درس شرح مائة عامل

درس نمبر 13: فعل مضارع کو جزم دینے والے حروف

 
1

خطبہ

2

فعل مضارع کو جزم دینے والے حروف: "لَم" اور "لَمَّا"

النوع السادس : حروف تجزِم الفعل المضارع، وهي خمسة أحرف: «لَمْ» و «لَمَّا» و «لاَمُ الأمْرِ» و«لاَ النَهْيِ» و«إِنْ»

گذشتہ درس میں گزارش کی تھی وہ حروف جو افعال میں عمل کرتے ہیں ، یہ چھٹی نوع بھی ان حروف کے بارے میں ہے جو اسم کے جگہ فعل میں عمل کرتے ہیں ۔
پانچ حروف ایسے ہیں جو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں ، جیسے حروف ناصبہ فعل مضارع کو نصب دیتے تھے یہ حروف فعل مضارع میں عمل کرتے ہیں اور ان کا عمل ہے جزم ہوتا ہے  یعنی  ان کی آخری حرکت کو سکون میں تبدیل کرتے ہیں ، ان کو حروفِ جازمہ کہا جاتا ہے ، آگے کچھ اسماء بھی بیان ہونگے جو جزم دیتے ہیں اس کو یاد رکھنا ہے ان میں فرق رکھنا ہے حروف جازمہ اور اسماء جازمہ۔

وہ پانچ حروف ہیں : «لَمْ» و «لَمَّا» و «لاَمُ الأمْرِ» و«لاَ نهْيِ» و«إِنْ شرطیہ» 

1- ان کا عمل ہے فعل مضارع کو جزم دینا۔

2- ان کا استعمال کی جگہ اور معنی کو یاد رکھنا ہے۔

لم جازمہ کی تفصیل :

ایک تو اس کا عمل جزم کا ہوگا فعل مضارع کے اوپر یَضرِبُ ، لَم کے بعد ہوگا لَم یَضرِبْ جزم کے ساتھ، اور کیا کرتا ہے ؟ فرماتے ہیں یہ مضارع کو ماضی منفی میں تبدیل کر دیتا ہے معنی کے اعتبار سے ۔

یضرب کا معنی ہوتا ہے کہ وہ مار رہا ہے یا مارے گا ، فعل مضارع ہے تو حال اور استقبال کی معنی اس میں ہے لیکن اسی یضربُ پر لَم داخل ہوجائے تو لم یَضرِبْ کا معنی یہ نہیں ہوگا کہ وہ نہیں مارتا ہے یا نہیں مارے گا ، اگرچہ یہ فعل مضارع ہے مگر اس لَم نے اسے ماضی کی معنی میں لے گیا ہے یعنی اس ایک مرد نے نہیں مارا زمانے گذشتہ میں ۔

لَمّّا جازمہ کی تفصیل : 

یہ بھی لَم کی طرح ہے ، فعلم مضارع پر داخل ہوکر جزم دیتا ہے اور اس مضارع کو ماضی منفی میں تبدیل کرتا ہے ، لیکن فرق ہے لم اور لما کے درمیان  اس فرق کو سمجھنا ہے ، یہ دونوں اس بات میں شریک ہیں کہ دونوں فعل مضارع پر داخل ہوتے ہیں اسے جزم دیتے ہیں اور اس کی معنی کو ماضی منفی میں تبدیل کرتے ہیں لیکن ایک فرق ہے وہ یہ ہے کہ لم فقط اتنا بتاتا ہے کہ لَم یَضرِبْ  اس نے نہیں مارا زمانے گذشتہ میں ، بس اتنا بتاتا ہے لیکن لَمّّا یہ ساتھ ساتھ استغراق کی معنی بھی دیتا ہے یعنی لَمَّا یَضرِبْ اس زمانے سے لیکر کسی بھی وقت اس نے نہیں مارا ، لم کب اس نے نہیں مارا کب کس زمانے میں ماضی قریب یا بعید  ؟ لیکن لَمَّا یہ بیان کرتا ہے کہ پورے زمانے ماضی میں اس نے نہیں مارا ۔یہ ان کے درمیان فرق ہے ۔

النوع السادس :  حروف تجزِم الفعل المضارع، وهي خمسة أحرف:

«لَمْ» و «لَمَّا» و «لاَمُ الأمْرِ» و«لاَ النَهْيِ» و«إِنْ» للشرط والجزاء؛

چھٹی نوعان حروف کے بارے میں ہےجو فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں جیسے میں نے کھا ہے ان کو حروف جازمہ کھاجاتا ہے اور یہ پانچ حروف ہیں : لم ، لمَّا،لام امر لا نھی ان شرطیہ ( ان دو جملوں پر داخل ہوتا ہے ان میں سے ایک شرط ہوتا ہے دوسرا جزا ہوتا ہے اور اِن دونوں میں اپنا اثر دکھاتا ہے ۔
فـ «لم» تجعل المضارع ماضياً منفياً، مثل: «لم يضرب» بمعنى «ما ضرب»،

 لم جہاں تک بات ہے لَم کی ، فعل مضارع کو بنا دیتا ہے ماضی منفی یہ لفظی ترجمہ ہوا ، لم جب فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے تو اس مضارع کو ماضی منفی کی معنی میں تبدیل کر دیتا ہے مثل :یَضرِبُ پر جب لَم داخل ہوگیا تو اس نے پہلے اس کے اعراب پر عمل کیا تو بن گیا لَم یَضرِبْ ، با ساکن ہوگئی ، دوسرا لَم یَضرِبْ کا معنی استقبال والا معنی نہیں کرنا بلکہ لَم یَضرِبْ کا معنی ہوتا ہے مَا ضَربَ ، یعنی اس نے نہیں مارا زمانے گذشتہ میں ۔

دوسرا حرف ہے لَمَّا فرماتے ہیں :

و«لَمّا» مثل «لم»، لكنّها مختصّة ٌبالاستغراق،

لما بھی مثل لم کے ہے کیا مطلب ؟ یعنی یہ بھی مضارع کو جزم دیتا ہے اور اس کی معنی کو ماضی منفی میں تبدیل کرتا ہے لیکن ایک فرق ہے وہ ہے کہ لَمَّا استغراق کے ساتھ مختص ہے ، میں نے آسان اردو میں بتایا تھا کہ لم فقط اتنا بتاتا ہے کہ لَم یَضرِبْ  اس نے نہیں مارا زمانے گذشتہ میں ، بس اتنا بتاتا ہے لیکن لَمّّا یہ استغراق کی معنی بھی دیتا ہے یعنی لَمَّا یَضرِبْ اس زمانے سے لیکر کسی بھی وقت اس نے نہیں مارا ،
مثلاََ :جب ہم یہ کہیں گے کہ «لَمّا يضربْ زيد» أي: ما ضرب زيد في شيء من الأزمنة الماضية،
نہیں مارا زید نے جتنے بھی زمانے ماضی ہیں اس میں نہیں مارا۔
 

3

فعل مضارع کو جزم دینے والے حروف: لام امر

 لامِ امر کی تفصیل:

حروفِ جازمہ میں سے ایک اور حرف ہے، وہ ہے لامِ امر۔ یعنی فعل پر آپ لام لگا دیتے ہیں، اس لام کے ذریعے آپ اس فعل کو طلب کرتے ہیں۔ اگر شخص غائب ہوگا تو وہاں پر غائب کی لام لگائی جائے گی، یعنی اگر بندہ وہاں موجود نہیں ہے، غائب ہے، آپ اس سے چاہتے ہیں کہ وہ یہ کام کرے۔ مثلاً ہم چاہتے ہیں کہ وہ بندہ مدد کرے جو موجود نہیں ہے، تو وہاں کہیں گے: لِيَنْصُرْ، چاہیے کہ وہ مدد کرے۔ یہ ہوتی ہے لامِ امر۔

اگر مخاطب سے مدد طلب کرنی ہے، تو اس کو کیا کہیں گے؟ لِتَنْصُرْ، تو مدد کر۔ اور اگر اپنے سے اس فعل کو طلب کرنا ہے، تو کہے گا: لِأَنْصُرْ، کہ میں مدد کروں۔

لامِ امر کا کام کیا ہوتا ہے؟یعنی بجائے اس کے کہ فعلِ مضارع پر ایک لام کو داخل کیا جاتا ہے، اور اس لام کو داخل کر کے فعل کو غائب سے، یا حاضر سے، یا متکلم سے طلب کیا جاتا ہے۔ چونکہ امر کا معنی یہی ہوتا ہے۔ امر کسے کہتے ہیں؟ بار بار ہم نے کہا ہے کہ امر ہوتا ہے طلبِ فعل، اور نہی ہوتا ہے طلبِ ترک۔ فرماتے ہیں: وَاللَّامُ الْأَمْرِ حُرُوفِ جَازِمَۃٍ صَحِیحَۃِ الْأَمْرِ وَہِیَ لِطَلَبِ الْفِعْلِ، یہ آتی ہے طلبِ فعل کے لیے، طلبِ فعل کے لیے۔ ٹھیک ہو گیا جی۔ یعنی کسی سے کوئی کام چاہنا، طلب کرنا کہ کوئی کسی کام کو فعل کو انجام دے۔

اب جو طلب کیا جا رہا ہے، وہ کس سے ہے؟ فرماتے ہیں: إِمَّا عَنِ الْفاعِلُ الْغَائِبِ، ہو سکتا ہے کہ آپ وہ فعل جو طلب کر رہے ہیں، ایک ایسے فعل سے طلب کر رہے ہوں جو فعلِ غائب ہے، جو وہاں موجود نہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ یہ کام کرے، پھر آپ کہیں گے: لِيَضْرِبْ، چاہیے کہ وہ مارے۔ وہ ایک شخص غائب مارے۔

یا طلبِ فعل ہو گی کس سے؟ أَو عَنِ الْفاعِلُ الْمُتَکَلِّمِ، یعنی کیا کہ جو بول رہا ہے، ممکن ہے وہ اپنے آپ سے چاہ رہا ہو کہ مجھ سے یہ کام کرنا چاہیے، تو وہ کہے گا: لِأَضْرِبْ، چاہیے کہ میں ماروں۔ یا اگر جمع ہے، تو کہے گا: لِنَضْرِبْ، چاہیے کہ ہم ماریں۔

أَوْ عَنِ الْمَفْعُولُ الْغَائِبِ، یا وہ فعل طلب کیا جائے گا کسی مفعولِ غائب سے، کہ مفعول ایسا جو وہاں موجود نہ ہو، اس پر یہ کام ہو، جیسے: لِيُضْرَبْ، چاہیے کہ وہ مارا جائے۔ یعنی اس پر مارنے کا حملہ انجام دیا جائے۔

أَوْ عَنِ الْمَفْعُولُ الْمُخَاطَبِ، یا مفعولِ مخاطب سے، جو سامنے کھڑا ہے، اس کے بارے میں طلب کرنا کہ اس پر اس فعل کو انجام دیا جائے، مثلاً کہا جائے گا: لِتُضْرَبْ، چاہیے کہ تُو مارا جائے۔

أَوْ عَنِ الْمَفْعُولُ الْمُتَکَلِّمِ، یا مفعولِ متکلم سے، یعنی کیا اپنے بارے میں طلبِ فعل ہو کہ میرے ساتھ یہ کام ہو، جیسے: لِأُضْرَبْ، چاہیے کہ میں مارا جاؤں۔ لِنُضْرَبْ، چاہیے کہ ہم مارے جائیں۔

اب لامِ امر کس کے لیے آتی ہے؟یہ آتی ہے فعل کو طلب کرنا، یا فاعلِ غائب سے، فاعلِ مخاطب سے، مفعول سے۔

4

فعل مضارع کو جزم دینے والے حروف: نھی کی "لا"

 حروفِ جازمہ میں ایک ہے لَا، لامِ امر یعنی لام کے ذریعے طلب کیا جاتا ہے، اور لَا کے ذریعے نہی کی جاتی ہے۔ یعنی کیا مطلب؟ وهي ضدّ لامِ الأمر ، لَا نھی لام امر کی ضد ہے لامِ أَمْر کا کام کیا تھا؟ طَلَبُ الْفِعْلِ۔ اور لَا کا کام کیا ہو گا؟ طَلَبُ تَرْکِ الْفِعْلِ، یعنی طَلَبُ الْفِعْلِ اور یہ ہو جائے گا طَلَبُ تَرْکِ الْفِعْلِ، یعنی کسی سے کسی فعل کے نہ کرنے کو طلب کرنا۔

اب پھر وہی بات آئے گی: إِمَّا عَنِ الْفَاعِلُ الْغَائِبِ، یا تو وہ ترکِ فعل طلب کیا جائے گا کسی فاعلِ غائب سے، جیسے کہا جائے گا: لَا یَضْرِبْ، وہ نہ مارے۔ یا فاعلِ مخاطب سے، جیسے: لَا تَضْرِبْ، تو نہ مار۔ أَوِ الْمُتَکَلِّمِ، یا فاعلِ متکلم، جیسے: لَا أَضْرِبْ، میں نہ ماروں۔ یا لَا نَضْرِبْ، ہم نہ ماریں۔ یہ آسان ہو گیا۔

  •  
5

فعل مضارع کو جزم دینے والے حروف: "إنْ"

اِن حروفِ جازمہ سے باقی رہ گیا ایک، وہ کیا تھا؟وہ تھا إِنْ۔ 

میں نے جیسے پہلے گذارش کی ہے، وَهِيَ تَدخُلُ عَلَى الجُملَتَينِ  ، یہ إِنْ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے۔ وَالْجُمْلَۃُ الْأُولَىٰ تَکُونُ فِعْلِیَّۃً، پہلا جملہ تو ہو گا جملہِ فِعْلِیَّہ۔ وَالْجُمْلَۃُ الثَّانِیَۃُ، اور جو دوسرا ہے، قَدْ تَکُونُ فِعْلِیَّۃً، کبھی وہ فِعْلِیَّہ ہوتا ہے۔ وَقَدْ تَکُونُ اسْمِیَّۃً، اور کبھی اسْمِیَّہ ہوتا ہے۔

اب تھوڑی سی بات آپ کو سمجھا لیں تاکہ آسان ہو۔ اگر آپ نے نحو  میر پڑھ لی ہے تو بالکل آسان ہے۔ نہیں پڑھی تو سمجھیں ؟ یہ جو جملے ہوتے ہیں، جملے کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک کو کہا جاتا ہے جملہِ اسْمِیَّہ، اور ایک کو کہا جاتا ہے جملہِ فِعْلِیَّہ۔ جملہ کیا ہوتا ہے؟ بالکل آسان اردو میں سمجھاتا ہوں۔ یعنی ایک شے کی دوسری شے کی طرف نسبت دینا۔ جس کی طرف نسبت دیں گے، اس کو کہتے ہیں مُسْنَدٌ إِلَیْہِ، اور جو نسبت دیں گے، اس کو کہتے ہیں مُسْنَدٌ۔

اب یہ جو جملہ ہے، اگر اس میں پہلا حصہ اسم ہے اور دوسرا فعل ہے، یعنی اگر پہلی جو اس کی اسم ہو، وہ بن جائے گا جملہِ اسْمِیَّہ۔ جیسے ہم کہتے ہیں: زَیْدٌ قَائِمٌ، زَیْدٌ  مبتداء اسم ہے  اس میں قَائِمٌ اس کی خبر ہے۔ زَیْدٌ کو کہتے ہیں کہ یہ مُسْنَدٌ إِلَیْہِ ہے، اور قَائِمٌ مُسْنَدٌ ہے۔

لیکن اگر جملہ کی پہلی جو فعل ہو، جیسے: ضَرَبَ زَیْدٌ، اس کو کہتے ہیں جملہِ فِعْلِیَّہ۔ ضَرَبَ فعل ہے، اور زَیْدٌ اس کا فَاعِل ہے۔ ضَرَبَ، مُسْنَدٌ ہے، اور زَیْدٌ، مُسْنَدٌ إِلَیْہِ ہے۔اسم مسند بھی بن سکتا ہے اور مسند الیہ بھی بن سکتا ہے اور فعل فقط مسند ہوتا ہے مسند الیہ نہیں بن سکتا

فرماتے ہیں: إِنْ، وَهِيَ تَدخُلُ عَلَى الجُملَتَينِ  یہ إِنْ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے۔وَالْجُمْلَۃُ الْأُولَىٰ، جو پہلا جملہ ہوتا ہے، وہ جس کو ہم شرط کہیں گے، تَکُونُ فِعْلِیَّۃً، وہ تو ہو گا فِعْلِیَّہ۔ کیوں؟ کیونکہ إِنْ فعل پر داخل ہوتا ہے، اور جس جملے کی پہلی جملہ فعل ہو گی، وہ ہو گا جملہِ فِعْلِیَّہ۔ وَالْجُمْلَۃُ الثَّانِیَۃُ، اور جو دوسرا جملہ ہو گا، جو جزا ہو گا، وہ جزا قَدْ تَکُونُ فِعْلِیَّۃً، کبھی وہ فِعْلِیَّہ ہوتا ہے۔ وَقَدْ تَکُونُ اسْمِیَّۃً، اور کبھی اسْمِیَّہ ہوتا ہے۔ وَتُسَمَّی الْأُولَىٰ شَرْطًا، پہلے جملے کو شرط کہتے ہیں۔ وَالثَّانِیَۃُ جَزَاءً، اور دوسرے کو جزا کہتے ہیں۔ ٹھیک ہو گیا؟ ختم۔

اب فرماتے ہیں کہ یہ إِنْ جو دو جملوں پر داخل ہوا، پہلا جملہ شرط بن گیا، دوسرا جملہ جزا بن گیا۔ یہ تو ہو گئی بات مکمل۔اب فرماتے ہیں: فَإِنْ کَانَ الشَّرْطُ وَالْجَزَاءُ فِعْلِیَّیْنِ، شرط اور جزا دونوں فِعْلِیَّہ ہوں۔ أَوِ الشَرْطُ وَحْدَہُ، ہو سکتا ہے فقط شرط فِعْلِیَّہ ہو۔ تو اب یہ بھی تو دیکھنا ہو گا ناکہ وہ جو فِعْلِیَّہ ہے ہونے فعلِ مضارع، اب فرماتے ہیں: ذَرَا غَوْر!اگر جملہ شرطیہ اور جملہ جزائیہ، یعنی پہلا جملہ اور دوسرا جملہ (شرط اور جزا)، دونوں فعلِ مضارع ہوں، یا فقط پہلا جملہ (جملہ شرط) فعلِ مضارع ہو، تو اس کو إِنْ جازم دیتا ہے عَلَىٰ سَبِيلِ الْوُجُوبِ، بطورِ وجوب۔ یعنی کہ ہر حال میں اس فعلِ مضارع پر جزم پڑنا واجب ہے اس إِنْ کی وجہ سے۔

  1. اگر جملہ شرط اور جملہ جزا دونوں فعلِ مضارع ہوں گے، تو اس پر جزم پڑنا واجب ہے اس إِنْ کی وجہ سے۔

  2. اگر فقط جملہ شرط فعلِ مضارع ہو، تو بھی اس پر جزم پڑنا واجب ہے اس إِنْ کی وجہ سے۔

مثال:

  • إِنْ تَضْرِبْ أَضْرِبْ ، یہ جملہ شرط ہے: تَضْرِبْ (فعل) اور أَضْرِبْ یہ جملہ جزا ہے: أَضْرِبْ (فعل)۔ دونوں جملے فِعْلِیَّہ ہیں۔

  • وَإِنْ تَضْرِبْ ضَرَبْتُ، یہاں تَضْرِبْ فعلِ مضارع ہے، اور ضَرَبْتُ فعلِ ماضی ہے۔ لیکن چونکہ پہلا جملہ فعلِ مضارع ہے، لہٰذا إِنْ تَضْرِبْ پر جزم پڑنا واجب ہے۔

  • وَإِنْ تَضْرِبْ فَزَیْدٌ ضَارِبٌ یہاں تَضْرِبْ فعلِ مضارع ہے، اور فَزَیْدٌ ضَارِبٌ جملہ اِسْمِیَّہ ہے۔ لیکن چونکہ پہلا جملہ شرط فعلِ مضارع ہے، اس لیے إِنْ تَضْرِبْ پڑنا واجب ہے۔

فرق:

  • إِنْ تَضْرِبْ ضَرَبْتُ میں تَضْرِبْ جملہ فِعْلِیَّہ ہے، اور ضَرَبْتُ بھی فِعْلِیَّہ ہے، لیکن اس میں فعلِ ماضی استعمال ہوا ہے، فعلِ مضارع نہیں۔

  • إِنْ تَضْرِبْ فَزَیْدٌ ضَارِبٌ میں تَضْرِبْ جملہ فِعْلِیَّہ ہے (شرط ہے)، لیکن فَزَیْدٌ ضَارِبٌ جملہ اِسْمِیَّہ ہے۔ لیکن چونکہ پہلا جملہ شرط فعلِ مضارع ہے، اس لیے إِنْ تَضْرِبْ پر جازم پڑنا واجب ہے۔

وَإِنْ كَانَ الْجَزَاءُ وَحْدَهُ فِعْلًا مُضَارِعًا:لیکن اگر جملہ شرط میں فعلِ مضارع نہ ہو، بلکہ جملہ ثانی یا جملہ جزا میں فعلِ مضارع کا استعمال کیا ہو، تو پھر اس پر إِنْ جازم دے گا، لیکن عَلَىٰ سَبِيلِ الْجَوَازِ، بطورِ جَواز۔ یعنی پھر اس پر جازم پڑنا جائز ہے، واجب نہیں۔

مثال:

  • إِنْ ضَرَبْتُ أَضْرِبْ، یہاں ضَرَبْتُ فعلِ ماضی ہے، پس جملہ شرط فعلِ مضارع نہیں ہے۔ جبکہ أَضْرِبْ فعلِ مضارع ہے۔ پس إِنْ ضَرَبْتُ کے بعد أَضْرِبْ پر جزم پڑنا واجب نہیں، جائز ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ پہلا جملہ شرط فعلِ مضارع نہیں ہے۔

«إذن تدخلَ الجنّة» في جوابِ من قال: «أسلمتُ».

النوع السادس

حروف تجزِم الفعل المضارع، وهي خمسة أحرف:

«لَمْ» و «لَمَّا» و «لاَمُ الأمْرِ» و«لاَ النَهْيِ» و«إِنْ» للشرط والجزاء؛ فـ «لم» تجعل المضارع ماضياً منفياً، مثل: «لم يضرب» بمعنى «ما ضرب»، و«لَمّا» مثل «لم»، لكنّها مختصّة بالاستغراق، مثل: «لَمّا يضربْ زيد» أي: ما ضرب زيد في شيء من الأزمنة الماضية، و«لاَمُ الأَمْرِ» وهي لطلب الفعل إمّا عن الفاعل الغائب، مثل: «لِيضربْ»، أو عن الفاعل المتكلّم، مثل: «لِأضربْ»، و«لِنضربْ»، أو عن المفعول الغائب، مثل: «لِيُضربْ»، أو عن المفعول المخاطَب، مثل: «لِتُضربْ»، أو عن المفعول المتكلّم، مثل: «لِأُضربْ»، و«لِنُضربْ»، و«لاَ النهْيِ» وهي ضدّ لامِ الأمر، أي: لطلب ترك الفعل إمّا عن الفاعل الغائب، أو المخاطَب، أو المتكلّم، مثل: «لا يَضربْ»، و«لا تضربْ»، و«لا أَضربْ»، و«لا نَضربْ»، و«إنْ» وهي تدخل على الجملتين، والجملة الأولى تكون فعليّة، والثانية قد تكون

فعليّة، وقد تكون اسميّة، وتسمّى الأولى شرطاً والثانية جزاءً؛ فإن كان الشرط والجزاء، أو الشرط وحدَه فعلاً مضارعاً فتجزمه «إنْ» على سبيل الوجوب، مثل: «إن تضربْ أضربْ»، و «إن تضربْ ضربتُ»، و«إن تضربْ فزيد ضارب»، وإن كان الجزاء وحده فعلاً مضارعاً فتجزمه على سبيل الجواز، نحو: «إن ضربتُ أضربْ».

النوع السابع

أسماءُ تجزم الفعل المضارع حال كونها مشتملة على معنى «إن»، وتدخل على الفعلين، ويكون الفعل الأوّل سبباً للفعل الثاني، ويسمّى الأوّل شرطاً، والثاني جزاء؛ فإن كـــان الفعلان مضارعين، أو كان الأوّل مضارعاً دون الثاني، فالجزم واجب في المضارع، وهي تسعة أسماء: «مَنْ» و«مَا» و«أَيٌّ» و «مَتَى» و «أَيْنَمَا» و «أَنَّى» و «مَهْمَا» و«حَيْثُمَا» و«إِذْمَا»؛ فـ«مَنْ» وهو لا يستعمل إلّا في ذوي العقول، نحو: «من يكرمني أكرمه» أي: إن يكرمني زيد أكرمه، وإن يكرمني عمرو أكرمه، و «مَا» وهو لا يستعمل إلّا في غير ذوي العقول