درس شرح مائة عامل

درس نمبر 14: دو فعلوں کو جزم دینے والے اسماء

 
1

خطبہ

2

دو فعلوں کو جزم دینے والے اسماء: ابتدائی بحث

النوع السابع : أسماءٌ تَجزمُ الفعلَ المضارِعَ حال كونها مشتملة على معنى «إن»، وتدخل على الفعلين، ويكون الفعل الأوّل سبباً للفعل الثاني، ويسمّى الأوّل شرطاً، والثاني جزاءََ؛

بحث ہماری ہو رہی ہے عوامل لفظیہ کی ، عوامل لفظیہ میں ابھی تک جتنے عوامل پیچھے ہم نے پڑہے ہیں وہ حروف تھے ، جو جر دیتے ہیں نصب دیتے ہیں جزم دیتے ہیں ،

ساتویں نوع اسماء کے بارے میں ہے ، پچھلی ۶ انواع حروف کے بارے میں تھیں ، کچھ اسماء بھی ایسے ہوتے ہیں جو اسم ہونے کے باوجود عمل کرتے ہیں وہ مختلف ہیں آگے پڑہیں گے

یہ اسماء وہ ہیں جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں۔ اب یہاں دو باتیں ضرور ہیں:

  1. یہ جو ابھی ہم پڑہیں گے  فہرست کہ کون کونسے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ علم نحویوں کے نزدیک یہ سارے اسم ہیں۔ ان کو حروف نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ اسماء جازمہ کی فہرست میں ان سب کو ذکر کیا گیا ہے۔

  2.  فقط حروف نہیں ہوتے جو مضارع کو جزم دیتے ہیں، اسم بھی ہوتے ہیں جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں، لیکن ایک شرط ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ یہ جو ہم ابھی فہرست آپ کو بتائیں گے کہ وہ اسماء کون کون سے ہیں جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں، یہ اس صورت میں فعل مضارع کو جزم دیں گے اگر یہ معانی اِن پر مشتمل ہوں گے۔ یعنی باقاعدہ یہ شرط وجزا کا معنی دیں گے تو فعل مضارع کو نصب دیں گے۔

اب اس میں ایک سطر کتاب میں نہیں ہے، لیکن آپ نے خود کاپی پھر لکھیں کیا؟ کیونکہ ان میں سے بعض ہیں جو شرط وجزا کے معنی میں استعمال نہیں ہوتے، موصول استعمال ہوتے ہیں۔ بعض ہوتے ہیں جو فقط استفہام کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہاں شرط وجزا والا معنی نہیں ہوتا۔ تو اس وقت ہوں گے یہی۔ مثلاً یہی مَن اور ما اگر موصول یا استفہام کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو یہی۔ لیکن چونکہ یہ معانی اِن پر مشتمل نہیں ہوں گے، لہٰذا اس وقت یہ فعل مضارع کو جزم بھی نہیں دیں گے۔

تو پس ایک سطر آپ  نے  یوں لکھنی ہے کہ یہ اسماء اس صورت میں فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں جب یہ معانی اِن پر مشتمل ہوں۔ کیا مطلب؟ معانی اِن پر مشتمل ہوں؟ اب پچھلی نوع والی بات آپ کو یاد کرنی ہوگی کہ وہ جو اِن ہوتا ہے ان للشرط والجزا کہ اس کے بعد دو جملے ہوتے ہیں جن میں سے ایک جملہ شرط ہوتا ہے، دوسرا اس کی جزا۔ تو یہ والے اسماء بھی ایسے ہوں کہ ان کے بعد باقاعدہ دو جملے ہوں جن میں سے پہلا جملہ شرط ہوگا، دوسرا جملہ جزا ہوگا۔ یہ اس وقت معانی اِن پر مشتمل ہوں گے جب اِن پر مشتمل ہوں گے۔ تو پھر اسی طرح اگر دونوں جملے فعل مضارع ہیں یا پہلا فعل مضارع ہے تو پھر اس پر جزم پڑنا واجب ہوگا۔ اور اگر فقط دوسرا فعل مضارع ہے تو اس وقت فرماتے ہیں کہ پھر جزم پڑنا جائز ہوگا، واجب نہیں۔

یہ تو تھی ان اسماء کے عمل کے لحاظ سے۔ اس کے بعد پھر جیسے پہلے تفصیل آتی تھی،  با اسم کو جر دیتی ہے لیکن الصاق کے لیے آتی ہے، فلان کے لیے آتی ہے، فلان کے لیے آتی ہے۔ اب انہی اسماء کے بارے میں آگے تفصیل ہے کہ جہاں یہ استعمال ہوتے ہیں، یعنی کون سا معنی دیتے ہیں یا کون سا مقام ہوتا ہے، کون سا محل ہوتا ہے ان کے استعمال ہونے کا۔ ہر اسم کو ہر جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی بعض جگہیں ایسی ہیں کہ جہاں "من" کو استعمال کر سکتے ہیں، "ما" کو نہیں کر سکتے۔ اور کہیں "ما" کو کر سکتے ہیں، پھر "من" کو نہیں کر سکتے۔

اب اگلی تفصیل اس بات میں ہوگی کہ ان اسماء جازمہ میں سے کون سا اسم کہاں استعمال ہو سکتا ہے اور کون سا کہاں۔ وہ کون سے اسماء ہیں؟ پہلے تو ان اسماء کی فہرست:

  1. مَن

  2. مَا

  3. مَهْمَا

  4. أَيٌّ

  5. حَيْثُمَا

  6. إِذْمَا

  7. مَتَى

  8. أَيْنَمَا

  9. أَنَّى

اب سوال ہوگا کہ فعل مضارع کو جزم دینے والے اسماء کتنے ہیں؟ جواب ہوگا: کُل نو 9 ہیں۔

سوال ہو کہ ان اسماء کے فعل مضارع کو جزم دینے کی شرط کیا ہے؟ جواب: یہ اس وقت فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں جب  ان معانی پر مشتمل ہوں۔

اگلی تفصیل  ترجمے میں ، میں آپ کو ایک کے کر بتاتا ہوں تاکہ آپ کے لیے مشکل نہ ہو۔ أسماءٌ  ان اسماء کے بارے میں ہے: تَجزمُ الفعلَ المضارِعَ۔ جو اسماء فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں، لیکن کب؟ حال كونها مشتملة على معنى «إن» ، ھَا کی ضمیر واپس انہیں اسماء کی طرف جا رہی ہے کہ اس وقت درحالنکہ یہ اسماء مشتمل ہوں معنی اِن پر۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہو گیا۔ یعنی اگر آپ اس کو اصطلاحی ترجمہ کریں گے تو یوں کہیں گے کہ وہ اسماء جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں جب یہ معانی اِن شرطیہ پر مشتمل ہوں گے۔ چونکہ ان میں سے بسا اوقات یہی اسم ہوتے ہیں، جیسے "من" ہے، "ما" ہے۔ بسا اوقات موصول ہوتے ہیں، بسا اوقات استفہام ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ معنی اِن  پر مشتمل نہیں ہوتے۔ اگر یہ معنی اِن  پر مشتمل نہیں ہوتے تو اس وقت یہ فعل مضارع کو جزم بھی نہیں دیں گے۔فعل مضارع کے لیے ان کے جزم ہونے میں شرط یہ ہے کہ یہی معنی  اِن پر مشتمل ہوں۔ معنی اِن  پر مشتمل ہوں کا مطلب کیا ہے؟پچھلی نوع  کہ اِن للشرط والجزا  یعنی اِن درحقیقت دو جملوں پر داخل ہوتا ہے جن میں سے پہلا جملہ شرط ہوتا ہے، دوسرا جزا ہوتا ہے۔ آگے خود لکھ رہے ہیں:وَتَدْخُلُ عَلَى الْفَعِلَينَ یہ اسماء دو فعلوں پر داخل ہوتے ہیں۔ یعنی کیا مطلب؟ یہ ان میں دو فعل ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی، یعنی گویا کہ ایک شرط اور ایک جزا، اور وہ دونوں فعل ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے جی، خوب۔ وَيَكُونُ الْفَعِلُ الْاَوَّلُ سَبَبًا لِلْفَعِلِ الثَانِی ، یہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے پہلا فعل سبب بنتا ہے دوسرے فعل کے لیے۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر پہلا فعل نہ ہوتا تو دوسرا فعل بھی وجود میں نہ آتا۔ چونکہ یہ پہلا کام ہوا، اسی کی وجہ سے یہ دوسرا کام بھی ہوا۔ پس پہلا فعل دوسرے فعل کے لیے سبب ہے۔

وَيُسَمَّیٰ الْاَوَّلُ شَرْطًااب جو پہلا فعل ہوگا، وہ پہلا جملہ فعلیہ، اس کو نام رکھا جائے گا شَرْطًا۔ وہ کہلائے گا شَرْط، والثاني جزاءََ؛ اور دوسرا کہلائے گا جَزَا۔ جیسے:مَنْ يَضْرِبْنِي أَضْرِبْهُ   بلکہ آگے اور مثال ہے اس کی۔ بلکہ اس کو آپ کو میں اور آسان کر کے بتاؤں کہ:مَنْ يَضْرِبْنِي أَضْرِبْهُجو مجھے مارے گا، میں اس کو ماروں گا۔ اب میرے مارنا، میرا مارنا یہ جزا ہے۔ شرط کیا ہے؟ شرط یہ ہے کہ پہلے وہ مارے۔ ٹھیک ہے جی۔

فَإِنْ كَانَ الْفِعْلَانِ مُضَارِعَيْنِاگر جملہ شرطیہ میں استعمال ہونے والا فعل اور جملہ جزا میں استعمال ہونے والا فعل، اگر تو یہ دونوں فعل مضارع ہوں، جیسے میں نے مثال دی :مَنْ يَضْرِبْنِي أَضْرِبْهُاب یہ بھی فعل مضارع، یہ بھی فعل مضارع۔

أَوْ كَانَ الْاَوَّلُ مُضَارِعًایا پہلا فعل مضارع ہو۔ فَقَط پہلا فعل  جملہ شرطیہ میں آنے والا فعل فعلِ مضارع ہو، دُونَ الثَانی لیکن جو جزا والا ہے، وہ فعل مضارع نہ ہو۔ ٹھیک ہے جی۔ اس کی مثالیں بہت ہیں، مثلاً:إِنْ تَزُرْنِي زُرْتُكَاگر تو میری زیارت کرے گا، میں تیری زیارت کروں گا۔ زُرتُ اب یہ ماضی ہے۔

اب ہم دیکھ رہے ہیں فعلِ مضارع  شرط میں استعمال ہوا ہے ، دُونَ الثَانی لیکن جزا میں نہیں ۔

 اب آپ اس کی یوں ترتیب بنائیں گے۔ پس اگر شرط اور جزا میں آنے والے دونوں فعل  فعل ِمضارع ہوں گے، یا پہلا شرط میں آنے والا  فعل مضارع ہو اور جزا والا مضارع نہ ہو، فالجزم واجب في المضارع  تو ان دو صورتوں میں کونسی دو صورتیں ہیں؟ کہ یا دونوں میں استعمال ہونے والا فعل مضارع ہو، یا شرط میں استعمال ہونے والا فعل مضارع ہو۔ پھر تو جزم واجب ہے۔ یعنی اگر جزم نہیں پڑھیں گے تو وہ غلط ہو جائے گا۔

وَهِيَ تِسْعَةُ أَسْمَاءَاور یہ نو اسماء جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں، یہ نو ہیں:

  1. مَنْ

  2. مَا

  3. أَيُّ

  4. مَتَى

  5. أَيْنَمَا

  6. أَنَّى

  7. مَهْمَا

  8. إِذْمَا

  9. حَيْثُمَا

یہ ہو گئے نو۔ اب آپ کو تعداد معلوم ہو گئی کہ فعل مضارع کو جزم دینے والے اسماء کی تعداد نو ہے۔ اب یاد خود رکھنا ہے کہ کچھ ہیں حروف جازِمہ اور کچھ ہیں اسماء جازِمہ۔ پچھلی فصل تھی حروف جازِمہ کے بارے میں، جبکہ یہ فصل ہے اسماءِ جازِمہ کے بارے میں کہ وہ اسماء جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں۔ یہ بات یہاں پر ختم ہو گئی۔

3

دو فعلوں کو جزم دینے والے اسماء: مَنْ، مَا، أَيٌّ

اب اس سے آگے شروع کر رہے ہیں کہ یہ اسماء کہاں کہاں استعمال ہوتے ہیں؟ یعنی کہاں ہو گیا؟ ایسا نہیں ہے کہ جس اسم کو جہاں چاہیں رکھ دیں، نہیں، یہ درست نہیں ہے۔ فرماتے ہیں:

فَمَنْاب ان اسماء میں سے ایک ہے اسماء جازِمہ میں سے ایک ہے مَنْ۔

وَھُوَ لايُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي ذَوِي الْعُقُولِ  ، من نہیں استعمال ہوتا سواء ذوی العقول میں  یہ لفظی ترجمہ ہو گیا۔ اس طرح ترجمہ کیا گیا یعنی مَنْ فقط ذَوِي الْعُقُولِ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مَنْ کا استعمال فقط وہاں ہوتا ہے جو صاحبانِ عقل ہوتے ہیں۔ جن چیزوں میں عقل نہیں ہوتی، وہاں مَنْ کا استعمال بھی نہیں ہوتا۔

اب ذرا غور کرنا ہے، مثلاً:مَنْ يُكْرِمْنِي أُكْرِمْهُ ، جو مجھے اکرام کرے گا، یعنی میرا اکرام کرے گا، مجھے  عزت دے گا، میں بھی اس کا اکرام کروں گا۔ اب اکرام ظاہر ہے کہ صاحبانِ عقل ہوتے ہیں، وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ یہ حیوانات کرتے ہیں جو ذوی الْعُقُول نہیں ہوتے ہیں، جن میں عقل نہیں ہوتی، وہ تو نہیں کرتے۔ فلان پتھر نے بڑی بڑی عزت کی، فلان دیوار نے بڑی بڑی عزت کی، فلان درخت نے بڑی عزت کی؟ نہیں، وہ ذوی الْعُقُول میں شامل نہیں ہیں۔

مَنْ يُكْرِمْنِي أُكْرِمْهُجو میرا احترام کرے گا، میں اس کا احترام کروں گا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے، گویا سمجھانا یہ چاہتے ہیں:إِنْ يُكْرِمْنِي زَيْدٌ أُكْرِمْهُ ( من معنای اِن پر مشتمل ہوتا ہے ) اگر میرا زید احترام کرے گا، میں اس کا احترام کروں گا۔إِنْ يُكْرِمْنِي عَمِرو أُكْرِمْهُاگر میرا عمرو احترام کرے گا، میں اس کا احترام کروں گا۔

اب آپ دیکھیں، بار بار کہ يُكْرِمْنِي یہ بھی مضارع، أُكْرِمْهُ یہ بھی مضارع۔ اب دونوں میں مضارع استعمال ہوا۔ یہاں مَنْ معنی اِن  پر مشتمل تھا، اس نے يُكْرِمْنِي کو بھی جزم دیا ہے اور أُكْرِمْهُ کو بھی جزم دیا ہے، کیونکہ یہ معنی اِن پر مشتمل تھا۔ لہٰذا يُكْرِمْنِي یہ بن جائے گا شرط، أُكْرِمْهُ یہ بن جائے گا جزا۔

پس نمبر ایک مَنْ اسماء جازمہ میں سے ہے، فعل مضارع کو جزم دیتا ہے جب یہ مشتمل ہوگا معنی اِن  پر۔ لیکن مَنْ فقط ذَوِي الْعُقُول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وَمَادوسرا اسم مَا، ھُوَلا يُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي غَيْرِ ذَوِي الْعُقُولِ غَالِبًا۔

اب ذرا غور کرنا ہے کہ یہ مَا استعمال نہیں ہوتا مگر غیرِ ذَوِي الْعُقُول میں۔ لفظی ترجمہ ہو گیا۔ اس طرح ترجمہ کیا: مَا غیرِ ذَوِي الْعُقُول میں استعمال ہوتا ہے۔ آگے جملہ ہے: غَالِبًا، اکثر طور پر۔ یہ غَالِبًا کیوں کہا ہے؟ ہو سکتا ہے کبھی کبھار یہ ذَوِي الْعُقُول کے لیے بھی استعمال ہو جائے، لیکن غالب طور پر، اکثر طور پر، یہ مَا وہاں استعمال ہوتا ہے جو ذَوِي الْعُقُول نہیں ہوتے۔

مثلاً:مَا تَشْتَرِ أَشْتَرِجو تُو خریدے گا، میں خریدوں گا۔ اب یہاں جزم کہاں سے آئی؟ آپ کہیں گے، را کے بعد جو یا تھی( تشتری)، وہ اس مَا جازم کی وجہ سے گر گئی۔ ورنہ کہنا تھا: أَشْتَرِي۔ یہاں پر گر گئی: مَا تَشْتَرِ أَشْتَرِ۔ یہ نہیں، مقصد کیا ہے؟ مقصد ہے کہ وہ یوں کہنا چاہتے ہیں:إِنْ تَشْتَرِ الْفَرَسَ أَشْتَرِ الْفَرَسَاگر تُو گھوڑا خریدے گا، میں بھی گھوڑا خریدوں گا۔إِنْ تَشْتَرِ الثَّوْبَ أَشْتَرِ الثَّوْبَاگر تُو کپڑا خریدے گا، میں بھی کپڑا خریدوں گا۔

کپڑا ذَوِي الْعُقُول میں سے شمار نہیں ہوتا، اسی لیے یہاں پر مَا کا استعمال ہوا۔ یہ مَا معنی اِن  پر مشتمل ہے، اور اس کے بعد تَشْتَرِ یہ پہلا فعل جو شرط ہے، اور دوسرا أَشْتَرِ اس کی جزا ہے۔ اور پہلا فعل سبب ہے دوسرے فعل کے لیے۔

تیسرا اسماء جازمہ میں سے وہ ہے أَيُّ۔ أَيُّ ھُوَ لَا يُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي ذَوِي الْعُقُولِ۔ یعنی أَيُّ بھی مَنْ کی طرح فقط ذَوِي الْعُقُول میں استعمال ہوتا ہے۔ أَيُّ یہ فقط ذَوِي الْعُقُول میں استعمال ہوتا ہے۔

وہ جیسے مَنْ ذَوِي الْعُقُول کے لیے تھا، لیکن مَنْ میں اور أَيُّ میں ایک فرق ہے۔ وہ فرق کیا ہے؟ کہ مَنْ کا کسی اور اسم کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہونا ضروری نہیں تھا، لیکن أَيُّ میں اضافت لازم ہے۔ اضافت لازم ہے کا مطلب کیا ہے؟ یعنی أَيُّ کو آپ جب تک کسی اور اسم کی طرف مضاف نہیں کریں گے، تب تک آپ اس کو استعمال نہیں کر سکتے۔

أَيُّ کی مثال لیتا ہوں، بڑا واضح ہو جائے گا:أَيُّ ھُوَ لَا يُسْتَعْمَلُ إِلَّا فِي ذَوِي الْعُقُولِ کہ أَيُّ فقط مَنْ کے طرح ذَوِي الْعُقُول میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک بات۔ لیکن فرق کیا ہے؟ وَتَلْزَمُهُ الْإِضَافَةُ۔ لیکن أَيُّ کو اضافت لازم ہے۔ کیا مطلب لازم ہے؟ آپ جواب دیں گے، اس کا مطلب ہے کہ أَيُّ ہمیشہ دوسرے اسم کی طرف یا ضمیر کی طرف (جو بھی ہوگا، اسم ظاہر یا ضمیر) أَيُّ ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے۔ بغیر اضافت کے استعمال نہیں ہوتا۔ جبکہ مَنْ کے لیے یہ باتیں نہیں ہیں۔

جیسے:أَيُّهُمْ يَضْرِبْنِي أَضْرِبْهُان میں سے جو بھی مجھے مارے گا، میں اس کو ماروں گا۔ اب یہاں أَيُّهُمْ ذَوِي الْعُقُول کے لیے ہے، لیکن یہ أَيُّهُمْ ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوا ہے۔ کہ ان میں سے جو بھی مجھے مارے گا، أَضْرِبْهُ میں اس کو ماروں گا۔ اب أَيُّ نے يَضْرِبْنِي کو بھی جزم دیا ہے، أَضْرِبْهُ کو بھی جزم دیا ہے۔ يَضْرِبْنِي پہلا شرط ہے فعل، اور دوسرا أَضْرِبْهُ اس کی جزا ہے۔

یعنی مقصد کیا ہے؟ أَيُّهُمْ يَضْرِبْنِي أَضْرِبْهُ۔ گویا کہ آپ یوں کہنا چاہتے ہیں:إِنْ يَضْرِبْنِي زَيْدٌ أَضْرِبْهُاگر مجھے زید مارے گا، میں بھی اس کو ماروں گا۔یعنی یہ أَيُّ معنی اِن پر مشتمل ہے، دو فعلوں پر داخل ہوا۔ پہلا مضارع، دوسرا بھی مضارع۔ دونوں کو اس نے جزم دیا ہے۔ لیکن أَيُّهُمْ کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوا ہے۔ بغیر  اضافت کے استعمال نہیں ہوتا۔

4

دو فعلوں کو جزم دینے والے اسماء: مَتَى، أَيْنَمَا، أَنَّى، مَھمَا، حَيْثُمَا، إذْمَا

خوب، ان اسماء جازمہ میں سے ایک ہے مَتَى۔ خوب، یہ مَتَى کیا ہے؟ بہت غور سے۔ یعنی یہ مَتَى بھی اگر معنی اِن پر مشتمل ہو گا تو یہ فعل مضارع کو جزم دے گا۔

جناب، یہ مَتَى استعمال کہاں ہوتا ہے؟ جواب ھُوَ لِلزَّمَانِ ۔ یہ استعمال ہوتا ہے زمان میں، وقت میں، جہاں وقت کی بات ہو رہی ہو، وہاں پر استعمال ہوتا ہے۔ کیوں؟ ایک زمان ہوتا ہے، ایک مکان ہوتا ہے۔ یعنی جگہ کی بات ہو تو پھر کوئی اور ہوگا، اور اگر وقت کی بات ہو تو پھر یہ ہوگا۔

فرق یہ ہے، مثلاً آپ کہتے ہیں:مَتَى تَذْهَبْ أَذْهَبْ ، مَتَى تَذْهَبْ، اب دیکھو، مَتَى تَذْهَبْ فعل مضارع ہے، اس کو بھی جزم دی۔ أَذْهَبْ فعل مضارع ہے، اس کو بھی جزم دی۔ دو فعلوں پر داخل ہوا، پہلا شرط، دوسرا جزا۔ لیکن یہ مَتَى معنی اِن پر مشتمل ہے، لیکن زمانے میں۔

یعنی اصل میں کہنا کیا چاہتا ہے؟ اصل میں کہنا یہ کیا چاہتا ہے:إِنْ تَذْهَبِ الْيَوْمَ أَذْهَبِ الْيَوْمَاگر تو آج جائے گا، تو میں بھی آج جاؤں گا۔ ٹھیک ہے جی۔وَإِنْ تَذْهَبْ غَدًا أَذْهَبْ غَدًا اگر تو کل جائے گا، تو میں کل جاؤں گا۔ أَذْهَبْ کی باء پر بھی جزم پڑھنی ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ اِن آگئی ہے  ۔

تو پس یہ مَتَى جب معنی پر مشتمل ہو گا، فعل مضارع کو جزم دے گا۔ لیکن یہ مَتَى استعمال ہوتا ہے زمان کے لیے، وقت کے لیے۔ جہاں وقت کی بات ہو رہی ہو۔ جیسے یہاں تھا کہ اگر تو آج جائے گا، تو میں آج جاؤں گا۔ اگر تو کل جائے گا، تو میں کل جاؤں گا۔ آج، کل، یہ ساری زمانے کی باتیں ہیں۔ یہ ساری وقت سے مربوط باتیں ہیں۔ جگہ کے بارے میں نہیں۔

اسماء جازمہ میں سے ایک اور اسم ہے أَيْنَمَا۔ أَيْنَمَا بھی جب معنی اِن  پر مشتمل ہو، یہ فعل مضارع کو جزم دیتا ہے۔ لیکن أَيْنَمَا استعمال کہاں ہوتا ہے؟ ھُوَلِلْمَكَانِ۔ یہ استعمال ہوتا ہے مکان میں، یعنی جب جگہ کی بات ہو رہی ہو، مقامیت کے بارے میں گفتگو کرنی ہو، وہاں پر أَيْنَمَا استعمال ہوتا ہے۔

پس مَتَى زمان کے بارے میں گفتگو میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ أَيْنَمَا مکان کے بارے میں جب گفتگو ہوتا ہو، وہاں استعمال ہوتا ہے۔

جیسے مثال:أَيْنَمَا تَمْشِ أَمْشِاچھا، اس أَيْنَمَا نے جزم کہاں دی؟ آپ کہیں گے، شین کے بعد ایک یا تھی، وہ یا جزم کی وجہ سے گر گئی۔ اس طرح أَمْشِ میں بھی شین کے بعد یا تھی، اثر میں  یَمشِی تھا، یا گر گئی ہے، اس جزم کی وجہ سے۔

أَيْنَمَا تَمْشِ أَمْشِ جہاں تو جائے گا، وہاں میں جاؤں گا۔ أَيْنَمَا جگہ، مکان کے بارے میں۔ یعنی جس جگہ تو جائے گا، اس جگہ میں جاؤں گا۔

اب أَيْنَمَا معنی اِن  پر مشتمل ہے، اور یہ داخل ہوا ہے دو فعلوں پر۔ ایک ہے تَمْشِ، اور ایک ہے أَمْشِ۔ دونوں فعلیں مضارع ہیں، دونوں کو اس نے جزم دیئے۔ اور جزم کیا ہے کہ اس نے اس کی آخری حرف تھا یا، اس کو گرا دیا۔

یعنی أَيْنَمَا تَمْشِ أَمْشِجس جگہ تو جائے گا، میں اسی جگہ جاؤں گا۔ گویا کہ یہ کہنا چاہتا ہے:إِنْ تَمْشِ إِلَى الْمَسْجِدِ أَمْشِ إِلَى الْمَسْجِدِاگر تو مسجد میں جائے گا، تو میں مسجد میں جاؤں گا۔إِنْ تَمْشِ إِلَى السُّوقِ أَمْشِ إِلَى السُّوقِاگر تو بازار جائے گا، تو میں بھی بازار جاؤں گا۔

اب یہ مسجد یا بازار، یہ مکان ہیں۔ یہ کوئی زمان نہیں ہے، وقت نہیں ہے۔ بلکہ یہ جگہ سے مربوط ہیں۔

انہی اسماء جازمہ میں ایک اور ہے، وہ ہے أَنَّیٰ۔ أَنَّیٰ ھُوَ اَیضاََ لِلْمَكَانِ۔ یہ أَنَّیٰ اسماء جازمہ میں سے ہے۔ جب یہ معنی اِن  پر مشتمل ہو گا، یہ فعل مضارع کو جزم دے گا،  یہ بھی دو فعلوں پر داخل ہوتا ہے، ایک شرط اور دوسرا جزا۔ اور یہ أَنَّیٰ بھی مکان کے لیے۔

اَیضاََ  کا مطلب کیا ہے؟ جیسے أَيْنَمَا مکان میں استعمال ہوتا تھا، یہ أَنَّى بھی  اردو میں ہم اَیضاََ  کا ترجمہ کرتے ہیں بھی، یہ اَیضاََ  بھی مکان کے لیے۔ یعنی اگر کسی جگہ کی بات کرنی ہو، تو وہاں پر أَنَّى کا استعمال ہوتا ہے۔

جیسے مثال ہم کہتے ہیں:أَنَّى تَكُنْ أَكُنْجس جگہ تو ہو گا، اسی جگہ میں ہو گا۔ جگہ کے معنی ہے، جس جگہ پر تو ہو گا ، میں ہو گا

أي: إن تكن في البلدة أكن في البلدة،  اگر تو شہر میں ہوگا تو میں بھی شہر میں ہونگا ، وإن تكن في البادية أكن في البادية، اگر تم شہر میں نہیں دھات میں ہوگا میں بھی وہیں اسی جنگل یا دات میں ہونگا ۔

اسماء جازمہ میں سے ایک اور اسم ہے مَھمَا ہے ، مَھمَا بھی جب معنی اِن  پر مشتمل ہو، یہ فعل مضارع کو جزم دیتا ہے ، «مَهْمَا» وهو للزمان، لیکن یہ مَھمَا زمان میں استعمال ہوتا ہے ، یعنی اگر وقت کی بات کرنی ہو تو وہاں پر اس مَھمَا کو استعمال کیا جاتا ہے جیسے : مثل: «مهما تذهب أذهب» دیکھیں اس مھما نے تذھب کو بھی جزم دیا اذھب کو بھی جزم دیا اور  یہ مشتمل ہے معنی اِن پر ، جس وقت تو جائے گا میں جائوں گا ، یعنی أي إن تذهب اليوم أذهب اليوم، وإن تذهب غداً أذهب غداً، تو اگر آج جائے گا میں بھی آج جائوں گا اگر تو کل جائے گا میں بھی کل جائوں گا ۔

اسماءِ جازمہ میں سے ایک اور اسم ہے وہ ہے و «حَيْثُمَا» فرماتے ہیں یہ و «حَيْثُمَا» کیا ہے ؟ آپ فرمائیں گے کہ یہ اسماء جازمہ میں سے اور فعل مضارع کو جزم دیتا ہے جب یہ معنی اِن پر مشتمل ہو اور یہ مکان کی معنی رکھتا ہے یعنی جہاں جگہ کی بات ہو مقام کی بات ہو یہ حَيْثُمَا استعمال ہوتا ہے جیسے «حيثما تقعدْ أقعدْ» جس جگہ تو بیٹھے گا  میں بیٹھوں٘ گا ، پس یہ «حيثما» مشتمل ہے معنی اِن  پر گویا یہ کہنا یہ چاہتا ہے أي: إن تقعد في القرية أقعد في القرية، اگر تو گاوٗں میں بیٹھے گا میں بھی گاوٗں میں بیٹھوں گا  ، ، وإن تقعد في البلدة أقعد في البلدة ، اگر تو شہر میں بیٹھے گا میں بھی شہر میں بیٹھوں گا ۔
اس حیثما نے تقعد کو بھی جزم دیا اقعد کو بھی جزم دیا ، تقعد شرط بن جائے گی اور اقعد جزا بن جائے گی اور یہ حیثما معنی اِن پر مشتمل ہے ۔

اسماءِ جازمہ میں سے ایک اور ہے «إذْمَا» فرماتے ہیں یہ «إذْمَا» وهو يستعمل في غير ذوي العقول، اِذمَا اسماءِ جازمہ میں سے ہے اور جب یہ معنی اِن پر مشتمل ہوگا تو یہ جزم دیگا جیسے پہلے اسماء کا بتایا ہے لیکن یہ  اذما وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں غیر ذوی العقول کے متعلق بات ہو تو وہاں اس کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے : «إذما تفعل أفعل» ، یہ کرنا غیر ذوی العقول کے متعلق ہے ، اور یہ معنی اِن پر مشتمل ہے تو گویا یہ کھنا چاہتا ہے : أي: إن تفعل الخياطة أفعل الخياطة، اگر تو درزی کا کام کرے گا میں بھی درزی کا کام کروں گا ، وإن تفعل الزراعة أفعل الزراعة،  اگر تو کھیتی باڑی کا کام کرے گا میں بھی کھیتی  باڑی کا کام کروں گا ۔

پس یہ اذما غیر ذوی العقول کے لیئے جیسے سلائی کرنا کھیتی باڑی کرنا ۔

جب یہ اسماء معنی اِن پر مشتمل ہوں اور ان کے بعد دو جملے آئیں گے ایک ہوگا شرط دوسرا ہوگا جزاء ، اگر یہ دونوں فعلِ مضارع ہوں یا ان میں سے شرط میں استعمال ہونے والا فعل مضارع ہو تو جزم پڑہنا واجب ہے ، نہیں پڑہیں گے تو غلط ہوگا  یہ بات مکمل ہوگئی ۔
وإن كان الفعل الثاني مضارعاً دون الأول،( شرط میں استعمال ہونے والا فعل مضارع نہ ہو تو)  فالوجهان في المضارع: الجزم والرفع،( تو مضارع پر دو وجہیں جائز ہیں آپ چاہیں تو اس مضارع پر جزم بھی پڑہ سکتے ہیں اور رفع بھی پڑہ سکتے ہیں )مثل: «إذما كَتَبتَ أَكتُب»آپ اکتب کی با پر جزم بھی پڑہ سکتے ہیں اور رفع بھی سکتے ہیں ، کیونکہ فقط جملہ جزا میں فعل مضارع ہے اور شرط میں فعل مضارع نہیں ہے۔

فعليّة، وقد تكون اسميّة، وتسمّى الأولى شرطاً والثانية جزاءً؛ فإن كان الشرط والجزاء، أو الشرط وحدَه فعلاً مضارعاً فتجزمه «إنْ» على سبيل الوجوب، مثل: «إن تضربْ أضربْ»، و «إن تضربْ ضربتُ»، و«إن تضربْ فزيد ضارب»، وإن كان الجزاء وحده فعلاً مضارعاً فتجزمه على سبيل الجواز، نحو: «إن ضربتُ أضربْ».

النوع السابع

أسماءُ تجزم الفعل المضارع حال كونها مشتملة على معنى «إن»، وتدخل على الفعلين، ويكون الفعل الأوّل سبباً للفعل الثاني، ويسمّى الأوّل شرطاً، والثاني جزاء؛ فإن كـــان الفعلان مضارعين، أو كان الأوّل مضارعاً دون الثاني، فالجزم واجب في المضارع، وهي تسعة أسماء: «مَنْ» و«مَا» و«أَيٌّ» و «مَتَى» و «أَيْنَمَا» و «أَنَّى» و «مَهْمَا» و«حَيْثُمَا» و«إِذْمَا»؛ فـ«مَنْ» وهو لا يستعمل إلّا في ذوي العقول، نحو: «من يكرمني أكرمه» أي: إن يكرمني زيد أكرمه، وإن يكرمني عمرو أكرمه، و «مَا» وهو لا يستعمل إلّا في غير ذوي العقول

غالباً، نحو: «ما تشترِ أشترِ» أي: إن تشتر الفرس أشتر الفرس، وإن تشتر الثوب أشتر الثوب، و«أيٌّ» وهو لا يستعمل إلّا في ذوي العقول، وتلزمه الإضافة، مثل: «أيّهم يضربني أضربه» أي: إن يضربني زيد أضربه، وإن يضربني عمرو أضربه، و «متى» وهو للزمان مثل: «متى تذهب أذهب» أي: إن تذهب اليوم أذهب اليوم، وإن تذهب غداً أذهب غداً، و «أَيْنَمَا» وهو للمكان، مثل: «أينما تمشِ أمشِ» أي: إن تمش إلى المسجد أمش إلى المسجد، وإن تمش إلى السوق أمش إلى السوق، و «أنَّى» وهو أيضاً للمكان، مثل: «أنَّى تكن أكن» أي: إن تكن في البلدة أكن في البلدة، وإن تكن في البادية أكن في البادية، و«مَهْمَا» وهو للزمان، مثل: «مهما تذهب أذهب» أي إن تذهب اليوم أذهب اليوم، وإن تذهب غداً أذهب غداً، و «حَيْثُمَا» وهو للمكان، مثل: «حيثما تقعدْ أقعدْ» أي: إن تقعد في القرية أقعد في القرية، وإن تقعد في البلدة أقعد في البلدة، و«إذْمَا» وهو يستعمل في غير ذوي العقول، مثل: «إذما تفعل أفعل» أي: إن تفعل الخياطة أفعل الخياطة، وإن تفعل الزراعة أفعل الزراعة، وإن كان الفعل الثاني مضارعاً دون

الأول، فالوجهان في المضارع: الجزم والرفع، مثل: «إذما كتبت أكتب».

النوع الثامن

أسماءُ تنصب الأسماء النكرات على التمييز، وهي أربعة أسماء: الأوّل لفظ «عشر» أو «عشرون» أو «ثلاثون» أو «أربعون» أو «خمسون» أو «ستون» أو «سبعون» أو «ثمانون» أو «تسعون»، إذا ركّب مع «أحد» أو «اثنين» أو «ثلاث» أو «أربع» أو «خمس» أو «ستّ» أو «سبع» أو «ثمان» أو «تسع»؛ فإن كان المميّز مذكّراً فطريق التركيب في لفظ «أحد» أو «اثنين» مع «عشر» أن تقول: «أحد عشر رجلاً»، و«اثنا عشر رجلاً»، بتذكير الجزأين، وإن كان مؤنّثاً فتقول: «إحدى عشرة امرأة»، و«اثنتا عشرة امرأة»، بتأنيث الجزأين، وطريق تركيب غيرهما إلى «تسع» مع «عشر» أن تقول في المذكّر: «ثلاثة عشر رجلاً»، و«أربعة عشر رجلاً» إلى «تسعة عشر رجلاً»، بتأنيث الجزء الأوّل وتذكير الجزء الثاني، وفي المؤنث: «ثلاث عشرة امرأة»، و«أربع عشرة امرأة» إلى «تسع عشرة امرأة» بتذكير الجزء الأوّل وتأنيث