درس شرح مائة عامل

درس نمبر 15: اسماء نکرہ کو نصب دینے والے اسماء

 
1

خطبہ

2

آٹھویں نوع: اسماء نکرہ کو نصب دینے والے اسماء

بسم اللہ الرحمن الرحیم اَن نَوْعُ الثِامِنُ أَسْمَاءٌ تَنصِبُ الْأَسْمَاءُ النَكِرَاتِ عَلَى التَّمِيزِ وَهِيَ أَرْبَعْۃُ أَسْمَاء ۔

 بحث ہماری چل رہی تھی اَسْمَاء کی وہ حروفِ عاملہ کے مکمل ہونے کے بعد اب ہم شروع ہوئے تھے کہ کچھ اسم بھی ایسے ہوتے ہیں جو عامل ہوتے ہیں۔ پیچھلی بحث ہماری تھی کہ وہ اَسْمَاء جو عاملہ ہیں اور فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں۔

 آٹھویں نوع بھی اَسْمَاء کے بارے میں ہے کہ یہ بھی کچھ اسم ہیں چار ، جو اسمِ نکرہ کو نصب دیتے ہیں بنابر تمییز کے۔ یہ تو ہو گیا لفظی ترجمہ، اب تھوڑا اس کو غور سے سن لو۔

پہلی بات یہ ہے کہ یہ اسمِ نکرہ  یہ کیا ہوتا ہے؟ آپ کہیں گے اَسْمَاء دو قسم کے ہیں: یا اسم معرفہ ہوگا یا نکرہ ہوگا۔ جو کسی معین شئے کے لئے بنایا جائے، اس کو معرفہ کہتے ہیں، اور جو کسی غیر معین کے لئے بنایا گیا ہو، اس کو نکرہ  کہتے ہیں۔ مثلاً میں کہتا ہوں: "مجھے زید ملا"، اب یہ زید معرفہ ہے کیونکہ ایک معین شخص کے لئے اس کو بنایا گیا ہے۔ اور اگر میں کہتا ہوں: "مجھے آدمی ملا"، اب آدمی غیر معین ہے، پتہ نہیں کہ وہ کون تھا۔ عربی میں اسی طرح لفظِ رَجُل (رَجُلٌ) نکرہ ہے، ہر مرد پر رَجُل صادق آتا ہے جو کسی ایک معین کے لئے نہیں ہے۔ لیکن علی، حسن، حسین یہ معرفہ ہیں کیونکہ یہ ایک معین فرد کے لئے ہیں۔

خوب، تو یہ ہو گیا۔ اسم نکرہ اب آپ کہیں گے کہ اسم نکرہ ہوتا ہے معرفہ کے مقابل میں۔ اسم نکرہ وہ ہوتا ہے جو کسی غیر معین کے لئے بنایا گیا ہو، اور اس میں معرفہ اس کے مقابل میں ہوتا ہے جو کسی معین کے لئے واضح کیا گیا ہو۔

 پھر ایک لفظ جہاں استعمال ہوا، التمییز۔ یہ تمییز کیا ہے؟ آپ کہیں گے تمییز کا مطلب ہے ہر وہ شئے جو ابہام کو دور کرے، اس کو تمییز کہا جاتا ہے۔ جس چیز میں ابہام پایا جاتا ہو، واضح نہ ہو، کلیئر نہ ہو، جو چیز اس ابہام کو آ کر واضح کرے گی، کلیئر کرے گی، اس کو کہتے ہیں تمییز۔ اس کو تمییز بھی کہتے ہیں، اس کو ممیز بھی کہتے ہیں، لیکن بات ایک ہی ہے کہ یہ تمییز یعنی شیئ سے ابہام کو رفع کرتے ہیں۔

مثلاً میں کہتا ہوں: "میں نے آج پانچ دیکھے"، اب اس پانچ میں ابہام ہے۔ پانچ انسان دیکھے؟ پانچ پرندے دیکھے؟ پانچ کیا دیکھے؟ اگر بعد میں کہتا ہوں: "وہ طوطے تھے، وہ مور تھے، وہ شیر تھے"، تو یہ جو بعد میں آ کر اس پانچ میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرتا ہے، اس ہی کو تمییز کہتے ہیں۔

یہ توہو گئی دو تین اصطلاحیں۔ اب جو کون سے اسماء ہیں جو اسم نکرہ میں عمل کرتے ہوئے اس اسمِ نکرہ کو نصب دیتے ہیں؟ کیوں؟ اس لیے کہ وہ اسم نکرہ ان کی تمییز واقع ہو رہا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں وہ چار ہیں:

نمبر ایک: اسماءِ عدد۔نمبر دو: کم۔نمبر تین: كَأَيِّنْ۔نمبر چار: کذا۔ یہ چار اسماء ہیں جو اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی تمییز ہوتی ہے ۔

3

اسماء اعداد: ایک سے لے کر انیس تک

اسماءِ عدد کی کچھ وضاحت زیادہ ہے ، اردو میں ہم کہتے ہیں گیارہ ایک لفظ ہے بارہ ایک لفظ ہے  تیرا ایک لفظ ہے مگر عربی میں ایک لفظ نہیں وہاں ملانا پڑتا ہے مرکب کرنا پڑتا ہے جیسے احد عشر یعنی ایک ،دس ، ثلاث عشر ، تین ، دس ، اسی طرح احدٌ و عشرون جسے اردو میں اکیس کہتے ہیں  تو عربی میں ایک سے لیکر نو تک تو ہے ایک لفظ جیسے واحد اثنان ثلاث اربع ووو بلکہ دس کے لیئے ایک لفظ ہے عشر لیکن آگے سے گیارہ اور آگے مرکب ہوتا ہے احد عشر ، اکائی اور دھائی کو ذکر کیا جاتا ہے ، ایک اور دس  ، گیارہ جسے اردو میں مفرد ہے ، احد و عشرون ، ایک اور بیس ، ہم کہتے ہیں اکیس ،احد و ثلاثون ، ہم کہتے ہیں اکتیس وہ اکائی اور دہائی کو ذکر کرتے ہیں ، کس طرح ذکر کریں گے اگر خاص طریقے سے کریں گے تو عربی کے مطابق ہوگا ورنہ صحیح نہیں ہوگا۔ توجہ کریں

وہ یہ دیکھتے ہیں یہ جو عدد ہیں گیارہ ، اکیس، سو ہے ، ان کے بعد جو اسم نکرہ آنا ہے جس پر ہم نے نصب پڑہنی ہے سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا ، یعنی اگر وہ مذکر ہوگا تو عدد کی ترتیب کوئی اور ہوگی ، اگر وہ تمییز مونث ہوگی تو طریقہ کار کوئی اور ہوگا ، یہ اہم ہے اس کو یاد کریں میں ترجمے کے ساتھ بتاتا ہوں ۔

النوع الثامن

أسماءُ تنصب الأسماء النكرات على التمييز

آٹھویں نوع ان اسماء کے بارے میں ہے جو اسم نکرہ کو تممیز کی بنیاد پر نصب دیتے ہیں ۔وهي أربعة أسماء:وہ چار اسماء ہیں  ۔

نمبر ایک: اسماءِ عدد۔نمبر دو: کم۔نمبر تین: كَأَيِّنْ۔نمبر چار: کذا۔یہ چار اسم ہیں

الأوّل : پہلا، ان چار اسماء میں سے جو اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں، پہلا ہے لفظِ عَشْر۔ یہ نہیں ہے وہ اسماء  عدد عشر او یا عشرون یا ثَلَاثُون یا خَمْسُون یا سِتُّون یا سَبْعُون او ثَمَانُون او تِسْعُون۔ اب ترجمہ آپ کیا کریں گے؟ یعنی دس، بیس، تیس، چالیس، پچاس، ساٹھ، ستر، اسی، نوے۔ یہ انہوں نے رکھی ہے دہائیاں کہ یہ دس سے لے کر نوے تک کی جو دہائیاں ہیں، یعنی عَشْر، عِشْرُون، ثَلَاثُون، أَرْبَعُون، خَمْسُون، سِتُّون، سَبْعُون، ثَمَانُون، اور تِسْعُون۔

یہ بہت غور طلب ہے۔ یہ دہائیاں إذا رُكِّبَ مع «أحد» أو «اثنين» أو «ثلاث» أو «أربع» أو «خمس» أو «ستّ» أو «سبع» أو «ثمان» أو «تسع»؛ جب ان کو مرکب کیا جائے، جب ان کو ملایا جائے کس کے ساتھ؟ ایک کے ساتھ، او اِثْنَینِ دو کے ساتھ، او ثَلَاثَ تین کے ساتھ، او أَرْبَعَ چار کے ساتھ، او خَمْسَ پانچ کے ساتھ، او سِتَّ چھ کے ساتھ او سَبْعَ سات کے ساتھ، او ثَمَانِ آٹھ کے ساتھ، او تِسْعَ نو کے ساتھ۔ بہت توجہ آگاہ رہیں، یہ ہو گیا لفظی ترجمہ۔ مرادی ترجمہ آپ کیا کریں گے؟ یعنی ، مرادی ترجمہ کریں گے کہ گیارہ سے لے کر ننانوے تک۔ او عَشَر کے ساتھ ایک گیارہ، عَشَر کے ساتھ دو بارہ، عَشَر کے ساتھ تین تیرہ۔ یعنی اس کا مرکب ہوگا۔

یا عشرون ہو گیا بیس۔ بیس کے ساتھ ایک اکیس، بیس کے ساتھ دو بائیس۔ الی آخرہ ،  تو آپ یوں کہیں گے۔ بہت توجہ ۔ یہ اسماء اگر گیارہ سے لے کر ننانوے تک ہیں، اگر یہ ہیں تو اب ان کو ذکر کرنے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے کہ کیسے ہم نے ان کو ملانا ہے۔ ہر جگہ ایک طریقے پر نہیں ہے۔ بس اَحَدَ عَشَرَ، اَحَدَ وَعِشْرُونَ، اَحَدَ وَثَلَاثُونَ نہیں، ایسا نہیں۔ بلکہ ان دہائیوں کے ساتھ اکائیوں کو ملانے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے۔ کیسے؟ وہ یہ ہے:

بہت غور کریں:فَإِنْ كَانَ الْمُمَيِّزُ مُذَكَّرًا (اگر ان اعداد کے بعد آنے والا تمیز مذکر ہو)، فَطَرِيقُ التَّرْكِيبِ (تو پھر اکائیوں کے ساتھ دہائیوں کو ملانے کا طریقہ کار یہ ہوگا):کیسے؟ اگر تو اس کے ساتھ لفظ «أحد» أو «اثنين»  یعنی اَحَد اور اِثْنَینِ کو ملایا جا رہا ہے، اور وہ بھی عَشَر کے ساتھ، تو آپ کہیں گے:اَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا، اِثْنَا عَشَرَ رَجُلًا۔

اب یہ تھا لفظی ترجمہ۔ اب آپ بحث کو سمجھیں: آپ اردو میں لکھیں گے تو اس کو یوں لکھیں گے: گیارہ سے لے کر ننانوے تک۔ یہ جو عربی عدد ہیں، ان کو جب ہم نے ملانا ہے، یعنی اکائیوں کو دہائیوں کے ساتھ ملانا ہے، تو ان کے ملانے کا بھی ایک خاص طریقہ ہے۔

اچھا، وہ خاص طریقہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے:اگر مُمَيِّز مذکر ہے (یعنی تمیز اس میں مذکر ہے)، جیسے انہوں نے مثال دی: رَجُلٌ (مرد) اگر مذکر ہے، تو پھر اگر آپ نے گیارہ اور بارہ کو بتانا ہے کہ گیارہ مرد اور بارہ مرد، تو پھر:اَحَدَ عَشَرَ (یعنی اکائی بھی مذکر اور عَشَر بھی مذکر)، اِثْنَا عَشَر،اَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا، اِثْنَا عَشَرَ رَجُلًا ، پھر آپ اس ترتیب سے ان کو ملائیں گے کہ اکائی بھی مذکر اور دہائی بھی مذکر:اَحَدَ عَشَرَ، اِثْنَا عَشَرَ۔ یہ ہوگا کہ گیارہ اور بارہ ہے۔ تو پھر اس طرح کریں گے، بتَذْكِيرُ الْجُزْأَيْنِ (جُزْأَيْن سے مراد کیا ہے؟ کہ وہ جو عَدَد کی دو جزئیں تھیں: ایک آحَد اور ایک عَشَر، دونوں کو مذکر لائیں گے)۔

وَإِنْ كَانَ مُؤَنَّثًا (اور اگر وہ مُمَيِّز مُؤَنَّث تھا)، تو پھر اس کی ترتیب بدل جائے گی۔ پھر آپ فَتَقُولُ (پھر آپ یوں کہیں گے):إِحْدَى عَشَرَةَ امْرَأَةً (کیونکہ مُؤَنَّث ہے)۔ تو اب آپ اَحَدَ عَشَرَ نہیں کہیں گے، بلکہ اب آپ کہیں گے:إِحْدَى عَشَرَةَ امْرَأَةً (گیارہ عورتیں ہیں)، اِثْنَتَا عَشَرَةَ امْرَأَةً (بارہ عورتیں ہیں)۔

یعنی بتَأْنِيثُ الْجُزْأَيْنِ (عَدَد کی دونوں جزوں کو مُؤَنَّث لائیں گے)۔ یہ ہو گیا اس طرح۔

اب آپ اردو میں لکھیں گے تو یوں لکھیں گے کہ گیارہ اور بارہ کو عربی میں لکھنے کے لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر ان کی تمیز مذکر ہے، تو عَدَد کی دونوں جز (اکائی اور دہائی) دونوں کو مذکر لائیں گے:اَحَدَ عَشَرَ (یہ اکائی ہوگئی)، عَشَرَ (دہائی ہوگئی)، اَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا۔

اور اگر ان کی تمیز گیارہ اور بارہ کی تمیز مُؤَنَّث ہوگی، تو پھر جو عَدَد ہوگا، اس کی بھی دونوں جزوں کو مُؤَنَّث لائیں گے، یعنی گیارہ کو پھر کہیں گے:إِحْدَى عَشَرَةَ (اَحَد کا مُؤَنَّث إِحْدَى، اور عَشَر کا مُؤَنَّث عَشَرَةَ)، إِحْدَى عَشَرَةَ امْرَأَةً۔

دونوں مُؤَنَّث لائیں گے:إِحْدَى عَشَرَةَ امْرَأَةً (گیارہ عورتیں)، اِثْنَتَا عَشَرَةَ امْرَأَةً (بارہ عورتیں)۔

یہ ہوگئی، پس گیارہ اور بارہ، ان دو میں اگر تمیز مذکر ہوگی، تو عَدَد کے دونوں جز بھی مذکر ہوں گے۔ اگر تمیز مُؤَنَّث ہوگی، تو عَدَد کے دونوں جز بھی مُؤَنَّث ہوں گے یہ بات جہاں پر ختم، اب اگلی بات۔

وَطَرِيقُ تَرْكِيبِ غَيْرِهِمَا (یعنی اِحْدَى اور اِثْنَتَا کے علاوہ جو باقی ہیں، تین، چار، پانچ، چھے، سات، آٹھ، نو)۔

إِلَى تِسْعَ عَشَرَ (اب تیرہ سے لے کر انیس تک)۔ ایک اور دو تو گزر گیا نا۔ اب اگر ہم تین کو، چار کو، پانچ کو، چھے کو، سات کو، آٹھ کو، نو کو یہ ہو گیا تیرہ سے لے کر انیس تک۔

فَرْماتے ہیں:اگر تیرہ سے لے کر انیس تک، اگر تمیز مذکر ہوگی، تو عَدَد کا پہلا جز مُؤَنَّث، دوسرا مذکر (یعنی جو اکائی ہوگی وہ مُؤَنَّث، جو دہائی ہوگی وہ مذکر)۔ لیکن کہاں تک؟ فقط تیرہ سے لے کر انیس تک۔

وَطَرِيقُ تَرْكِيبِ غَيْرِهِمَا اِلی تِسع  (یعنی اِحْدَى اور اِثْنَتَا کے علاوہ جو باقی ہیں، تین، چار، پانچ، چھے، سات، آٹھ، نو)۔

جب ان کو مرکب کیا جائے گا، ملایا جائے گا مَعَ عَشَرَ (دس کے ساتھ)، یہ ہوگیالفظی ترکیب۔ تو آپ یوں کہیں گے:یعنی تیرہ سے لے کر انیس تک، اب کیا ہوگا؟

أَن تَقُولَ فِي الُمذَكَّرِ(اگر ان کی تمیز مذکر ہوگی)، تو پھر عربی میں عدد آپ لکھیں گے:ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، أَرْبَعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، خَمْسَةَ عَشَرَ رَجُلًا، سِتَّةَ عَشَرَ رَجُلًا، سَبْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا، تِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا۔اس طرح کریں گے۔

بِتَأْنِيثِ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ (پہلی جز کو مُؤَنَّث لیں گے)، ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا (جو اکائی والا ہوگا، اس کو مُؤَنَّث لیں گے)، وَتَذْكِيرِ الْجُزْءِ الثَّانِي (اور جو دہائی تھا، اُس کو اسی طرح مذکر لانا ہے)۔

ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا (اب آپ نے دیکھا: ثَلَاثَةَ مُؤَنَّث، عَشَرَ مذکر)، آگے تمیز رَجُلًا بھی مذکر۔

وَفِي الْمُؤَنَّثِ (لیکن اسی تیرہ سے لے کر انیس تک کی تمیز اگر مذکر نہ ہو، بلکہ مُؤَنَّث ہو)، تو اب یہ اُلٹ ہو جائے گا پہلے کا، کیسے؟ اب آپ کہیں گے:ثَلَاثَ عَشْرَةَ امْرَأَةً (یعنی عدد کی پہلی جز جو اکائی ہوگی، اُس کو مذکر ذکر کریں گے، اور وہ خود جو عَشْرَ، وہ جو دہائی تھی، اُس کو اب لائیں گے مُؤَنَّث عَشْرَةَ

یعنی دہائی کو تمیز کے مطابق لانا ہے کہ اگر تمیز مذکر ہوگی، تو عَشَرَ دہائی کو مذکر لائیں گے، اور اگر تمیز مُؤَنَّث ہوگی، تو دہائی کو بھی مُؤَنَّث لائیں گے، یعنی عَشْرَةَ۔

البتہ یہ ساری بات ہے تیرہ سے لے کر انیس تک، وَفِي الْمُؤَنَّثِ (اور اگر تمیز مُؤَنَّث ہو)، مُؤَنَّث میں کیا مطلب؟ یعنی اگر تمیز تیرہ سے لے کر انیس تک، اگر ان کی تمیز مُؤَنَّث ہوگی، تو پھر کیسے پڑھیں گے؟ پھر عربی میں یوں لکھیں گے:ثَلَاثَ عَشْرَةَ امْرَأَةً۔

جبکہ مذکر میں ہم نے پڑھا تھا:ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا۔

اسی طرح پڑھیں گے:أَرْبَعَ عَشْرَةَ امْرَأَةً، خَمْسَ عَشْرَةَ امْرَأَةً، إِلَى آخِرِهَا تِسْعَ عَشْرَةَ امْرَأَةً۔

بِتَذْكِيرِ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ (یعنی عدد کی پہلی جز جو اکائی ہے، اس کو مذکر ذکر کریں گے)، وَتَأْنِيثِ الْجُزْءِ الثَّانِي (اور جو دہائی ہے، اس کو مُؤَنَّث لائیں گے)۔

ٹھیک ہوگئی۔ جی، یہ تو ہو گیا کہاں تک؟ گیارہ، بارہ کی بحث مکمل ہو گئی۔ تیرہ سے لے کر انیس تک کی بحث بھی مکمل ہو گئی۔

4

اسماء اعداد: اکیس سے لے کر ننانوے تک

اب آگے فرماتے ہیں:

وَأَمَّا طَرِيقُ التَّرْكِيبِ فِي الْوَاحِدِ وَالْإِثْنَيْنِ إِلَى تِسْعَةٍ وَعِشْرِينَ وَإِخْوَاتِهِ إِلَى تِسْعِينَ

(یعنی کیا مطلب؟ یعنی یہ فرما رہے ہیں کہ اکیس سے لے کر ننانوے تک، ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھے، سات، آٹھ، نو۔ یعنی  وَاحِد، اِثْنَانِ، ثَلَاثَةٌ، أَرْبَعَةٌ، خَمْسَةٌ، وَآخَرَهُ تِسْعَةٌ۔

جب اس کو ملا جائے بیس کے ساتھ، تیس کے ساتھ، چالیس، پچاس، ساٹھ، ستر، اسی، نوے۔ آپ یوں کہیں گے کہ اکیس سے لے کر ننانوے تک، اب یہ جو اعداد ہیں، اب ان کا کیا ہوگا؟

فرماتے ہیں: ان کا پہلا کام تو یہ کرنا ہے کہ اکائی اور دہائی کے درمیان وَاوِ عَاطِفہ (اور) لانا ہے۔ اَحَدَ عَشَرَ پڑھتے تھے ہم گیارہ میں، جب اکیس میں آئیں گے، تو آپ پڑھیں گے:وَاَحِدٌ وَعِشْرُونَ۔ یعنی اکائی اور دہائی کے درمیان وَاوِ عَطْف کو لانا ہے:احِدٌ وَعِشْرُونَ، اِثْنَانِ وَعِشْرُونَ، ثَلَاثَةٌ وَعِشْرُونَ، جو بھی آگے ہوگا:احِدٌ وَعِشْرُونَ، اِثْنَانِ وَعِشْرُونَ، ثَلَاثَةٌ وَعِشْرُون۔

پس اکیس سے لے کر ننانوے تک، یہ جو اعداد کی دو جزئیں ہیں (اکائی اور دہائی)، پہلا کام تو یہ ہے کہ ان کے درمیان وَاوِ عَطْف کو لانا ہے۔ وہاں پیچھے ہم نہیں کر رہے تھے، وہاں پڑھے تھے:اَحَدَ عَشَرَ، اِثْنَا عَشَرَ، ثَلَاثَةَ عَشَرَ، کوئی درمیان میں وَاوِ عَطْف نہیں تھی۔ اب ہمیں:واحِدٌ وَعِشْرُونَ، اِثْنَانِ وَعِشْرُونَ، ثَلَاثَةٌ وَعِشْرُونَ۔

وأمّا طريق التركيبِ انیس تک تو بات ہوگئی نہ اب فرماتے ہیں اس سے آگے  ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھے، سات، آٹھ، نو۔ یعنی  احِد، اِثْنَانِ، ثَلَاثَةٌ، أَرْبَعَةٌ، خَمْسَةٌ، وَآخَرَهُ تِسْعَةٌ۔ یعنی ایک سے لیکر نو  انو کو جب ملائیں گے ، مع «عشرين» و «أخواته» إلى «تسعين» یعنی بیس کے ساتھ اور اس کے بھائی تیس ، چالیس ، پچاس،ساٹھ،ستر، اسی ، نوی تک عدد لکھنا چاہتے ہیں تو  کیا ہوگیا  ۔

پہلا کام سبيل العطف، کہ اکیس سے لے کر ننانوے تک، جو عربی میں عدد لکھنا ہے، اس عدد کی دو جزوں کے درمیان وَاوِ عَطْف کو لانا ہے۔

نمبر دو:فَإِنْ كَانَ الْمُمَيِّزُ مُذَكَّرًا (اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ مُمَيِّز مذکر ہے، وہ جو بعد میں تمیز ہے، وہ مذکر ہے)، تو پھر اکیس اور بائیس کا طریقہ یہ ہوگا:فَتَقُولْ فِي تَرْكِيبِ الْوَاحِدِ وَالْإِثْنَيْنِ (اگر آپ ایک اور دو کو بیس کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں، یعنی اکیس اور بائیس)، تو آپ کہیں گے:احِدٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا، اِثْنَانِ وَعِشْرُونَ رَجُلًا۔

بِتَذْكِيرِ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ (کیونکہ عِشْرُونَ تو عِشْرُونَ رہنا ہے، وہ تو بیس ہے)، تو آپ بیس سے پہلے جو اکائی ہے، وہ ایک یا دو، اگر تمیز مذکر ہوگی، تو اس اکائی کو بھی مذکر ذکر کریں گے:احِدٌ وَعِشْرُونَ رَجُلًا (اکیس مرد)، اِثْنَانِ وَعِشْرُونَ رَجُلًا (بائیس مرد)۔

وَاحِدٌ اور اِثْنَانِ دونوں جگہ پر جو پہلی جز ہے، وہ مذکر ہے۔

وَإِنْ كَانَ الْمُمَيِّزُ مُؤَنَّثًا (لیکن اگر ان کا مُمَيِّز، یعنی ان کی تمیز مُؤَنَّث ہوگی)، تو پھر لکھنے کا طریقہ تھوڑا بدل جائے گا۔ پھر کیا کہیں گے؟ پھر کہیں گے:فَتَقُولْ: إِحْدَى وَعِشْرُونَ امْرَأَةً۔

اب وَاحِدٌ کا مُؤَنَّث إِحْدَى کو ذکر کرنا ہے:إِحْدَى وَعِشْرُونَ امْرَأَةً (اکیس عورتیں)، اِثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ امْرَأَةً (بائیس عورتیں)۔

یعنی  بِتَأْنِيثِ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ (عدد کی پہلی جز کو مُؤَنَّث ذکر کریں گے)۔

اب درحقیقت اس کو اور آسان لکھ لیں: آپ کیا؟ اکیس سے لے کر ننانوے تک، سب میں جب ان کو عربی میں لکھیں گے، تو ایک اور دہائی کے درمیان وَاوِ عَطْف کو لانا ہے۔ یہ تو ہو گیا سب کے لئے۔

اب آگے، ان کا عدد کیسے لکھنا ہے؟ فرماتے ہیں: اکیس اور بائیس، اگر تمیز مذکر ہوگی، تو عدد کی پہلی جز کو مذکر ذکر کریں گے۔ اگر تمیز مُؤَنَّث ہوگی، تو عدد کی پہلی جز کو بھی مُؤَنَّث ذکر کریں گے۔ یہ بات جہاں پر ختم ہو گئی اکیس اور بائیس ۔

 آگے فرماتے ہیں:وَفِي تَرْكِيبِ غَيْرِ الْوَاحِدِ وَالْإِثْنَيْنِ (ایک اور دو کو بیس کے ساتھ ملانا اس کو چھوڑ دو)، یعنی فرماتے ہیں: اکیس اور بائیس کے علاوہ، غَيْرِ الْوَاحِدِ (یعنی ایک اور دو کو جب نہ ملائیں)، یعنی تین، چار، پانچ، أَرْبَعَةٌ، خَمْسَةٌ، ان کو جب ملائیں گے کس کے ساتھ؟ بیس کے ساتھ۔

یعنی آپ یوں کہیں: آسان آپ گزارش کروں، یعنی تیئیس سے لے کر آگے تو انتیس تک، تَقُولُ (وہاں آپ اس انداز میں عربی کو ذکر کریں گے):عربي عدد یوں لکھیں گے:فِی الْمُمَيِّزِ الْمُذَكَّرِ (اگر تیئیس، چوبیس، پچیس، چھبیس، ستائیس، اٹھائیس، انتیس) ان اعداد کی تمییز مذکر ہوگی مونث رکھیں گے :  «ثلاثة وعشرون رجلاً»، و«أربعة وعشرون رجلاً» عدد کی پہلی جزء کو مونث ، ثلاث کی بجاءثلاثة  لیکن دوسر ی کو عشرون رکھیں گے ،«أربعة وعشرون رجلاً»«خمسۃ وعشرون رجلاً»«ستۃ وعشرون رجلاً»«سبعۃ وعشرون رجلاً»«ثمانیۃ وعشرون رجلاً»   کیونکہ رجل تمییز مذکر تھی تو ہم نے بِتَأنيثِ الجزءِ الأَوّل،عدد کی پہلی جزء کو مونث ذکر کیا ، فِی الْمُمَيِّزِ المُؤَنّّثِ اور اگر ان کی تمییز مونث ہو تو پھر الٹ ہوجائے گا،  ثلاث وعشرون امرأةََ ،  آپ نے دیکھا امرۃ مونث ہے ثلاث وعشرون  کہیں گے یعنی عدد کی پہلی اکائی کو مذکر ذکر کریں گے ، ثلاثٌ وعشرون امرأةََ ، اربعٌ وعشرون امرأةََ ، خمسٌ وعشرون امرأةََ ، ستٌ وعشرون امرأةََ ، سبعٌ وعشرون امرأةََ ، ثمانِِ وعشرون امرأةََ ، تسعٌ وعشرون امرأةََ ۔

بتذكير الجزء الأوّل، عدد کے پہلے جزء کو مذکر رکھیں گے ، یہ فقط انتیس تک کی بات نہیں ہے ،  وعلى هذا القياس إلى «تسع وتسعين» بلکہ ننانوے تک اسی ترتیب کے ساتھ چلنا ہے ۔ یہ تمام ترتیب بتا دی ہے ایک سے ننانوے تک کیسے کرنا ہے

الأول، فالوجهان في المضارع: الجزم والرفع، مثل: «إذما كتبت أكتب».

النوع الثامن

أسماءُ تنصب الأسماء النكرات على التمييز، وهي أربعة أسماء: الأوّل لفظ «عشر» أو «عشرون» أو «ثلاثون» أو «أربعون» أو «خمسون» أو «ستون» أو «سبعون» أو «ثمانون» أو «تسعون»، إذا ركّب مع «أحد» أو «اثنين» أو «ثلاث» أو «أربع» أو «خمس» أو «ستّ» أو «سبع» أو «ثمان» أو «تسع»؛ فإن كان المميّز مذكّراً فطريق التركيب في لفظ «أحد» أو «اثنين» مع «عشر» أن تقول: «أحد عشر رجلاً»، و«اثنا عشر رجلاً»، بتذكير الجزأين، وإن كان مؤنّثاً فتقول: «إحدى عشرة امرأة»، و«اثنتا عشرة امرأة»، بتأنيث الجزأين، وطريق تركيب غيرهما إلى «تسع» مع «عشر» أن تقول في المذكّر: «ثلاثة عشر رجلاً»، و«أربعة عشر رجلاً» إلى «تسعة عشر رجلاً»، بتأنيث الجزء الأوّل وتذكير الجزء الثاني، وفي المؤنث: «ثلاث عشرة امرأة»، و«أربع عشرة امرأة» إلى «تسع عشرة امرأة» بتذكير الجزء الأوّل وتأنيث

الجزء الثاني، وأمّا طريق التركيب في «الواحد» و«الاثنين» إلى «تسع» مع «عشرين» و «أخواته» إلى «تسعين» على سبيل العطف، فإن كان المميّز مذكّراً فتقول في تركيب الواحد والاثنين لا في غيرهما: «أحد وعشرون رجلاً»، و«اثنان وعشرون رجلاً»، بتذكير الجزء الأوّل، وإن كان المميّز مؤنّثاً فتقول: «إحدى وعشرون امرأة»، و «اثنتان وعشرون امرأة»، بتأنيث الجزء الأوّل، وفي تركيب غير «الواحد» و«الاثنين» إلى «تسع» مع «عشرين» تقول في المميّز المذكّر: «ثلاثة وعشرون رجلاً»، و«أربعة وعشرون رجلاً»، بتأنيث الجزء الأوّل، وفي المميّز المؤنّث: «ثلاث وعشرون امرأة»، و«أربع وعشرون امرأة»، بتذكير الجزء الأوّل، وعلى هذا القياس إلى «تسع وتسعين»، والثاني «كَمْ» معناه عدد مبهم، وهو على نوعين: أحدهما: استفهاميّة، إن كان متضمّناً لمعنى الاستفهام، وهو ينصب التمييز، مثل: «كم رجلاً ضربته»، والثاني: خبرية، إن لم يكن متضمّناً لمعنى الاستفهام، وهو ينصب المميّز إن كان بينهما فاصلة، مثل: «كم عندي رجلاً»، وإن لم تكن بينهما فاصلة فمميّزه مجرور بالإضافة إليه، مثل: «كم رجل ضربت»