کَانَ:
الأوّل : ان میں سے پہلا ہے "کَانَ"۔ "کَانَ" کبھی عاملہ ہوتا ہے اور کبھی عاملہ نہیں ہوتا۔ توجہ کرنا ہے، یعنی یہ "کَانَ" ہمیشہ عاملہ نہیں کرتا، بلکہ یہ کبھی کبھی زائدہ ہوتا ہے۔ جب زائد ہوگا، تو جو ہم نے کہا ہے کہ ان کے بعد ایک جملہ اسمیہ ہوگا، اس مبتدا کو ان کی اسم بن جائے گی، اور خبر کو اس کی اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیں گے، وہ عمل نہیں کریں گے۔ لیکن کبھی کبھی یہ زائدہ نہیں ہوتا، بلکہ باقاعدہ عمل کرتا ہے۔ پھر آگے اس کی دو قسمیں: کبھی یہ ناقصہ ہوتا ہے اور کبھی تامہ۔ اس کی تفصیل آگے بیان کرتا ہوں۔
كَانَ کی تفصیل:
بہت غور سے لیں گے۔ تو فرماتے ہیں: افعال ناقصہ میں سے پہلا "كَانَ " ہے۔
وَھِیَ قَدْ تَكُونُ زَائِدَةً (کبھی کبھی یہ زائدہ ہوتا ہے)۔ زائدہ کا مطلب کئی دفعہ پیچھے گزارش کیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اگر یہ نہ بھی ہو، تو بھی معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معنی اس کا خالی ہے، نہیں آتا۔ ہاں، کوئی اور اضافی خوبی ہوتی ہے، اور بات ہوتی ہے۔
مثال: "إنَّ مِن أَفضَلِهِم كَانَ زَيداً"۔ اب یہاں "كَانَ " ہے، لیکن یہ "كَانَ " زائدہ ہے یہ "كَانَ " نہ بھی ہو، تو بھی فرق نہیں پڑتا۔ "إنَّ مِن أَفضَلِهِم كَانَ زَيداً" (یعنی ان سب میں سے افضل زائدہ)۔ یہ زائدہ نہیں، "إِنَّ" کا اسم بن جائے گا، اور "مِنْ أَفْضَلِهِمْ" اس کی خبر۔
پس جہاں "كَانَ " زائدہ ہے،
وَحِينَئِذٍ لَا تَعْمَلْ (جب "كَانَ " زائدہ ہوگا، تو پھر یہ عمل نہیں کرتا)۔ یعنی پھر یہ نہیں کہ یہ جملہ اسمی پر داخل ہوگا، اور مبتدا جو ہے، اس کو اپنا اسم بنا کر رفع دے گا، اور خبر کو نصب دے گا۔ نہیں، ایسا نہیں ، پس کبھی کبھار تو یہ ہوتا ہے زائدہ،
وَقَدْ تَكُونُ غَيْرَ زَائِدَةٍ (اور کبھی کبھی یہ زائد نہیں ہوتا)۔ ٹھیک ہے جی، "قَدْ تَكُونُ غَيْرَ زَائِدَةٍ" (یہ زائد نہیں ہوتا)، بلکہ باقاعدہ عمل کرتا ہے، اور اس کے نہ ہونے سے معنی پر بھی فرق پڑتا ہے۔
یہ "كَانَ " وَهِيَ تَجِيءُ عَلى مَعنَيَينِ یہ "كَانَ " آتا ہے، کبھی "كَانَ تَامَّہ" ہوتا ہے، اور کبھی "كَانَ نَاقِصَہ" ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ دیں کہ اس "كَانَ " کی دو قسمیں ہیں: ایک ہے "كَانَ تَامَّہ"، اور ایک ہے "كَانَ نَاقِصَہ"۔
ذرہ غور کے ساتھ:
"كَانَ " کی دو قسمیں: ایک "كَانَ تَامَّہ"، اور ایک "كَانَ نَاقِصَہ"۔
فَالنَّاقِصَةُ (پھر اگر یہ "كَانَ نَاقِصَہ " ہوتا ہے،تَجِيءُ عَلى مَعنَيَينِ تو اس کی پھر دو قسمیں ہیں)۔ یعنی ابتداء یوں کریں گے کہ اصل میں "كَانَ " کبھی ناقصہ ہوتا ہے، اور کبھی تامہ۔ دو قسمیں ہوگئیں۔ پھر اگر "كَانَ نَاقِصَہ " ہو، اس کی پھر دو قسمیں ہیں۔
اچھا، کیسے؟
- أَحَدُهُمَا:
ایک قسم یہ ہے: "أَنْ يُثْبِتَ خَبَرَهَا لِاسْمِهَا فِي الزَّمَانِ الْمَاضِي" (یہ "كَانَ" اپنی خبر کو اپنے اسم کے لیے ثابت کرتا ہے زمانہ ماضی میں)۔ کیا مطلب؟ یعنی "كَانَ" یہ بتاتا ہے کہ یہ خبر اس اسم کے لیے تھی زمانہ ماضی میں۔
اچھا، آگے بتاتے ہیں:
"سَوَاءٌ كَانَ مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ أَوْ مُمْتَنِعَ الاِنقِطاعِ " (اب اس مثال کو سمجھیں: ہم کہتے ہیں "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا")۔
نمبر ایک : "كَانَ" یہاں ناقصہ ہے۔
نمبر دو، یہ "كَانَ" بتا رہا ہے: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا"۔ ہم ترجمہ کیا کرتے ہیں: "زید قائم تھا زمانہ ماضی میں"۔ یعنی کیا بتا رہا ہے "كَانَ"؟ کہ یہ قیام زید کے لیے ثابت تھا زمانہ ماضی میں۔
ٹھیک ہو گیا بات۔ اب اس کے بعد اس کی پھر دو قسمیں ہو سکتی ہیں:
- ہوسکتا ہے ایک عرصے تک تو یہ خبر اس اسم کے لیے ثابت رہی ہو، یعنی کچھ عرصہ تو یہ قیام زید کے لیے رہا ہو، بعد میں یہ منقطع ہو گئی ہو، پھر وہ قیام زید سے جدا ہو گیا ہو۔
- اور بسا اوقات ہوتا ہے کہ نہیں، جب ایک دفعہ وہ خبر اس اسم کے لیے ثابت ہو گئی، پھر وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔
اب یہ "كَانَ" کی بات اگر لمبی ہے، اس کو ایک سطر کر کے آپ کاپی پربھی لکھیں گے، تو پھر آسان ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے جی، آپ پھر دوبارہ سن لیں آسان سے۔
فَالنَّاقِصَةُ (یعنی "كَانَ نَاقِصَہ" کی پھر دو قسمیں):
- أَحَدُهُمَا:
اگر "يُثْبِتَ" پڑھیں گے، تو خَبرَھا پڑہیں ثابت ہوگی، یعنی "يُثْبِتُ" فعل ہوگا، تو اس میں ضمیر ہوگی، ہوگا کہ وہ جو "كَانَ" ثابت کرے گا اپنی خبر کو اپنے اسم کے لیے۔
یا دوسرا طریقہ: " اَن یَثبُتَ خَبرُھَا "أَنْ يُثْبِتَ خَبَرَهُ لِاسْمِهَا" (کہ اُس کی خبر ثابت ہو اُس "كَانَ" کے اسم کے لیے)۔
يُثْبِتَ متعدی ہوتا ہے ، یَثبُتَ لازم ہوتا ہے ، جب : "یَثبُتَ " پڑہیں گے تو"خَبَرُها" پڑہیں گے اس کا فاعل بنا کر اور جب : "يُثْبِتَ " پڑہیں گے تو"خَبَرَها" یہ اس کا مفعول بنے گا ۔
اب "سَوَاءٌ كَانَ مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " (اب ہو سکتا ہے نہیں، کیا ہے؟ ممکن ہے "كَانَ مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ "، کہ یہ جو اب کہا گیا ہے کہ یہ خبر اُس اسم کے لیے ثابت ہے، ہو سکتا ہے یہ ثبوت ممکن الاِنقِطاعِ ہو)۔
"مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " کا معنی آپ یوں کریں اردو میں کہ اس خبر کا اُس اسم سے جدا ہونا ممکن ہو۔ کہ ہم نے جو کہا ہے: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا" (زید قائم تھا زمانہِ ماضی میں)، یعنی قیام ثابت تھا زید کے لیے زمانہِ ماضی میں۔ لیکن یہ "مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " ہے، کیا مطلب؟ یعنی ہو سکتا ہے کہ وہ پھر قیام اُس ذات سے ختم ہو گیا ہو، اب وہ قائم نہ ہو۔
اب فرماتے ہیں کہ بہرحال، یہ "كَانَ نَاقِصَہ" کی پہلی قسم، پہلی قسم کیا ہے؟ کہ اس کی خبر اُس کے اسم کے لیے ثابت ہوتی ہے زمانہِ ماضی میں، چاہے وہ "مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " ہو (کہ دوبارہ اُس کا اسم سے جدا ہونا ممکن ہو)۔
جس کی مثال: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا" (زید قائم تھا زمانہِ ماضی میں)، لیکن اب قیام کا زید سے جدا ہونا ممکن ہے۔ یہ بڑی بات نہیں ہے۔
یا "اَو مُمْتَنِعَ الاِنقِطاعِ " (یا ہو سکتا ہے کہ نہیں، جب خبر اُس اسم کے لیے ایک دفعہ ثابت ہو گئی، اب اُس خبر کا اُس اسم سے منقطع ہونا، اب اُس سے جدا ہونا ممکن ہی نہیں، ممتنع ہے) اب اُس سے جدا ہو ہی نہیں سکتی۔
جیسے آیتِ مجیدہ آئے: "كَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا" (اللہ علیم و حکیم تھا)۔ "كَانَ" یہاں ناقصہ ہے۔ "اللَّهُ" اُس کا اسم ہے، "عَلِيمًا حَكِيمًا" اُس کے لیے خبر ہے۔
اب یہ "عَلِيمًا حَكِيمًا" جو خبر اللہ کے لیے ثابت ہو گئی، اسم کے لیے ثابت ہو گئی ہے، اب یہ "مُمْتَنِعَ الاِنقِطاعِ " ہے، یعنی کبھی بھی اُس سے جدا نہیں ہو سکتی۔
خوب، یہ ہو گئی پہلی قسم ناقصہ کی۔
2۔وَثَانِيهِمَا (اور "كَانَ نَاقِصَہ" کی دوسری قسم، وہ ہے): "أَنْ يَكُونَ بِمَعْنَى صَارَ" (کہ یہ "كَانَ" "صَارَ" کے معنی میں ہو)۔ ان شاءاللہ آگے بتا رہے ہیں۔
آگے آ رہے ہیں: "صَارَ"۔ "صَارَ" ایک چیز کا دوسری چیز میں منتقل ہونا، ایک صفت سے دوسری صفت میں منتقل ہونا وغیرہ۔ کبھی کبھی یہ "كَانَ نَاقِصَہ" "صَارَ" کے معنی میں ہوتے ہیں، یعنی "كَانَ" وہی معنی دیتا ہے جو "صَارَ" دیتا ہے۔
مثال: "كَانَ الْفَقِيرُ غَنِيًّا"۔ اب یہاں پر یہ ترجمہ نہیں کرنا کہ "فقیر غنی تھا زمانہِ ماضی میں"، نہیں، بلکہ یہاں معنی کرنا ہے: "صَارَ الْفَقِيرُ غَنِيًّا" (فقیر غنی یعنی مالدار ہو گیا)۔ یہ معنی کرنا ہے۔
یہ دو قسمیں تو تھیں "كَانَ نَاقِصَة" کی۔
اور تیسری قسم: "كَانَ تَامَّة" ہوتا ہے۔ "كَانَ تَامَّة" کیا ہوتا ہے؟ "تَتِمُّ بِفَاعِلِهَا" (بس اس کے بعد اب اس کا فاعل آجاتا ہے، بس اسی سے وہ تامہ ہو جاتا ہے)، یعنی اپنی اسم کے ساتھ کلام مکمل ہو جاتی ہے۔ "فَلَا تَحْتَاجُ إِلَى الْخَبَرِ" (اور وہ خبر کا محتاج ہی نہیں ہوتا)۔
فرماتے ہیں: اگر "كَانَ تَامَّة" ہو اور خبر کا محتاج ہی نہ ہو، "فَلَا تَكُونُ نَاقِصَةََ" (پھر وہ ناقصہ نہیں ہوگا)۔
وَحِينَئِذٍ تَكُونُ كَانَ بِمَعْنَى ثَبَتَ (اس وقت وہ "كَانَ" "ثَبَتَ" کے معنی میں ہوگا)، یعنی "كَانَ زَیْدٌ" (زید ثابت ہے، زید موجود ہے، زید حاضر ہے)۔ اب اس کو کسی خبر کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں تک بات ہوگئی "كَانَ" کی۔