہے؟ "زید نے صبح کی"، یعنی "بِمَعْنَى دَخَلَ زَیْدٌ فِي الصُّبْحِ" (زید صبح میں داخل ہوا)۔
"أَمْسَى عَمِروٌ" (عمرو نے شام کی)، یعنی "دَخَلَ عَمِروٌفِي الْمَسَاءِ" (عمرو شام میں داخل ہوا)۔
"أَضْحَى بَكْرٌ" (بکر نے دن کی)، یعنی "دَخَلَ بَكْرٌ فِي الضُّحَى" (بکر دن میں داخل ہوا)۔
تو اب یہاں پر ان کو خبر کی ضرورت نہیں ہے۔