درس شرح مائة عامل

درس نمبر 19: افعال ناقصہ 2

 
1

خطبہ

2

افعال ناقصہ: اَصبَحَ ، اَضحیٰ اور اَمسیٰ کی بحث

وَالثَّالِثُ أَصْبَحَ، وَالرَّابِعُ أَضْحَى، وَالْخَامِسُ أَمْسَى، فَهَذِهِ الثَّلَاثَةُ لِقْرَانِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ بِأَوْقَاتِهَا الَّتِي هِيَ الصُّبْحُ وَالضُّحَى وَالْمَسَاءُ۔

بحث چل رہی تھی ہماری افعال ناقصہ کی۔ ان میں سے پہلا تھا "كَانَ"، دوسرا تھا "صَارَ"۔ فرماتے ہیں: ان افعال ناقصہ میں سے تیسرا ہے "أَصْبَحَ"، چوتھا ہے "أَضْحَى"، پانچواں ہے "أَمْسَى"۔ یہ پانچ کیا کرتے ہیں؟ پہلی بات تو ہوئی: مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں، مبتدا کو یہ رفع دے کر اپنا اسم بناتے ہیں، اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ لیکن یہ کہاں استعمال ہوتے ہیں؟ معنی کیا دیتے ہیں؟ بات کیا سمجھاتے ہیں؟

فرماتے ہیں: ان تین کا کام یہ ہے کہ جو کچھ بعد والے اس جملہ اسمیہ میں ہوتا ہے، اس کا جو مضمون ہوتا ہے، یہ بتاتے ہیں کہ وہ مضمون کس وقت میں حاصل ہوا۔ یعنی اس کے مضمون کو وقت کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔

"أَصْبَحَ" صبح کو، "أَضْحَى" ضحیٰ (دن) کو، "أَمْسَى" مساء (شام) کو۔ یہ ان کے مصدر ہوگئے، یعنی مقصد کیا ہے؟

اب درحقیقت آسان ایک مثال سمجھ لیں، تاکہ بعد میں آپ کو بالکل زیادہ آسانی ہو جائے گی اس کو سمجھنے میں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: "أَصْبَحَ زَیْدٌ غَنِيًّا"۔ اب "أَصْبَحَ" فعل ناقصہ میں سے ہے۔ "زَیْدٌ غَنِيًّا" یہ اصل جملہ اسمیہ تھا۔ جب "أَصْبَحَ" آیا، تو اس نے "زَیْدٌ" کو اپنا اسم بنا لیا (مبتدا کو)، اور "غَنِيًّا" کو اپنی خبر بنا کر اس کو نصب دے دیا۔ تو یہ بن گیا: "أَصْبَحَ زَیْدٌ غَنِيًّا

مضمونِ جملہ کیا ہے؟ "زَیْدٌ غَنِيًّا"۔ اس کا مضمونِ مطلب کیا ہے؟ مضمونِ مطلب یہ ہے کہ زید مالدار ہوا، زید غنی ہے۔ تو "أَصْبَحَ" بتاتا ہے کہ یہ جو زید غنی ہے، یہ مالداری اور غنی اُس کو حاصل کس وقت ہوا۔ یعنی یہ اُس کے اُس غنی ہونے کے وقت کو بیان کرتا ہے۔

یہ مطلب ہوتا ہے کہ مضمونِ جملہ کو ملایا جاتا ہے اپنے اوقات کے ساتھ۔ وہ جو عربی لکھی، اس کا لفظی ترجمہ وہ بنتا ہے۔ اب آپ یہ کہیں گے: یعنی یہ تین افعال یہ بتاتے ہیں کہ یہ جو بعد میں خبر اسم کے لیے ثابت ہوئی ہے، یہ جو غنی زید کو حاصل ہوا ہے، یہ بتاتے ہیں کہ یہی چیز حاصل کس وقت میں ہوئی۔ یہ اُن کے اُس وقت کو بیان کرتے ہیں کہ فلان وقت میں یہ خبر اس اسم کے لیے ثابت ہوئی ہے۔ یہ اِس کا آسان ترجمہ یہی بنتا ہے۔

وَالثَّالِثُ (افعال ناقصہ میں سے تیسرا) "أَصْبَحَوَالرَّابِعُ (چوتھا) "أَضْحَىوَالْخَامِسُ (اور پانچواں) "أَمْسَىفَهَذِهِ الثَّلَاثَةُ (یہ جو تین افعال ہیں: "أَصْبَحَ"، "أَضْحَى"، اور "أَمْسَى")، یہ کس معنی کے لیے آتے ہیں؟ لِاِقْتِرَانِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ بِأَوْقَاتِهَا (یہ مضمون جملہ کو ملتے ہیں اپنے اوقات کے ساتھ)۔

کیا مطلب؟ یعنی یہ افعال یہ بتاتے ہیں کہ یہ جو بعد میں جملہ اسمیہ ہے، اس میں جو ایک خبر ایک اسم کے لیے ثابت تھی، وہ کس وقت میں اس کو حاصل ہوئی۔

"أَصْبَحَ" اس کا وقت کیا ہے؟ صباح (صبح کا وقت)۔

"أَضْحَى" اس کا وقت کیا ہے؟ یعنی ضحیٰ (دن کا وقت)۔

"أَمْسَى" ان کا وقت کیا ہے؟ مساء (شام کا وقت)۔

یعنی گویا کہ یہ بتاتے ہیں۔ مثلاً:
"أَصْبَحَ زَیْدٌ غَنِيًّا
"أَصْبَحَ" فعل ناقصہ ہے۔ "زَیْدٌ" اس کا اسم ہے، "غَنِيًّا" اس کی خبر ہے۔ اب "زَیْدٌ غَنِيًّا" جو پہلے مبتدا اور خبر تھے، یہ جو غِنَا (مالداری) زید کو ملی تھی، "أَصْبَحَ" یہ بتا رہا ہے کیا؟ یہ بتا رہا ہے: "حَصَلَ غِنَاہُ" (زید کو غِنَا (مالداری) حاصل ہوئی) "فِي وَقْتِ الصُّبْحِ" (صبح کے وقت میں)۔

یعنی "أَصْبَحَ" نے آ کر بتایا کہ وہ جو زید غنی ہوا تھا، وہ جو مالدار بنا تھا، وہ غِنَا کب حاصل ہوئی؟ صبح کے وقت میں۔

اسی طرح اگلی مثال:
"أَضْحَى زَیْدٌ حَاكِمًا"۔ اب "زَیْدٌ" "أَضْحَى" کا اسم ہے، "حَاكِمًا" اس کی خبر ہے۔ اچھا، اگر "أَضْحَى" نہ ہو، تو یہ جملہ اسمیہ ہے : "أَضْحَى زَیْدٌ حَاكِمًا"۔ حکومت زید کے پاس، زید حاکم ہے۔ لیکن "أَضْحَى" بتاتا ہے کہ یہ حکومت زید کو ملی کس وقت میں ہے۔ "أَضْحَى" کا یہ کام ہے۔

یعنی جب کہیں گے: "أَضْحَى زَیْدٌ حَاكِمًا"، معنی ہو تو اس کا معنی ہم کریں گے: "حَصَلَ لَهُ الْحُكُومَۃُ" (زید کو حکومت حاصل ہوئی) "فِي وَقْتِ الضُّحَى" (دن کے وقت میں)۔ یعنی یہ بتا رہا ہے کہ زید کے حاکم  بننے کا وقت کیا تھا۔

یہ مضمونِ جملہ تھا کہ زید حاکم ہے، اب اس کو ملایا جاتا ہے اس کے وقت کے ساتھ کہ یہ حکومت کا وقت زید کیا تھا؟ وہ تھا دن کا۔

اسی طرح:
"أَمْسَى زَیْدٌ قَارِئًا"۔ اب یہاں بھی یہ ہے: اصل جملہ کیا ہے؟ "أَمْسَى"  سے ہٹ کر "زَیْدٌ قَارِئًا"۔ لیکن "أَمْسَى" بتا رہا ہے کہ "حَصَلَ لَهُ الْقِرَاءَةُ" (زید کو قرات حاصل ہوئی ہے) "فِي وَقْتِ الْمَسَاءِ" (شام کے وقت میں)۔

مضمونِ جملہ کیا تھا؟ کہ زید قاری ہے۔ لیکن "أَمْسَى" نے بتایا کہ یہ جو قاری ہے زید، اس کو قرات حاصل کس وقت ہوئی ہے۔ یہ کام کیا ہے "أَمْسَى" نے ، پس یہ مطلب ہے کہ یہ مضمون جملہ کو اپنے اوقات کے ساتھ ملتے ہیں۔ مراد اس سے یہ ہے۔

وَھٰذِهِ ثَلَاثَةٌ قَدْ تَكُونُ بِمَعْنَى صَارَ (یہی "أَصْبَحَ"، "أَضْحَى"، اور "أَمْسَى" کبھی کبھی "صَارَ" کے معنی میں ہوتے ہیں)۔ یعنی وہاں پر آپ نے جب ترجمہ کرنا ہے، تو پھر وقت والا ترجمہ نہیں کرنا، بلکہ "صَارَ" کے معنی والا ترجمہ کرنا ہے۔

جیسے ہم کہتے ہیں: "أَصْبَحَ الْفَقِيرُ غَنِيًّا"، تو اس کا معنی ہوگا: "فقیر غنی ہو گیا"، یہ نہیں کہ فقیر کو غنی ہوا صبح کے وقت میں۔ وہ بالاترجمہ یہاں نہیں کرنا۔

"أَمْسَى زَیْدٌ كَاتِبًا" (زید کاتب ہو گیا)، یعنی "صَارَ زَیْدٌ كَاتِبًا
"أَضْحَى الْمُظْلِمُ مُنِيرًا" (اندھیرہ روشن ہو گیا)۔

خوب، وَقَدْ تَكُونُ تَامَّةً (یہی افعال ، کَانَ  کی طرح، کبھی کبھی تامہ بھی ہوتے ہیں)، یعنی "أَصْبَحَ"، "أَمْسَى"، اور "أَضْحَى" کبھی کبھی تامہ بھی ہوتے ہیں ، یعنی  فقط ان کا فاعل بھی  آجائے، تو بھی معنی تام ہو جاتا ہے۔

جیسے ہم کہتے ہیں: کہیں "أَصْبَحَ زَیْدٌ"، تو اس کا معنی کیا ہے؟ "زید نے صبح کی"، یعنی "بِمَعْنَى دَخَلَ زَیْدٌ فِي الصُّبْحِ" (زید صبح میں داخل ہوا)۔
"أَمْسَى عَمِروٌ" (عمرو نے شام کی)، یعنی "دَخَلَ عَمِروٌفِي الْمَسَاءِ" (عمرو شام میں داخل ہوا)۔
"أَضْحَى بَكْرٌ" (بکر نے دن کی)، یعنی "دَخَلَ بَكْرٌ فِي الضُّحَى" (بکر دن میں داخل ہوا)۔

تو اب یہاں پر ان کو خبر کی ضرورت نہیں ہے۔

3

افعال ناقصہ: ظَلَّ، بَاتَ، مَادَامَ، مَا زَالَ، مَا بَرِحَ، انْفَكَّ اور مَا فَتِيَ کی بحث

وَالسَّادِسُ ظَلَّ، وَالسَّابِعُ بَاتَ 

 افعال ناقصہ میں سے (چھٹا "ظَلَّ"، اور ساتواں "بَاتَ")۔ ٹھیک ہے جی، اچھا، یہ کیا کرتے ہیں؟

ایک تو ہوئی: مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں، مبتدا پھر ان کا اسم بن جاتی ہے، اس کو رفع دیتے ہیں، خبر کو نصب دیتے ہیں۔ لیکن ان کو استعمال کہاں کیا جاتا ہے؟ فرماتے ہیں: مضمونِ جملہ کو ملتے ہیں دن اور رات کے ساتھ۔

یعنی "ظَلَّ" کے بعد جو جملہ آئے گا، یہ بتاتا ہے کہ یہ حکم دن میں ہوا، رات میں نہیں ہوا۔ "بَاتَ" کے بعد جو جملہ آتا ہے، تو "بَاتَ" بتاتا ہے کہ یہ حکم رات میں ہوا، دن میں نہیں۔

"ظَلَّ" ہوتا ہے دن گزارنا، اور "بَاتَ" ہوتا ہے رات گزارنا۔ "بَاتَ" جب ہی تو خوب، بالکل آسانی کی طرح فرماتے ہیں
وَھُمَّا (یہ "ظَلَّ" اور "بَاتَ" دونوں) لِاقْتِرَانِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ (یہ مضمون جملہ کو ملتے ہیں) بِالنَّهَارِ (دن کے ساتھ) وَاللَّيْلِ (رات کے ساتھ)۔

آگے بتاتا ہوں: نَحْوِ مِثَالٍ کیا ہے؟
"ظَلَّ زَیْدٌ كَاتِبًا"۔ اب درحقیقت "ظَلَّ" کو ہٹا لو، اصل جملہ کیا ہے؟ جملہ ہے جملہ اسمیہ: "زَیْدٌ كَاتِبٌ" (زید کاتب ہے)۔ مضمون جملہ کیا ہے؟ کہ کتابت زید کے لیے حاصل ہے، یعنی زید کاتب ہے۔ کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کتابت زید کو حاصل ہے۔ لیکن "ظَلَّ" یہ بتا رہا ہے کہ یہ جو زید کو کتابت حاصل ہوئی ہے، اس حاصل ہونے کا وقت کیا تھا۔

فرماتے ہیں: "ظَلَّ زَیْدٌ كَاتِبًا"، جب کہیں گے، تو اس کا معنی ہوگا: "حَصَلَتْ كِتَابَتُهُ" (کہ اس کو، یعنی زید کو کتابت حاصل ہوئی) "فِي النَّهَارِ" (دن میں)۔ یہ حاصل ہوئی ہے رات میں نہیں۔

اسی طرح:
"بَاتَ زَیْدٌ نَائِمًا"۔ اب جملہ ہے: "زَیْدٌ نَائِمٌ"۔ مضمون جملہ کیا ہے؟ کہ نوم (نیند) زید کے لیے حاصل ہے، اس کو آئی ہے۔ لیکن "بَاتَ" بتا رہا ہے کہ یہ نوم، یہ نیند جو زید کے لیے ہے، وہ کس وقت ہے۔

"بَاتَ زَیْدٌ نَائِمًا" کا معنی ہوگا: "حَصَلَ نَوْمُهُ" (یعنی زید کو نیند حاصل ہوئی) "فِي اللَّيْلِ" (رات میں)۔

یعنی "ظَلَّ" کے بعد جو جملہ ہوگا، "ظَلَّ" بتاتا ہے کہ یہ کام، یعنی یہ خبر اس اسم کے لیے ثابت ہوئی ہے دن کے وقت۔ اور "بَاتَ" بتاتا ہے کہ یہ خبر اس اسم کے لیے ثابت ہے رات کے وقت میں۔

وَقَدْ تَكُونَانِ بِمَعْنَى صَارَ (یہی "ظَلَّ" اور "بَاتَ" کبھی کبھار "صَارَ" کے بھی ہوتے ہیں)۔ تو وہاں پر پھر یہ لیل و نہار والے معنی میں استعمال نہیں ہوگا کہ مضمون جملہ کل دن رات کے ساتھ بھی رہیں گے، بلکہ "صَارَ" کے معنی میں انتقال کے۔

جیسے ہم کہتے ہیں:
"ظَلَّ الصَّبِيُّ بَالِغًا" (بچہ بالغ ہو گیا)۔
"بَاتَ الشَّابُّ شَيْخًا" (جوان بوڑھا ہو گیا)۔

آٹھواں: مَا دَامَ
وَالثامِنُ (افعال ناقصہ میں سے آٹھواں ہے) "مَا دَامَ"۔ "مَا دَامَ" کیا کرتا ہے؟ "مَا دَامَ" یہ بتاتا ہے کہ وَھِیَ لِتَوقِیتِ شیئِِ بِمُدَّةِ ثُبُوتِ خَبَرِهِ لِاسْمِهِ  ، "مَا دَامَ" کیا بتاتا ہے؟ یہ بتاتا ہے کہ جب تک میرے اسم کی یہ خبر میرے اسم کے لیے ثابت ہے، تب تک اس شئے کا وقت بھی ہے۔ تھوڑا دوبارہ غور کریں: "مَا دَامَ" کیا بتاتا ہے؟ یعنی "مَا دَامَ" کسی بھی شئے کا وقت بیان کرتا ہے کہ یہ کام کتنے وقت کے لیے ہے۔ اچھا وقت بیان کرتا ہے، تو اس کی کتنی مدت بیان کرتا ہے کہ جب تک یہ خبر اس اسم کے لیے ہوگی، تب تک اس کام کا وقت بھی ہوگا۔ جب یہ خبر اس اسم کے لیے نہ ہوگی، اس وقت پھر اس شئے کا وقت بھی ختم ہو جائے گا۔

مثال دیتا ہوں، بالکل واضح اور کلیئر ہو جائے گا۔ مثلاً:
"زَیْدٌ قَائِمٌ مَا دَامَ عَمَروٌ قَائِمًا"۔ اب درحقیقت غور کرو، یہ "مَا دَامَ" تا رہا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ زید کھڑا ہے جب تک عمر وکھڑا ہے۔ یعنی کیا مطلب؟ "مَا دَامَ" بتا رہا ہے کہ زید اسی وقت تک قائم ہوگا۔ زید کے قیام کا وقت بیان کر رہا ہے جب تک عمر قائم ہوگا۔ یعنی جب قیام عمر سے ختم ہوگا، تب تک پھر زید بھی قائم نہیں رہے گا۔

بالکل آسان۔ خوب، اب غور کرو دوبارہ۔

وَالثامِنُ (افعال ناقصہ میں سے آٹھواں ہے) "مَا دَامَ"۔ "مَا دَامَ" کیا کرتا ہے؟ "مَا دَامَ"  وَھِیَ لِتَوقِیتِ شیئِِ بِمُدَّةِ ثُبُوتِ خَبَرِهِ لِاسْمِهِ  ، "مَا دَامَ" یعنی "مَا دَامَ" کسی بھی شئے کا وقت بیان کرتا ہے کہ یہ کام کتنے وقت کے لیے ہے۔کسی بھی شیئ کو موقت کرتا ہے ایک مدت کے ساتھ اچھا  کتنی مدت ؟ مادام یہ بتاتا ہے کہ اس شیئ کا وقت اتنی مدت تک ہے  جب تک یہ خبر اس اسم کے لیے ہوگی، تب تک اس کام کا وقت بھی ہوگا۔ جب یہ خبر اس اسم کے لیے نہ ہوگی، اس وقت پھر اس شئے کا وقت بھی ختم ہو جائے گا۔یہ کام کرتا ہے مادام آگے فرماتے ہیں :فَلَا بُدَّ مِن أَن يَكُونَ ، اس کے لیئے ضروری ہے  کہ ،  قَبلَهَا جُملَةََ فِعلِيَّةََ أَو اِسمِيّةََ، کہ ما دام سے پہلے ایک جملہ ہونا ضروری ہے چاہے وہ جملہ فعلیہ ہو یا اسمیہ ہو ، فعلیہ کی مثال :«اِجلِس مَادَامَ زَيدٌ جَالِساً» ما دام بتا رہا ہے تو بیٹھ ، تیرے بیٹھنے کا وقت تب تک ہے جب تک زید بیٹھا ہے ، یا جملہ اسمیہ ہو مادام سے پہلے : «زِيدٌ قائِمٌ مَادَامَ عَمروٌ قائماً» مادام بتا رہا ہے زید کے کھڑے ہونے کا وقت اتنی مدت تک ہے جتنی دیر عمرو کھڑا ہے ۔
وَالتَّاسِعُ (افعال ناقصہ میں سے نواں ہے) "مَا زَالَوَالْعَاشِرُ (دسواں) "مَا بَرِحَوَالْحَادِيَ عَشَرَ (گیارہواں) "مَا انْفَكَّوَالثَّانِيَ عَشَرَ (بارہواں) "مَا فَتِيَ"۔ اور کبھی کبھی اس کو "مَا فَتَأَ" بھی پڑھتے ہیں، بعض اور "مَا أَفْتَأَ" بھی پڑھتے ہیں۔

اب درحقیقت غور کرو: "مَا زَالَ"، "مَا بَرِحَ"، "مَا انْفَكَّ"، "مَا فَتِئَ" («مَا فَتَأَ»، یا «مَا أَفْتَأَ»)، تین لغات ہیں اس میں، وہ کوئی فرق نہیں ، اب یہ بھی آگئے افعال ناقصہ میں۔ 

خوب، کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْأَفْعَالِ الْأَرْبَعَةِ لِدَوَامِ ثُبُوتِ خَبَرِھَا لِاسْمِھَا مِن قَبلِه (چلیں، اس کو میرے خیال میں اگلے درس میں بیان کریں گے، تاکہ اس کو آسان سے ہو جائے)۔

وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَسَلَّمَ

وهي ثلاثة عشر فعلاً: الأوّل: «كَانَ» وهي قد تكون زائدة، مثل: «إنّ من أفضلِهم كان زيداً» وحينئذ لا تعمل، وقد تكون غير زائدة، وهي تجيء على معنيين: ناقصة وتامّة؛ فالناقصة تجيء على معنيين: أحدهما: أن يثبت خبرَها لاسمها في الزمان الماضي، سواء كان ممكنَ الانقطاع، مثل: «كان زيد قائماً» أو ممتنعَ الانقطاع، مثل: ﴿كَانَ اللهُ عَلِيماً حَكِيماً [النساء: ١٧]، وثانيهما: أن يكون بمعنى «صار»، مثل: «كان الفقير غنيًّا» أي: صار الفقير غنيًّا، والتامّة تتمّ بفاعلها، فلا تحتاج إلى الخبر، فلا تكون ناقصة، وحينئذ تكون بمعنى «ثبت»، مثل: «كان زيد» أي: ثبت زيد، والثاني: «صَارَ» وهي للانتقال، أي: لانتقال الاسم من حقيقة إلى حقيقة أخرى، نحو: «صار الطين خزفاً»، أو من صفَة إلى صفَة أخرى، مثل: «صار زيد غنيًّا»، وقد تكون تامّة بمعنى الانتقال من مكان إلى مكان آخر، وحينئذ تتعدى بـ«إلى»، نحو: صار زيد من بلد إلى بلد»، والثالث: «أَصْبَحَ» والرابع: «أَضْحَى» والخامس: «أمسَي»؛ فهذه الثلاثة لاقتران مضمون الجملة بأوقاتها التي هي الصباح والضحى والمساء، نحو: «أصبح زيد غنيًّا» معناه: حصل غناه في وقــــت

الصباح، ونحو: «أضحى زيد حاكماً» معناه: حصل له الحكومة في وقت الضحى، ونحو: «أمسى زيد قارياً» معناه حصل لـــه قرأته في وقت المساء، وهذه الثلاثة قد تكون بمعنى «صار»، مثل: «أصبح الفقير غنيًّا»، و«أمسي زيد كاتباً»، و«أضحى المظلم منيراً» وقد تكون تامّة، مثل: «أصبح زيد» بمعنى دخل زيد في الصباح، و«أمسى عمرو» أي: دخل عمرو في المساء، و «أضحى بكر» أي: دخل بكر في الضحى، والسادس: «ظَلَّ» والسابع: «بَاتَ» وهما لاقتران مضمون الجملة بالنهار والليل، نحو: «ظلّ زيد كاتباً» أي: حصل كتابته في النهار، و«بات زيد نائماً» أي: حصل نومه في الليل، وقد تكونان بمعنى «صار»، مثل: «ظلّ الصبي بالغاً»، و«بات الشابّ شيخاً» والثامن: «مَا دَامَ» وهي لتوقيت شيء بمدّة ثبوت خبرها لاسمها؛ فلا بدّ من أن يكون قبلها جملة فعليّة أو اسميّة، نحو: «اجلس مادام زيد جالساً»، و«زيد قائم مادام عمر قائماً»، والتاسع: «مَا زَالَ» والعاشر: «مَا بَرِحَ» والحادي عشر: «مَا انْفَكَّ» والثاني عشر: «مَا فَتِيَ» وقد يقال: «مَا فَتَأَ»، و«مَا أَفْتَأَ»، وكلّ واحد من هذه الأفعال الأربعة لدوام ثبوت خبرها لاسمها من قَبِلَه، ويلزمها