درس شرح مائة عامل

درس نمبر 18: افعال ناقصہ 1

 
1

خطبہ

2

دسویں نوع: افعال ناقصہ

اَلنَّوعُ العَاشِرُ الاَفعَالِ النَّاقِصَةُ، وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ نَاقِصَةً لِأَنَّهَا لَا تَكُونُ بِمُجَرَّدِ الْفَاعِلِ كَلَامًا تَامًّا، فَلَا تَخْلُو مِنْ نَقْصَانٍ۔

بحث ہماری چل رہی ہے۔ آپ نے عوامِلِ لفظیہ کی وہ لفظ جو عمل کرتے ہیں، معنی کے مقابل میں لفظیہ ابتدا میں کھا تھا کہ ان میں ان شاءاللہ تیرہ انواع کو ذکر کیا جائے گا۔ ان میں سے یہ ہے دسویں نوع، دسویں نوع افعالِ ناقصہ کے بارے میں ہے۔ یہ افعال ہیں، اسماء نہیں ہیں۔ اب تھوڑی ترتیب آپ پیچھے جائیں کہ پہلے چند فصلیں انہوں نے ذکر کی ان حروف کے بارے میں جو عمل کرتے تھے، پھر چند فصلیں ذکر کی ان اسماء کے بارے میں جو اسم تھے اور عمل کرتے تھے۔ اب دسویں نوع میں پہنچ  گئے ہیں افعال پر، کہ جو افعال ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ فعل لیکن عمل کرتے ہیں۔ ترتیب یہ ہے: پہلے حروف کو ذکر کیا، پھر اسماء عاملہ کو، اب شروع ہیں افعالِ عاملہ کو۔ وہ افعال جو عاملہ ہوتے ہیں، جو عمل کرتے ہیں۔ ان افعال میں سے ایک قسم ہے اَفعالِ ناقصہ ۔

پہلا سوال تو یہ ہے کہ ان افعال کو ناقصہ کہتے کیوں ہیں؟ یہ فعل ہے تو فعل ہے، فرماتے ہیں: اس لیے ان کو کہتے ہیں کہ یہ ایسے افعال ہیں کہ ان کے ساتھ اگر ان کے فاعل کو ذکر کر دیا جائے، تو بھی کلام پوری نہیں ہوتی، جب تک آگے دوسرے مفعول کو (یہ ان کا جو اگلا ہے) اس کو ذکر نہ کیا جائے۔

یعنی اگر ہم کہتے ہیں: "كَانَ زَیْدٌ" (زید تھا)، اب اس سے کلام پوری نہیں ہوتی۔ جو سننے والا ہوگا، وہ انتظار میں ہوگا: تو کیا تھا؟ زید عالم تھا؟ زید فقیر تھا؟ زید امیر تھا؟ زید صالح تھا؟ زید جاہل تھا؟ وہ کیا تھا؟ تو اس لیے، چونکہ اس کے بعد ذکر کرنا ہوتا ہے منصوب کو، اس کے بغیر ان کا معنی تام نہیں ہوتا، اس لیے ان کو کہتے ہیں افعال ناقصہ ۔ یعنی ان میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے، ان میں یہ نقص پائی جاتی ہے، ان میں یہ کمی پائی جاتی ہے کہ صرف فاعل کے آ جانے سے ان کا معنی تام نہیں ہوتا۔

بعض افعال ہوتے ہیں جن کا معنی جیسے ہم کہتے ہیں: "جَلَسَ زَیْدٌ" (زید بیٹھ گیا)، اب یہ معنی تام ہے، سننے والے کو سمجھ آگئی۔ ہم کہتے ہیں: "قَامَ زَیْدٌ" (زید کھڑا ہو گیا)، اب سننے والے کو سمجھ آگئی۔ ہم کہتے ہیں: "مَاتَ زَیْدٌ" (زید فوت ہو گیا، مر گیا)، سمجھ آگئی۔ لیکن یہ وہ فعل ہیں جو فقط فاعل کے آنے سے جن کا معنی تام نہیں ہوتا۔ ان میں یہ نقص پائی جاتی ہے، ان میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ صرف فاعل سے ان کی بات نہیں بنتی۔

ٹھیک ہو گیا جی۔ فرماتے ہیں: یہ افعال ناقصہ پورے جملے پر داخل ہوتے ہیں، اور وہ جملہ ،جملہ اسمیہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر یہ فعل نہ ہوں، تو بعد والا جملہ فعل ہو، تو وہ ایک مستقل باقاعدہ جملہ اسمیہ ہوتا ہے، جس میں ایک مبتدا ہوتی ہے اور ایک خبر۔ لیکن اسی جملہ اسمیہ پر، اسی مبتدا اور خبر پر، جب یہ افعال ناقصہ داخل ہو جاتے ہیں، تو پھر یہ اس مبتدا کو رفع دے کر اپنا اسم بنا لیتے ہیں، اور خبر کو نصب دے کر اپنی خبر۔

اب پہلے جو ہم کہتے تھے کہ وہ مبتدا اور خبر، اب کہیں گے کہ نہیں، یہ مبتدا کو  کہیں گے کہ یہ فعل ناقص کا اسم ہے، اور جو خبر تھی، وہ فعل ناقص کی خبر ہے۔

مثال بالکل آسان: جملہ اسمیہ "زَیْدٌ قَائِمٌ"، ہم کہتے ہیں: "زَیْدٌ" مبتدا ہے، اور "قَائِمٌ" خبر ہے۔ یہ جملہ اسمیہ ہے کہ "زید قائم ہے"۔ لیکن اس سے پہلے اگر کوئی افعال ناقصہ میں سے آجائے، مثال کے طور پر ہم کہتے ہیں: "كَانَ" (افعال ناقصہ میں سے)۔ اب جب "كَانَ" آئے گا، اب "كَانَ" نے عمل کرنا ہے۔ یہ کہے گا: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا

اچھا، اس "كَانَ" نے کیا کیا؟ کہ اب "زَیْدٌ" کو مبتدا نہیں کہیں گے، آپ کہیں گے: "زَیْدٌ" "كَانَ" کا اسم ہے، اور "كَانَ" نے "زَیْدٌ" کو رفع دیا ہے۔ اور "قَائِمًا" "كَانَ" کی خبر ہے، اور "كَانَ" نے اس "قَائِمًا" کو نصب دیا ہے۔
اب ذرا غور کرنا ہے :

نمبر ایک: افعال ناقصہ پہلی سطر کو ناقصہ کیوں کہتے ہیں؟ جواب: کیونکہ ان میں ایک نقص پایا جاتا ہے، ان میں ایک کمزوری ہے کہ صرف فاعل کے ساتھ ان کا معنی تام نہیں ہوتا۔

نمبر دو: افعال ناقصہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ اب اسمیہ کا مطلب کیا ہے؟ یعنی جملہ فعلیہ پر داخل نہیں ہوتے، جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ اور پھر جملہ اسمیہ میں تو ایک مبتدا ہوتی ہے اور ایک خبر ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں: وہ مبتدا ان افعال ناقصہ کا اسم کہا جائے گی، اور خبر ان کی خبر۔  یہ عمل کیا کرتے ہیں ؟ یہ اسم کو رفع دیتے ہیں، اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔

ٹھیک ہو گیا جی۔ اب ہیں کتنے ہیں؟ فرماتے ہیں: یہ کل تیرہ ہیں۔ ٹھیک ہے جی، تیرہ ہیں۔ آگے بتاتے ہیں سارے ایک ایک۔ فرماتے ہیں: اَلنَّوعُ العَاشِرُ الاَفعَالِ النَّاقِصَةُ،  دسویں نوع یہ ہے افعال ناقصہ کے بارے میں۔

سوال: جب افعال آ گیا، اب اس سے پہلے دو سطریں اضافی کردیں کہ ابتدا میں کچھ انواع ہیں جو حروف عاملہ کے بارے میں تھیں، بعد میں دو تین انواع آئیں جو اسماء عاملہ کے بارے میں تھیں۔  اور اب شروع ہو گئے وہ افعال جو عامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے افعال ناقصہ ۔

وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ نَاقِصَۃََ (ان افعال کو افعال ناقصہ کا نام دیا گیا ہے)۔ یہ ان کا نام رکھا گیا ہے ناقصہ، یعنی ان افعال کو افعالِ ناقصہ کہتے ہیں۔ کیوں کہتے ہیں؟  جواب یہ ہے لِأَنَّهَا (کیونکہ یہ افعال) لَا تَكُونُ بِمُجَرَّدِ الْفَاعِلِ كَلَامًا تَامًّا (کیونکہ فقط فاعل کو ان کے ساتھ لگانے سے کلامِ تام نہیں ہوتی)۔ یعنی اگر افعال ناقصہ میں سے کسی فاعل کو رکھ دیں، اور اس کے بعد اس کا فقط فاعل آ جائے، فرماتے ہیں : اس سے کلام تام نہیں ہوتی۔

پس فَلَا تَخْلُو مِنْ نَقْصَانٍ (لہٰذا یہ نقص خالی نہیں ہے)۔ کیا مطلب؟ یعنی ان میں یہ کمزوری ہے کہ صرف فاعل سے، صرف اسم کو ذکر کرنے سے کلام تام نہیں ہوتی، بات مکمل نہیں ہوتی، مطلب پورا نہیں ہوتا۔

یہ تو ہوگئی ناقصہ کی بات۔ وَهِيَ تَدْخُلُ عَلَى الْجُمْلَةِ الْإِسْمِيَّةِ (یہ افعال ناقصہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں)۔ جملہ اسمیہ کا مطلب کیا؟ یعنی جس جملے کی دونوں جزیں اسم ہوتی ہیں، پہلی جزءکو مبتدا اور دوسری جزء کو خبر کہتے ہیں۔ تو پس آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ افعال ناقصہ مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں۔ جملے کی پہلی جزء مبتدا ہوتی ہے، دوسری خبر۔

تَرْفَعُ الْجُزْءَ الْأَوَّلَ مِنْهَا (جملہ اسمیہ کی پہلی جز کو یہ رفع دیتے ہیں)، وہ جو مبتدا تھی۔

وَيُسَمَّى اِسمَهَا، اور پھر اس کا نام رکھا جاتا ہےان افعال کا اسم ، اب اسم کو مبتدا نہیں کھیں گے بلکہ یہ ان افعال ناقصہ  کا اسم ہے۔

 وَتَنْصِبُ الْجُزْءَ الثَّانِيَ مِنْهَا (اور اس جملہ اسمیہ کی دوسری جز کو نصب دیتے ہیں)۔

وَيُسَمَّى خَبَرَهَا (اور اس کا نام رکھا جاتا ہے ان ہی افعال کی خبر)۔

 یعنی پہلے وہ مبتدا کی خبر تھی، اب کہیں گے کہ نہیں، یہ اس فعل ناقص کا اسم اور یہ اس فعل ناقص کی خبر۔ اب وہ اسی فعل ناقص کا اسم اور خبر ہوگا۔ آپس میں مبتدا اور خبر نہیں ہوں گے۔

وَهِيَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ فِعْلًا (یہ افعال ناقصہ کتنے؟ فرماتے ہیں: یہ ہیں تیرہ)

کَانَ، صَارَ، أَصْبَحَ، أَمْسَى، مَا زَالَ، مَا بَرِحَ، مَا فَتِئَ، مَا انْفَكَّ۔ ان شاءاللہ آگے کے کر کے پہنچیں۔

افعال ناقصہ کتنے ہیں؟ تو جواب ہوگا: تیرہ فعل ہیں۔

3

افعال ناقصہ: "كَانَ" کی بحث

کَانَ:
الأوّل : ان میں سے پہلا ہے "کَانَ"۔ "کَانَ" کبھی عاملہ ہوتا ہے اور کبھی عاملہ نہیں ہوتا۔ توجہ کرنا ہے، یعنی یہ "کَانَ" ہمیشہ عاملہ نہیں کرتا، بلکہ یہ کبھی کبھی زائدہ ہوتا ہے۔ جب زائد ہوگا، تو جو ہم نے کہا ہے کہ ان کے بعد ایک جملہ اسمیہ ہوگا، اس مبتدا کو ان کی اسم بن جائے گی، اور خبر کو اس کی اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیں گے، وہ عمل نہیں کریں گے۔ لیکن کبھی کبھی یہ زائدہ نہیں ہوتا، بلکہ باقاعدہ عمل کرتا ہے۔ پھر آگے اس کی دو قسمیں: کبھی یہ ناقصہ ہوتا ہے اور کبھی تامہ۔ اس کی تفصیل آگے بیان کرتا ہوں۔

كَانَ کی تفصیل:
بہت غور سے لیں گے۔ تو فرماتے ہیں: افعال ناقصہ میں سے  پہلا "كَانَ " ہے۔

وَھِیَ قَدْ تَكُونُ زَائِدَةً (کبھی کبھی یہ زائدہ ہوتا ہے)۔ زائدہ کا مطلب کئی دفعہ پیچھے گزارش کیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اگر یہ نہ بھی ہو، تو بھی معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معنی اس کا خالی ہے، نہیں آتا۔ ہاں، کوئی اور اضافی خوبی ہوتی ہے، اور بات ہوتی ہے۔

مثال: "إنَّ مِن أَفضَلِهِم كَانَ زَيداً"۔ اب یہاں "كَانَ " ہے، لیکن یہ "كَانَ " زائدہ ہے یہ "كَانَ " نہ بھی ہو، تو بھی فرق نہیں پڑتا۔ "إنَّ مِن أَفضَلِهِم كَانَ زَيداً" (یعنی ان سب میں سے افضل زائدہ)۔ یہ زائدہ نہیں، "إِنَّ" کا اسم بن جائے گا، اور "مِنْ أَفْضَلِهِمْ" اس کی خبر۔

پس جہاں "كَانَ " زائدہ ہے،

وَحِينَئِذٍ لَا تَعْمَلْ (جب "كَانَ " زائدہ ہوگا، تو پھر یہ عمل نہیں کرتا)۔ یعنی پھر یہ نہیں کہ یہ جملہ اسمی پر داخل ہوگا، اور مبتدا جو ہے، اس کو اپنا اسم بنا کر رفع دے گا، اور خبر کو نصب دے گا۔ نہیں، ایسا نہیں ، پس کبھی کبھار تو یہ ہوتا ہے زائدہ،

 وَقَدْ تَكُونُ غَيْرَ زَائِدَةٍ (اور کبھی کبھی یہ زائد نہیں ہوتا)۔ ٹھیک ہے جی، "قَدْ تَكُونُ غَيْرَ زَائِدَةٍ" (یہ زائد نہیں ہوتا)، بلکہ باقاعدہ عمل کرتا ہے، اور اس کے نہ ہونے سے معنی پر بھی فرق پڑتا ہے۔

یہ "كَانَ " وَهِيَ تَجِيءُ عَلى مَعنَيَينِ  یہ "كَانَ " آتا ہے، کبھی "كَانَ تَامَّہ" ہوتا ہے، اور کبھی "كَانَ نَاقِصَہ" ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ دیں کہ اس "كَانَ " کی دو قسمیں ہیں: ایک ہے "كَانَ تَامَّہ"، اور ایک ہے "كَانَ نَاقِصَہ"۔

ذرہ غور کے ساتھ:
"كَانَ " کی دو قسمیں: ایک "كَانَ تَامَّہ"، اور ایک "كَانَ نَاقِصَہ"۔

فَالنَّاقِصَةُ (پھر اگر یہ "كَانَ نَاقِصَہ " ہوتا ہے،تَجِيءُ عَلى مَعنَيَينِ تو اس کی پھر دو قسمیں ہیں)۔ یعنی ابتداء یوں کریں گے کہ اصل میں "كَانَ " کبھی ناقصہ ہوتا ہے، اور کبھی تامہ۔ دو قسمیں ہوگئیں۔ پھر اگر "كَانَ نَاقِصَہ " ہو، اس کی پھر دو قسمیں ہیں۔

اچھا، کیسے؟

  1. أَحَدُهُمَا:
    ایک قسم یہ ہے: "أَنْ يُثْبِتَ خَبَرَهَا لِاسْمِهَا فِي الزَّمَانِ الْمَاضِي" (یہ "كَانَ" اپنی خبر کو اپنے اسم کے لیے ثابت کرتا ہے زمانہ ماضی میں)۔ کیا مطلب؟ یعنی "كَانَ" یہ بتاتا ہے کہ یہ خبر اس اسم کے لیے تھی زمانہ ماضی میں۔

اچھا، آگے بتاتے ہیں:
"سَوَاءٌ كَانَ مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ أَوْ مُمْتَنِعَ الاِنقِطاعِ " (اب اس مثال کو سمجھیں: ہم کہتے ہیں "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا")۔

نمبر ایک : "كَانَ" یہاں ناقصہ ہے۔ 

نمبر دو، یہ "كَانَ" بتا رہا ہے: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا"۔ ہم ترجمہ کیا کرتے ہیں: "زید قائم تھا زمانہ ماضی میں"۔ یعنی کیا بتا رہا ہے "كَانَ"؟ کہ یہ قیام زید کے لیے ثابت تھا زمانہ ماضی میں۔

ٹھیک ہو گیا بات۔ اب اس کے بعد اس کی پھر دو قسمیں ہو سکتی ہیں:

  1. ہوسکتا ہے ایک عرصے تک تو یہ خبر اس اسم کے لیے ثابت رہی ہو، یعنی کچھ عرصہ تو یہ قیام زید کے لیے رہا ہو، بعد میں یہ منقطع ہو گئی ہو، پھر وہ قیام زید سے جدا ہو گیا ہو۔
  2. اور بسا اوقات ہوتا ہے کہ نہیں، جب ایک دفعہ وہ خبر اس اسم کے لیے ثابت ہو گئی، پھر وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔

اب یہ "كَانَ" کی بات اگر لمبی ہے، اس کو ایک سطر کر کے آپ کاپی  پربھی لکھیں گے، تو پھر آسان ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے جی، آپ پھر دوبارہ سن لیں آسان سے۔

فَالنَّاقِصَةُ (یعنی "كَانَ نَاقِصَہ" کی پھر دو قسمیں):

  1. أَحَدُهُمَا:
    اگر "يُثْبِتَ" پڑھیں گے، تو خَبرَھا  پڑہیں  ثابت ہوگی، یعنی "يُثْبِتُ" فعل ہوگا، تو اس میں ضمیر ہوگی، ہوگا کہ وہ جو "كَانَ" ثابت کرے گا اپنی خبر کو اپنے اسم کے لیے۔

یا دوسرا طریقہ: " اَن یَثبُتَ خَبرُھَا  "أَنْ يُثْبِتَ خَبَرَهُ لِاسْمِهَا" (کہ اُس کی خبر ثابت ہو اُس "كَانَ" کے اسم کے لیے)۔

   يُثْبِتَ متعدی  ہوتا ہے ، یَثبُتَ لازم ہوتا ہے ، جب : "یَثبُتَ " پڑہیں گے  تو"خَبَرُها"  پڑہیں گے اس کا فاعل بنا کر  اور جب : "يُثْبِتَ " پڑہیں گے  تو"خَبَرَها" یہ اس کا مفعول بنے گا ۔

اب "سَوَاءٌ كَانَ مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " (اب ہو سکتا ہے نہیں، کیا ہے؟ ممکن ہے "كَانَ مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ "، کہ یہ جو اب کہا گیا ہے کہ یہ خبر اُس اسم کے لیے ثابت ہے، ہو سکتا ہے یہ ثبوت ممکن الاِنقِطاعِ ہو)۔

"مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " کا معنی آپ یوں کریں اردو میں کہ اس خبر کا اُس اسم سے جدا ہونا ممکن ہو۔ کہ ہم نے جو کہا ہے: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا" (زید قائم تھا زمانہِ ماضی میں)، یعنی قیام ثابت تھا زید کے لیے زمانہِ ماضی میں۔ لیکن یہ "مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " ہے، کیا مطلب؟ یعنی ہو سکتا ہے کہ وہ پھر قیام اُس ذات سے ختم ہو گیا ہو، اب وہ قائم نہ ہو۔

اب فرماتے ہیں کہ بہرحال، یہ "كَانَ نَاقِصَہ" کی پہلی قسم، پہلی قسم کیا ہے؟ کہ اس کی خبر اُس کے اسم کے لیے ثابت ہوتی ہے زمانہِ ماضی میں، چاہے وہ "مُمْكِنَ الاِنقِطاعِ " ہو (کہ دوبارہ اُس کا اسم سے جدا ہونا ممکن ہو)۔

جس کی مثال: "كَانَ زَیْدٌ قَائِمًا" (زید قائم تھا زمانہِ ماضی میں)، لیکن اب قیام کا زید سے جدا ہونا ممکن ہے۔ یہ بڑی بات نہیں ہے۔

یا "اَو مُمْتَنِعَ الاِنقِطاعِ " (یا ہو سکتا ہے کہ نہیں، جب خبر اُس اسم کے لیے ایک دفعہ ثابت ہو گئی، اب اُس خبر کا اُس اسم سے منقطع ہونا، اب اُس سے جدا ہونا ممکن ہی نہیں، ممتنع ہے) اب اُس سے جدا ہو ہی نہیں سکتی۔

جیسے آیتِ مجیدہ آئے: "كَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا" (اللہ علیم و حکیم تھا)۔ "كَانَ" یہاں ناقصہ ہے۔ "اللَّهُ" اُس کا اسم ہے، "عَلِيمًا حَكِيمًا" اُس کے لیے خبر ہے۔

 اب یہ "عَلِيمًا حَكِيمًا" جو خبر اللہ کے لیے ثابت ہو گئی، اسم کے لیے ثابت ہو گئی ہے، اب یہ "مُمْتَنِعَ الاِنقِطاعِ " ہے، یعنی کبھی بھی اُس سے جدا نہیں ہو سکتی۔

خوب، یہ ہو گئی پہلی قسم ناقصہ کی۔

2۔وَثَانِيهِمَا (اور "كَانَ نَاقِصَہ" کی دوسری قسم، وہ ہے): "أَنْ يَكُونَ بِمَعْنَى صَارَ" (کہ یہ "كَانَ" "صَارَ" کے معنی میں ہو)۔ ان شاءاللہ آگے بتا رہے ہیں۔

آگے آ رہے ہیں: "صَارَ"۔ "صَارَ" ایک چیز کا دوسری چیز میں منتقل ہونا، ایک صفت سے دوسری صفت میں منتقل ہونا وغیرہ۔ کبھی کبھی یہ "كَانَ نَاقِصَہ" "صَارَ" کے معنی میں ہوتے ہیں، یعنی "كَانَ" وہی معنی دیتا ہے جو "صَارَ" دیتا ہے۔

مثال: "كَانَ الْفَقِيرُ غَنِيًّا"۔ اب یہاں پر یہ ترجمہ نہیں کرنا کہ "فقیر غنی تھا زمانہِ ماضی میں"، نہیں، بلکہ یہاں معنی کرنا ہے: "صَارَ الْفَقِيرُ غَنِيًّا" (فقیر غنی یعنی مالدار ہو گیا)۔ یہ معنی کرنا ہے۔

یہ دو قسمیں تو تھیں "كَانَ نَاقِصَة" کی۔

اور تیسری قسم: "كَانَ تَامَّة" ہوتا ہے۔ "كَانَ تَامَّة" کیا ہوتا ہے؟ "تَتِمُّ بِفَاعِلِهَا" (بس اس کے بعد اب اس کا فاعل آجاتا ہے، بس اسی سے وہ تامہ ہو جاتا ہے)، یعنی اپنی اسم کے ساتھ کلام مکمل ہو جاتی ہے۔ "فَلَا تَحْتَاجُ إِلَى الْخَبَرِ" (اور وہ خبر کا محتاج ہی نہیں ہوتا)۔

فرماتے ہیں: اگر "كَانَ تَامَّة" ہو اور خبر کا محتاج ہی نہ ہو، "فَلَا تَكُونُ نَاقِصَةََ" (پھر وہ ناقصہ نہیں ہوگا)۔

وَحِينَئِذٍ تَكُونُ كَانَ بِمَعْنَى ثَبَتَ  (اس وقت وہ "كَانَ" "ثَبَتَ" کے معنی میں ہوگا)، یعنی "كَانَ زَیْدٌ" (زید ثابت ہے، زید موجود ہے، زید حاضر ہے)۔ اب اس کو کسی خبر کی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں تک بات ہوگئی "كَانَ" کی۔

4

افعال ناقصہ: "صَارَ" کی بحث

افعال ناقصہ میں سے دوسرا فعل : صَارَ
جو دوسرا فعل ہے، وہ ہے "صَارَ"۔ "صَارَ" یہ بھی اسی طرح جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے، یعنی مبتدا اور خبر پر داخل ہوتا ہے۔ مبتدا کو رفع دے کر اپنا اسم بنا دیتا ہے، خبر کو نصب دیتا ہے۔ لیکن معنی کیا دیتا ہے؟ فرماتے ہیں: "صَارَ" معنی دیتا ہے "لِلِانْتِقَال" (منتقل ہونا) اردو میں بھی جواب ہوتا ہے: "فلان چیز فلان جگہ منتقل ہو گئی"، "دفتر منتقل ہو گیا"، "گھر منتقل کر لیا"، "فلان چیز فلان میں منتقل ہو گئی"، "اختیارات منتقل ہو گئے" یہ "صَارَ" انتقال کے لیے آتا ہے،اچھا، یہاں انتقال سے کیا مراد ہے؟ یعنی اس سے مراد ہے: 

"لِانْتِقَالِ الِاسْمِ مِنْ حَقِيقَةٍ إِلَى حَقِيقَةٍ أُخْرَى" (یہ "صَارَ" بتاتا ہے کہ میرا اسم اس حقیقت سے دوسری حقیقت میں منتقل ہو گیا)۔

"صَارَ" بتاتا ہے: میرا اسم پہلے یہ تھا، اب یہ ہو گیا۔ یعنی میرے اسم کی پہلے حقیقت کوئی اور تھی، اب کوئی اور ہو گئی ہے۔

بالکل آسان سے مثال: "صَارَ الطِّينُ خَزَفًا" (مٹی ہو گئی اینٹ)۔ مٹی کو "طِين" کہتے ہیں، اینٹ کو "خَزَف" کہتے ہیں یا یہ جو ٹھیکری ہوتی ہے، جو پک جاتی ہے، اُس کو۔ اب "صَارَ" کہہ رہا ہے: "صَارَ الطِّينُ خَزَفًا" (مٹی ہو گئی اینٹ)۔

مرادی معنی ہم نہیں لے رہے ہیں۔ آپ کیا بتا رہا ہے؟ کہ پہلے اُس کی حقیقت مٹی تھی، ایک سادہ تھی، لیکن اب وہ پک گئی ہے، اور اب پک کے وہ اینٹ بن گئی۔

"اَو مِنْ صِفَةٍ إِلَى صِفَةٍ أُخْرَى" (یہ بتاتا ہے کہ میرا اسم ایک صفت سے دوسری صفت میں منتقل ہو گیا ہے)۔ کہ پہلے اُس کی صفت کوئی اور تھی، اب اُس کی صفت کوئی اور ہے۔

جیسے ہم کہتے ہیں: مثال "صَارَ زَیْدٌ غَنِيًّا" (زید ہو گیا غنی)۔ "صَارَ" بتا رہا ہے کہ میرا اسم زید پہلے غنی نہیں تھا، اب صفتِ غِنیٰ اُس میں آگئی ہے، اب وہ غنی ہو گیا، اب وہ مالدار ہو گیا ہے۔

فرماتے ہیں: "وَقَدْ تَكُونُ تَامَّة" ("كَانَ" کی طرح یہ "صَارَ" بھی کبھی کبھار "صَارَ تَامَّہ " ہوتا ہے)، یعنی یہ ناقصہ نہیں ہوتا۔ تو اُس وقت " بِمَعْنَى الِانْتِقَالِ مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ آخَرَ" (جب "صَارَ" ایک جگہ سے دوسری جگہ میں انتقال کے معنی کو بیان کر رہا ہو) ، ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف معنی کو بیان کر رہا ہو ، انتفقال کا معنیٰ بیان کرنا ہو تو صَار تامہ ہوتا ہے لیکن وَحِينَئِذِِ تَتَعَدِّى بِـ«إِلىٰ»، اس وقت اسے متعدی کیا جائے گا اِلی کے ذریعے سے   نحو: صَارَ زَيدٌ مِن بَلَدِِ إِلىٰ بَلَدِِ» زید منتقل ہوا ایک شھر سے دوسرے شھر کی طرف ، یہاں صار تامہ ہے اسے خبر کی ضرورت نہیں ہے اور اسے اِلی کے ذریعے سے متعدی کیا گیا ہے ۔

ألزم زيداً، وخامسها: «حَيَّهَلَ»؛ فإنّه موضوع لـ«اِيْتِ»، مثل: «حيّهل الصلاة» أي: ايت الصلاة، وسادسها: «ها»؛ فإنّه موضوع لـ«خذ»، مثل: «ها زيداً» أي: خذ زيداً، وقد جاء فيه ثلاث لغات: «هَأ» بسكون الهمزة و«هَاءِ» بزيادة الهمزة المكسورة، و«هَاَء» بزيادة الهمزة المفتوحة، ولا بُدَّ لهذه الأسماء من فاعل، وفاعلها ضمير المخاطَب المستترُ فيها، وثلاثة منها موضوعة للفعل الماضي، وترفع الاسم بالفاعليّة، أحدها: «هَيْهَاتَ»؛ فإنّه موضوع لـ«بعد»، مثل: «هيهات زيد» أي: بُعد زيد، وثانيها: «سَرْعَانَ»؛ فإنّه موضوع لـ«سرع» مثل: «سرعان زيد» أي: سرع زيد، وثالثها: «شَتَّانَ»؛ فإنّه موضوع لـ «افترق»، مثل: «شتّان زيد وعمرو» أي: افترق زيد وعمرو.

النوع العاشر

الأفعال الناقصة وإنّما سمّيت ناقصة؛ لأنّها لا تكون بمجرّد الفاعل كلاماً تامًّا، فلا تخلو عن نقصان، وهي تدخل على الجملة الاسميّة أي: المبتدأ والخبر، ترفع الجزء الأوّل منها ويسمّى اسمَها، وتنصب الجزء الثانيَ منها، ويسمّى خبرَها،

وهي ثلاثة عشر فعلاً: الأوّل: «كَانَ» وهي قد تكون زائدة، مثل: «إنّ من أفضلِهم كان زيداً» وحينئذ لا تعمل، وقد تكون غير زائدة، وهي تجيء على معنيين: ناقصة وتامّة؛ فالناقصة تجيء على معنيين: أحدهما: أن يثبت خبرَها لاسمها في الزمان الماضي، سواء كان ممكنَ الانقطاع، مثل: «كان زيد قائماً» أو ممتنعَ الانقطاع، مثل: ﴿كَانَ اللهُ عَلِيماً حَكِيماً [النساء: ١٧]، وثانيهما: أن يكون بمعنى «صار»، مثل: «كان الفقير غنيًّا» أي: صار الفقير غنيًّا، والتامّة تتمّ بفاعلها، فلا تحتاج إلى الخبر، فلا تكون ناقصة، وحينئذ تكون بمعنى «ثبت»، مثل: «كان زيد» أي: ثبت زيد، والثاني: «صَارَ» وهي للانتقال، أي: لانتقال الاسم من حقيقة إلى حقيقة أخرى، نحو: «صار الطين خزفاً»، أو من صفَة إلى صفَة أخرى، مثل: «صار زيد غنيًّا»، وقد تكون تامّة بمعنى الانتقال من مكان إلى مكان آخر، وحينئذ تتعدى بـ«إلى»، نحو: صار زيد من بلد إلى بلد»، والثالث: «أَصْبَحَ» والرابع: «أَضْحَى» والخامس: «أمسَي»؛ فهذه الثلاثة لاقتران مضمون الجملة بأوقاتها التي هي الصباح والضحى والمساء، نحو: «أصبح زيد غنيًّا» معناه: حصل غناه في وقــــت