درس شرح مائة عامل

درس نمبر 17: اسماءِ افعال

 
1

خطبہ

2

اسماءِ افعال

النوع التاسع : أَسْمَاءٍ تُسَمَّى أَسْمَاءَ الْأَفْعَالِ، وَإِنَّمَا سُمِّيَتْ بِأَسْمَاءِ الْأَفْعَالِ لِأَنَّ مَعَانِيهَا أَفْعَالٌ، وَهِيَ تِسْعَةٌ۔

عوامل لفظیہ میں سے نویں نو آگئی ہے، ان اسماء کے بارے میں جو اسم ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ درسوں میں گزارش کی تھی کہ پہلے انہوں نے ان حروف کا ذکر کیا کہ جو حرف ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے شروع کیا تھا اسماء کو ۔

 یہ اسماء جو عمل کرتے ہیں، ان کا ایک نام ہے، اس کو کہتے ہیں "اسماء الافعال"۔

کیونکہ آپ کو پتہ ہے، آپ پڑھ چکے ہیں کہ اسم اور فعل دو الگ چیزیں ہیں۔ زید اسم ہے، "ضَرَبَ" فعل ہے۔ زید فقط ذات پر دلالت کرتا ہے، جبکہ فعل معنی بھی دیتا ہے اور زمانہ بھی۔ دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے۔ یہ ساری باتیں آپ ابتدائی کتاب میں ان شاءاللہ کہیں نہ کہیں پڑھ چکے ہیں کہ اسم، فعل اور حرف۔ وہاں یہی مثال دیتے ہیں: اسم کی مثال جیسے "زَیْدٌ"، فعل کی مثال جیسے "ضَرَبَ"۔ اب "ضَرَبَ" دو چیزیں بتا رہا ہے: ایک تو مارنے والے معنی کو بھی دلالت کر رہا ہے، اور ساتھ "ضَرَبَ" یہ بھی بتا رہا ہے کہ اس نے زمانہ ماضی میں مارا ہے۔ یَضرِبُ "وہ مارے گا" یعنی جہاں وہ معنی بتا رہا ہے، ساتھ ساتھ اس کا زمانے کو بھی دلالت کرتا ہے، جبکہ اسم زمانے کی بات نہیں کرتا۔

اب ان کو کہا گیا ہے "اسماء الافعال"، تو سوال یہ ہوگا کہ جناب، اسم اور فعل دو الگ چیزیں ہیں۔ تو جو اسم ہوتا ہے، وہ فعل نہیں ہوتا، جو فعل ہوتا ہے، وہ اسم نہیں ہوتا۔ تو ان کو کیوں کہتے ہیں "اسماء الافعال"؟ یہ اسماء بھی ہیں اور افعال کے معنی بھی دیتے ہیں۔

فرماتے ہیں: اس لیے کہ یہ صورتاً ، لفظاً اسم ہیں، لیکن معنی دیتے ہیں فعل کا۔ صورتاً اسم ہیں، لیکن کیونکہ معنی فعل والا دیتے ہیں، اس لیے کہا جاتا ہے "اسماء الافعال"۔ یعنی ایسے اسماء جو فعل کا معنی دیتے ہیں۔

جیسے ہم کہتے ہیں: اسمِ جمع ہے، اسم لیکن جو اسم جمع کا معنی پایا جاتا ہے، تو وہ کہتے ہیں "اسمِ جمع"، کہیں کہتے ہیں "اسمِ مصدر"، کہیں کہتے ہیں "اسمِ صفت"۔ تو یہ بھی اسی طرح ہے، کیونکہ یہ افعال کا معنی ان میں پایا جاتا ہے، اس لیے ان کو کہا جاتا ہے "اسماءِ الافعال"۔

یہ اسماء افعال کل نو ہیں۔ ان میں سے چھے اسم ایسے ہیں جو فعلِ امرِ حاضر کا معنی دیتے ہیں، اور تین ایسے ہیں جو ماضی کا معنی دیتے ہیں۔ لہٰذا، جو چھے فعلِ امر ِحاضر کا معنی دیں گے، وہ یقیناً اپنے معمول کو نصب دیں گے، اس لیے کہ وہ ان کا مفعول واقع ہوگا۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "اِضرِب زَیْدًا"، یہ فعل ماضی ہے، بعد میں "زَیْدًا" کو ہم نصب پڑھتے ہیں، اس لیے کہ اس کا مفعول ہوتا ہے۔

تو یہاں یہ جو نو(۹) اسماء ہیں، ان کا حکم بھی اسی طرح ہے کہ ان میں سے جو چھے ہیں، یہ معنی دیتے ہیں فعلِ امر والا۔ اب جب فعل امر کا معنی دیں گے، تو نتیجہ کیا ہوگا؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے بعد کا جو اسم ہوگا، اس کو یہ نصب دیں گے، اس لیے کہ یہ بنابر مفعولیت کے، کیونکہ بعد والے اسم ان کا مفعول ہوگا۔

اب ایک ایک کر کے پڑھتے ہیں۔ آسان سی بات ہے، اس میں کوئی خاص مشکل چیز نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: اَلنَّوْعٌ تَاسِعٌ ،نویں نوع (یہ نو قسم ہیں)، أَسْمَاءٌ (اسماء ہیں)، (یہ اسماء ہیں)، تُسَمَّى (جن کا نام رکھا گیا ہے) أَسْمَاءَ الْأَفْعَالِ (اسماء الافعال)۔

ٹھیک ہے، إِنَّهُ إِنَّمَا سُمِّيَتْ بِأَسْمَاءِ الْأَفْعَالِ (ان اسماء الافعال کو اسماء الافعال کیوں کہتے ہیں؟) کیونکہ میں نے گزارش کی تھی کہ اسم اور فعل دو الگ چیزیں ہیں۔ ہم نے ابتدائی کتاب میں پڑھا ہے کہ کلمہ  تین قسم کے ہوتے ہیں: اسم، فعل اور حرف۔ تو جب اسم اور فعل دو الگ چیزیں ہیں، تو ہم ان کو کہہ رہے ہیں کہ "اسماء الافعال"۔

فرماتے ہیں: إِنَّمَا سُمِّيَتْ (ان کا نام رکھا گیا ہے) أَسْمَاءَ الْأَفْعَالِ (اسماء الافعال)، کیوں؟ جواب یہاں سے آئے: لِأَنَّ مَعَانِيهَا أَفْعَالٌ (اس لیے کہ یہ صورت میں تو اسم ہیں، لیکن یہ ان کے معنی افعال ہیں)۔ یعنی معنی فعل والا دیتے ہیں۔

جیسے میں نے گزارش کی کہ چھ ایسے ہیں جو فعل امر حاضر کا معنی دیتے ہیں، اور تین ہیں جو فعل ماضی کا۔ چونکہ یہ معنی فعل ہیں، یعنی افعال کا معنی دیتے ہیں، اس لیے ہم ان کو کہتے ہیں "اسماء الافعال"۔

اور جیسے ہم کہتے ہیں: اسم جمع، اسم مصدر، اسم صفت وغیرہ۔ تو یہ بھی اسی طرح، اسم آیا فعل۔ وہاں بھی معنی جمع، معنی مصدریہ یا صفتیت پائی جاتی ہے، تو اس لیے ہم ان کو اسم جمع یا اسم صفت کہتے ہیں۔

وَهِيَ تِسْعَةٌ (اور یہ نو ہیں)، أَسْمَاءَ الْأَفْعَالِ (اسماء الافعال نو ہیں)۔ البتہ ان کے نزدیک عبدالقاہر کے نزدیک بعض ہیں جو اور بھی اس میں اضافہ کرتے ہیں، وہ ان شاءاللہ بڑی کتابوں میں آپ پڑھ لیں گے۔ نو ہیں،

سِتَّةٌ مِنْهَا (ان نو میں سے چھے کہتے ہیں) ان نو میں سے چھے  ،موضوعۃََ وہ تو بنائے گئے ہیں للأمــر الحاضر فِعْلِ أَمْرِ حَاضِرٍ کے لئے (یعنی چھے اسماء ایسے ہیں جن میں فعل امر حاضر کا معنی پایا جاتا ہے)۔ یہ امر حاضر کے لئے بنائے گئے ہیں، وَتَنصِبُ الاِسمَ عَلى المَفعُولِيَّةِ،اور یہ اسم کو نصب دیتے ہیں بنابر مفعولیت کے (یعنی بعد والا اسم چونکہ ان کا مفعول ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کو نصب دیتے ہیں)  اب ایک ایک شروع کر رہے ہیں:

3

اسماء افعال: رُوَيْدَ، بَلْهَ، دُونَکَ، عَلَیْکَ، حَیَّہَلَ، ھَا

  1. رُوَيْدَ:
    أَحَدُها ،ان چھے میں سے پہلا وہ ہے "رُوَيْدَرُوَيْدَ اس کا اصل مصدر ہے "اِروَادَۃٌ "۔ یہ اس کی تصغیر ہے۔إِنّه موضوعٌ لـِ «أَمهِل» رُوَيْدَ  یہ موضوع ہے کیا مطلب؟ یعنی  یہ رُوَيْدَ "أَمْہِلْ" کا معنی ہے۔ "أَمْہِلْ" فعل امر حاضر ہے، "أَمْہِلْ" یعنی کسی کو مہلت دینا۔ "أَمْہِلْ" تو مہلت دے۔ اب اس کی بجائے کہتے ہیں "رُوَيْدَ"، یعنی "رُوَيْدَ زَیْدًا" (زید کو مہلت دے)۔

وَهُوَ يَقَعُ فِي أَوَّلِ الكَلامِ،یہ رُوَيْدَ ہمیشہ جملے کی ابتدا میں واقع ہوتا ہے، یہ درمیان میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا کہیں گے: "رُوَيْدَ زَیْدًا"۔ کیا مطلب؟ رُوَيْدَ کا معنی ہے "أَمْہِلْ"۔ "أَمْہِلْ زَیْدًا" یعنی "تو زید کو مہلت دے"۔ ٹھیک ہے۔

  1. بَلْہَ :
    وَثَانِيها،ان میں سے دوسرا اسم جو فعل امر حاضر کے لئے بنایا گیا ہے، یہ جو امر حاضر کا معنی دیتا ہے، وہ ہے "بَلْہَ"۔ "بَلْہَ" فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ لِدَعْ (یہ بنایا گیا ہے "دَعْ" کے لئے)۔ کیا مطلب؟ یعنی "بَلْہَ" "دَعْ" فعل امر کا معنی دیتا ہے۔ "دَعْ" کیا ہوتا ہے؟ چھوڑ دینا۔

یعنی جب ہم کہتے ہیں: "بَلْہَ زَیْدًا"، اس کا معنی ہے "دَعْ زَیْدًا" (تو زید کو چھوڑ دے)۔ "بَلْہَ زَیْدًا" (زید کو چھوڑ دے)۔

  1. دُونَکَ:
    وَثَالِثُها ، ان چھے میں سے جو بمعنی امر حاضر کہتے ہیں، ان میں سے تیسرا ہے "دُونَکَ"دُونَکَ" فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ لِخُذْ (یہ بنایا گیا ہے "خُذْ" کے لئے)۔ کیا مطلب؟ یعنی "دُونَکَ" بمعنی "خُذْ" کے ہے۔ "خُذْ" مثلاً جب ہم کہتے ہیں: "دُونَکَ زَیْدًا"، "دُونَکَ زَیْدًا" کا معنی کیا ہے؟ "خُذْ زَیْدًا" (تو زید کو پکڑ)۔

"خُذْ" کا معنی ہوتا ہے پکڑ۔ فعل امر حاضر "خُذْ"۔

  1. عَلَیْکَ:
    وَرَابِعُهَا ، ان چھے میں سے جو بمعنی امر حاضر کے آتے ہیں، ان میں سے چوتھا ہے "عَلَیْکَ "عَلَیْکَ" فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ اَلْزِمْ (یہ بنایا گیا ہے "اَلْزِمْ" کے لئے)۔ کیا مطلب؟ "عَلَیْکَ" معنی دیتا ہے "اَلْزِمْ" کا۔ "اَلْزِمْ" تو اس کو لازم پکڑ، چمٹ جا، اس کے ساتھ لگ جا۔

جیسے مثال: "عَلَیْکَ زَیْدًا"، جب کہتے ہیں "عَلَیْکَ زَیْدًا"، تو "عَلَیْکَ" کا معنی ہوتا ہے "اَلْزِمْ زَیْدًا" (تو زید کو چمٹ جا، اب اس کے ساتھ متصل ہو جا، اب اس کو چھوڑ نہیں)۔ تو یہ "عَلَیْکَ" بمعنی "اَلْزِمْ" کے لئے۔

  1. حَیَّہَلّ:
    وخامِسُها پانچواں اسم جو بمعنی امر حاضر پایا جاتا ہے، وہ ہے "حَیَّہَلَّ"حَیَّہَلَّ" فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ لاِيْتِ (یہ بنایا گیا ہے "اِيْتِ" کے لئے)۔ "اِيْتِ" فعل امر حاضر "اِيْتِ" کا معنی دیتا ہے، یعنی جلدی کر۔

جیسے آپ کہتے ہیں: "حَیَّہَلَّ الصَلَاۃَ"، جیسے ہم کہتے ہیں: "حَیَّہَلَّ الصَلَاۃَ"، "حَیَّہَلَّ الصَلَاۃَ" کیا ہے؟ یعنی "اِيْتِ صلَاۃََ " (جلدی نماز کی طرف آؤ)۔

  1. ھَا:
    وَسَادِسُها، وہ چھے اسم جو فعل امر حاضر کا معنی دیتے ہیں، ان میں سے چھٹا ہے "ھَا"۔ "ھَا" بمعنی "خُذْ" کے ہوتا ہے۔ "خُذْ" فإنّه موضوعٌ لـ«خُذ» جب ہم کہتے ہیں: "ھَا زَیْدًا"، تو اس کا معنی ہوتا ہے "خُذْ زَیْدًا

ان شاءاللہ آپ بڑی کتابوں میں پڑھیں گے تو بسا اوقات بزرگان ایک مطلب کو لکھتے ہیں، پھر آگے لکھتے ہیں "ھٰذَا"، پھر آگے نئی بات شروع کرتے ہیں۔ تو اس "ھٰذَا" کا مطلب ہم وہاں پر یہی بتائیں گے کہ اس کا مطلب ہے "خُذْ ھٰذَا" (یعنی اس کو یاد کر لے، اس کو اپنے پاس سمجھ لے، محفوظ کر لے)۔ یہ "خُذْ" کا معنی ہوتا ہے۔

اب فرماتے ہیں: یہ جو "ھَا" ہے، مختلف لغات میں کیونکہ یہ ساری عربی، جتنے بھی عرب ممالک ہیں، سب کی عربی ایک جیسی نہیں ہے۔ مثلاً مصریوں کی عربی کا اپنا انداز ہے، سعودیہ کی عربی کا اپنا انداز ہے، عراقیوں کی عربی کا۔ تو وہاں بھی مختلف لغتیں ہیں، مختلف زبانیں ہیں، مختلف ان کی اپنی سلیقے ہیں۔

تو یہ فرماتے ہیں: یہ جو "ھَا" ہے، یہ بھی عربی زبان میں "ھَا" تین طریقے سے پڑھا گیا ہے:

  1. ایک ہے "ہَا" (ہا) الف پر سکون
  2. ایک ہے "ھَائِ" (ہائی)
  3. اور ایک ہے "ھَاءَ" (ہا آ)۔

یعنی بعض اس کو پڑھتے ہیں "ہَا"، بعض پڑھتے ہیں "ہَائِ"، بعض پڑھتے ہیں "ہَاءَ"۔ یعنی "ہا" کے بعد جو ھمزہ ہے، بعض اس کے ساتھ ھمزہ لگاتے ہیں مکسورہ، اور بعض لگاتے ہیں ممدودہ۔

وقد جاء فيه ثلاث لغات (اور اس "ہا" میں تین لغتیں آئی ہیں)۔ کیا مطلب؟ یعنی عربی زبان جو بولی جاتی ہے، ان میں مختلف عربی زبانوں میں لغتوں میں اس "ہا" کو تین طریقے سے پڑھا گیا ہے۔

  1. ھَا بِکَسْرِ الْھَمْزَۃِ:
    یعنی "ہا" کے بعد ھمزہ پر کوئی حرکت نہیں ہے، یہ بن جائے گا "ہَا"۔
  2. ھَائِ بِزِیَادَۃِ الْحَمْزَۃِ الْمکسورَۃِ:
    اور بعض عربی اس کو پڑھتے ہیں "ہَائِ"، یعنی ھمزہ پر کسرہ کے ساتھ۔
  3. ھَاءَ بِزِیَادَۃِ الْھَمْزَۃِ الْمَمْدُودَۃِ:
    اور بعض اس کو پڑھتے ہیں "ہَاءَ"، یعنی آخر میں ھمزہ پر زبر پڑھتے ہیں۔

تو پس اسماء الافعال میں جو چھٹا اسم ہے "ہا"، جو بمعنی "خُذْ" کہتے ہیں، عرب میں اس "ہا" کو تین طریقے سے پڑھا گیا ہے۔ بعض اس کو پڑھتے ہیں "ہَا"، بعض "ہَائِ"، اور بعض "ہَاءَ"

فرماتے ہیں: وَلَا بُدَّ لِهذِهِ الأَسماءِ مِنْ فَاعِلٍ (یہ اسماء جو امر حاضر کا معنی دیتے ہیں اور امر حاضر کے لئے وضع کیے گئے ہیں، اسم ہیں لیکن وضع کیے گئے ہیں امر حاضر کے لئے)۔ اب اس کے حکم میں وَلَا بُدَّ (یعنی ضروری ہے) لِهذِهِ الأَسماءِ (اس کے اصل کے لئے) مِنْ فَاعِلٍ (فاعل کا ہونا)۔ یعنی اِن اسماءِ افعال کے لئے فاعل کا ہونا ضروری ہے۔ ضروری کا مطلب کیا ہے؟ یعنی اگر فاعل نہ ہوگا، ان کا معنی تام نہیں ہوگا۔

ختم۔ پھر اگلا سوال: پھر فَاعِل کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں: وَفَاعِلُهَا (اور ان کا فاعل کیا ہوگا؟) ضَمِیرُ الْمُخَاطَبِ الْمُسْتَتِرُ فِيهَا (یعنی مخاطب کی انت کی ضمیر ہوگی جو اس میں مُسْتَتِر ہوتی ہے)۔ مُسْتَتِر کا لفظی معنی ہوتا ہے چھپا ہوا۔ یعنی چھپا ہوا ہونا، مُسْتَتِر ہونا۔ تو پس "خُذْ" میں بھی ضمیر جب ہم کہتے ہیں "ھَا زَیْدًا" (یعنی خُذْ زَیْدًا)، تو پکڑ، یعنی اصل میں کیا؟ ضمیر مخاطب مُسْتَتِر ہوگی ، یہ بات یہاں پر ختم ہوگی۔ 

4

اسماء افعال: هَيْهَاتَ، سَرْعَانَ، شَتَّانَ

فرماتے ہیں: نو میں سے چھے تو ہو گئے، وہ اسم جو ہیں امر ِحاضر کا معنی دیتے ہیں، امر ِحاضر کے لئے بنائے گئے ہیں۔ لیکن ثَلَاثَةٌ مِنْهَا مَوْضُوعَاتٌ لِلْفِعْلِ الْمَاضِی (تین اسم ایسے ہیں جو فعل ماضی کے لئے بنائے گئے ہیں)۔ یعنی تین ایسے اسم ہیں جو فعل ماضی کا معنی دیتے ہیں۔ وہ کون سے ہیں؟ "هَيْهَاتَ"، "سَرْعَانَ"، اور "شَتَّانَ"۔

  1. هَيْهَاتَ:
    "هَيْهَاتَ" بہت مشہور جملہ تشیّع میں ہے۔ "هَيْهَاتَ مِنَ الذِّلِّۃ "۔ "هَيْهَاتَ" یہ بمعنی "بَعُدَ" کے ہے، یعنی دور ہونا۔ لیکن فرق ہے، بہت توجہ دیتے ہیں (نکتہ کتاب میں نہیں ہے)۔ فرق یہ کہ اگر ہم کہیں گے "بَعُدَ زَیْدٌ" (زید دور ہوا)، تو ہو سکتا ہے وہ تھوڑا سا دور چل جائے، تو بھی "بَعُدَ" کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن "هَيْهَاتَ" وہاں استعمال ہوتا ہے جو بہت دور ہو۔ "بَعُدَ زَیْدٌ"، اس کا اردو میں آپ ترجمہ کریں گے "زید دور ہوا"۔ لیکن جب کہیں گے "هَيْهَاتَ زَیْدٌ"، تو اس کا معنی ہوتا ہے "زید بہت دور ہوا"۔
  2. سَرْعَانَ:
    سَرُعَ تیزی کرنا  بمعنی جلدی کرنا، سُرعت کرنا۔ لیکن "سَرْعَانَ" بہت زیادہ تیزی، بہت زیادہ سُرعت ہے۔
  3. شَتَّانَ:
    "شَتَّانَ" بمعنی افتراق کا ہونا۔ لیکن شَتَّانَ  یعنی بہت زیادہ فرق آنا، اس میں یہ خاص نکتہ ہے، اس کو آپ ذہن میں رکھنا ہے۔

وَ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا اور ان نو اسماء افعال میں سے تین   مَوْضُوعَاتٌ لِلْفِعْلِ الْمَاضِی (وہ بنائے گئے ہیں فعلِ ماضی کے لئے)۔ یعنی کیا مطلب؟ جن میں معنی فعلِ ماضی کا ہوتا ہے۔ وَتَرْفَعُ الْإِسْمَاءَ (اور وہ اپنے اسم کو رفع دیتے ہیں) بِالْفَاعِلِیَّةِ (بنابر فاعلیت کے)۔ یعنی اس لیے کہ وہ بعد والا اسم ان کا فاعل ہوتا ہے۔

جیسے ہم پڑھتے ہیں: "ضَرَبَ زَیْدٌ"، "ضَرَبَ" فعلِ ماضی ہے، "زَیْدٌ" اس کا اسم فاعل ہے۔ پس وَتَرْفَعُ الْإِسْمَاءَ (اور بعد والے اسم کو وہ رفع دیتے ہیں) کیوں؟ بِالْفَاعِلِیَّةِ (اس لیے کہ وہ اسم ان کا فاعل بن رہا ہوتا ہے)۔

خوب، کون کون سے ہیں تین؟

  1. هَيْهَاتَ:
    فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ لِبَعُدَ (یعنی "هَيْهَاتَ" یہ اسم والا کہا گیا ہے "بَعُدَ" کے لئے)۔ یعنی اس میں "بَعُدَ" فعلِ ماضی کا معنی پایا جاتا ہے۔ پس جب کہتے ہیں: "هَيْهَاتَ زَیْدٌ"، اب دیکھو "هَيْهَاتَ" یہ اس میں فعل ہو گیا، "زَیْدٌ"، اب ہم "زَیْدٌ" رفع پڑھ رہے ہیں، اس لیے کہ یہ اس کا فاعل ہے۔ "هَيْهَاتَ زَیْدٌ" کیا مطلب؟ "بَعُدَ زَیْدٌ"۔ لیکن یہ نکتہ سمجھنا ہے کہ "بَعُدَ" کا معنی ہوتا ہے "دور ہونا"، اور "هَيْهَاتَ" کا معنی ہوتا ہے "بہت دور ہونا"۔
  2. سَرْعَانَ:
    وثانِيها: دوسرا اسمِ فعل جو فعل ماضی کے لیے واجب کیا گیا ہے، جس میں فعلِ ماضی کا معنی ہوتا ہے، وہ ہے "سَرْعَانَ "۔ "سَرْعَانَ" فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ لِسَرْعَ (یہ بنایا گیا ہے کس کے لیے؟ "سَرْعَ" کے لیے)۔ ٹھیک ہے جی؟ خوب "سَرْعَ" کا معنی "سُرْعَت" جلدی۔ لہٰذا جب کہیں گے: "سَرْعَانَ زَیْدٌ"، اس کا معنی ہوگا "أَيْ سَرُعَ زَیْدٌ" (یعنی زید نے جلدی کی) اگر ہم کہیں گے "سَرُعَ زَیْدٌ"، تو اس کا معنی ہوگا "زید نے جلدی کی"، کتنی جلدی کی؟ بس اس کو بیان نہیں کر رہا۔ لیکن جب کہیں گے "سَرْعَانَ زَیْدٌ"، تو اس کا معنی ہوگا "زید نے بہت جلدی کی"۔
  3. شَتَّانَ:
    وثَالِثُها:اور اُن تین اسماء میں سے جو فعلِ ماضی کا معنی دیتے ہیں، اُن میں سے تیسرا اور آخری ہے "شَتَّانَ"۔ "شَتَّانَ" یہ اسم ہے، لیکن اس میں معنی پایا جاتا ہے فعلِ ماضی کا، وہ کیا ہے؟ وہ ہے "اِفْتَرَقَ" (یعنی جدا ہونا)۔ "شَتَّانَ" فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ لِإِفْتَرَقَ (یعنی "شَتَّانَ" وہ اسم ہے جو "اِفْتَرَقَ" فعلِ ماضی کے لیے وضع کیا گیا ہے جو بجاء"اِفْتَرَقَ" کے، جو "اِفْتَرَقَ" یعنی جدا ہونا، اس کا معنی دیتا ہے)۔
    "شَتَّانَ زَیْدٌ وَعَمْرٌو"۔ اب تھوڑا سا سوال ہوگا کہ باقی میں تو فقط ایک فاعل تھا، فقط ایک فاعل "سَرْعَانَ زَیْدٌ"، ایک۔ لیکن یہاں ہے "شَتَّانَ زَیْدٌ وَعَمْرٌو"، یہاں دو کیوں ہیں؟ آپ جواب میں کہیں گے: چونکہ "شَتَّانَ" کا معنی ہوتا ہے "اِفْتَرَقَ" (جدا ہونا)، تو جدا ہونا دو ہوں گے۔ تو کہیں گے نا کہ یہ اُس سے جدا ہوا، ایک اپنے آپ سے تو کوئی جدا نہیں ہوتا۔ یعنی جب کہتے ہیں "فلان فلان سے جدا ہوا"، تو اس لئے یہاں ضروری ہے "شَتَّانَ زَیْدٌ وَعَمْرٌو" اَئ اِفْتَرَقَ، یعنی زید اور عمرو ایک دوسرے سے جدا ہوئے)

و «كم غلمان اشتريت»، والثالث: «كَأَيِّنْ» وهو ينصب التمييز مثل: «كم رجلاً ضربت»، هو مركّب من كاف التشبيه و «أي» لكنّ المراد منه عدد مبهم لا المعنى التركيبيّ، مثل: «كايّن رجلاً لقيت» وقد يكون متضمّناً لمعنى الاستفهام، نحو: كايّن رجلاً عندك»، والرابع: «كَذَا» وهو مركّب من كاف التشبيه و«ذا» اسم الإشارة، ولكنّ المراد منه عدد مبهم، ولا يكون متضمّناً لمعنى الاستفهام، مثل: «عندي كذا رجلاً».

النوع التاسع

أسماء تسمّى أسماء الأفعال، وإنّما سمّيت بأسماء الأفعال؛ لأنّ معانيها أفعال، وهي تسعة: ستة منها موضوعة للأمــر الحاضر، وتنصب الاسم على المفعوليّة، أحدها: «رُوَيْدَ»؛ فإنّه موضوع لـ «أمهل»، وهو يقع في أوّل الكلام، مثل: «رويد زيداً» أي: أمهل زيداً، وثانيها: «بَلْهَ»؛ فإنّه موضوع لـ«دع»، مثل: «بله زيداً» أي: دع زيداً، وثالثها: «دونك»؛ فإنّه موضوع لـ«خذ»، مثل: «دونك زيداً» أي: خذ زيداً، ورابعها: «عَلَيْكَ»؛ فإنّه موضوع لـ«ألزم»، مثل: «عليك زيداً» أي:

ألزم زيداً، وخامسها: «حَيَّهَلَ»؛ فإنّه موضوع لـ«اِيْتِ»، مثل: «حيّهل الصلاة» أي: ايت الصلاة، وسادسها: «ها»؛ فإنّه موضوع لـ«خذ»، مثل: «ها زيداً» أي: خذ زيداً، وقد جاء فيه ثلاث لغات: «هَأ» بسكون الهمزة و«هَاءِ» بزيادة الهمزة المكسورة، و«هَاَء» بزيادة الهمزة المفتوحة، ولا بُدَّ لهذه الأسماء من فاعل، وفاعلها ضمير المخاطَب المستترُ فيها، وثلاثة منها موضوعة للفعل الماضي، وترفع الاسم بالفاعليّة، أحدها: «هَيْهَاتَ»؛ فإنّه موضوع لـ«بعد»، مثل: «هيهات زيد» أي: بُعد زيد، وثانيها: «سَرْعَانَ»؛ فإنّه موضوع لـ«سرع» مثل: «سرعان زيد» أي: سرع زيد، وثالثها: «شَتَّانَ»؛ فإنّه موضوع لـ «افترق»، مثل: «شتّان زيد وعمرو» أي: افترق زيد وعمرو.

النوع العاشر

الأفعال الناقصة وإنّما سمّيت ناقصة؛ لأنّها لا تكون بمجرّد الفاعل كلاماً تامًّا، فلا تخلو عن نقصان، وهي تدخل على الجملة الاسميّة أي: المبتدأ والخبر، ترفع الجزء الأوّل منها ويسمّى اسمَها، وتنصب الجزء الثانيَ منها، ويسمّى خبرَها،