درس شرح مائة عامل

درس نمبر 12: فعل مضارع کو نصب دینے والے حروف

 
1

خطبہ

2

فعل مضارع کو نصب دینے والے حروف: "ان"

آج ہم پانچویں نوع کا آغاز کر رہے ہیں، جو "النوع الخامِسُ حُرُوفٌ تَنْصِبُ الْفِعْلَ الْمُضَارِعَ" کے بارے میں ہے۔ یہ چار حروف ہیں جو فعلِ مضارع کو نصب دیتے ہیں۔ چار انواع جو پہلی گزری ہیں ہم نے پہلے ان عوامل کی بات کی ہے جو اسم پر داخل ہوتے تھے اور اسم میں عمل کرتے تھے ، جیسے حروفِ جارہ، حروفِ مشبہ بالفعل، ما اور لا لیس کے مشابہ ، اور دیگر عوامل جو اسماء میں عمل کرتے تھے ۔  پانچویں نوع ان حروف کے بارے میں ہے جو افعال میں عمل کرتے ہیں اب ہم ان عوامل کے بارے میں بات کریں گے جو افعال میں عمل کرتے ہیں۔ ان کا کام اسماء میں عمل کرنا نہیں، بلکہ افعال میں عمل کرنا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ آج ہم ان حروف کے بارے میں بات کریں گے جو فعلِ مضارع کو نصب دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حروف افعال میں عمل کرتے ہیں، اسماء میں نہیں۔

عمل کیا کرتے ہیں ؟ یہ حروف فعلِ مضارع کو نصب دیتے ہیں۔ ان شاءاللہ، جب ہم مثالیں دیکھیں گے تو واضح ہو جائے گا کہ فعلِ مضارع کیا ہوتا ہے۔ ہم نے اسے صرف میر میں بار بار پڑھا ہے۔ فعلِ مضارع کی مثالیں ہیں: "یضرب "، "ینصر"، "یعلم"، "یشر ف"۔ لیکن یہ حروف جو ہم پڑھ رہے ہیں جو چار ہیں، ان کی تفصیل ہم پڑھیں گے۔ ان کا عمل یہ ہے کہ یہ فعلِ مضارع کے آخر کو نصب دیتے ہیں۔ یعنی اگر "یضربُ" ہے تو جب ان میں سے کوئی حرف آئے گا تو ہم "یضربَ" پڑھیں گے۔ اسی طرح "ینصرُ" کو "ینصرَ" پڑھیں گے۔

یہ چار حروف ہیں: "ان"، "لن"، "کی"، "اذن"۔ یہ چار حروف فعلِ مضارع پر داخل ہو کر اس کے آخر کو نصب دیتے ہیں۔ ان کا عمل تو واضح ہو گیا، لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ حروف کوئی خاص معنی بھی دیتے ہیں؟ کیا ان کے آنے سے معنی پر فرق پڑتا ہے، یا صرف نصب دینا ہی ان کا کام ہے؟

افعال میں فعلِ ماضی، فعلِ مضارع، اور فعلِ امر شامل ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ حروف کس پر داخل ہوتے ہیں اور معنی کے لحاظ سے کیا فرق پڑتا ہے۔

اب ہم "اَن" سے شروع کرتے ہیں۔ "اَن" استقبال کا معنی دیتا ہے، یعنی مستقبل کے لیے۔ چاہے یہ فعلِ ماضی پر داخل ہو یا فعلِ مضارع پر، یہ استقبال کا معنی ہی دے گا۔ اگر "اَن" فعلِ مضارع پر داخل ہو تو یہ حال اور استقبال دونوں معنی دے گا۔ لیکن اگر یہ فعلِ ماضی پر داخل ہو تو بھی یہ استقبال کا معنی دے گا۔

"اَن" کو "اَنِ مصدریہ" کہتے ہیں، کیونکہ جب یہ اَن فعلِ مضارع پر داخل ہوتا ہے تو اسے مصدر کی تاویل میں کر دیتا ہے۔ یعنی فعل، فعل نہیں رہتا، بلکہ مصدر کا معنی دیتا ہے۔ اس لیے اسے "اَنِ مصدریہ" کہتے ہیں۔

مثال کے طور پر:

"اَسلَمتُ اَن اَدخُلَ الَجنۃَ "

یہاں "ادخل" فعلِ مضارع ہے۔ جب "اَن" داخل ہوتا ہے تو "اَدخُلَ" بن جاتا ہے "ادخل"۔ "اَن" نے "ادخل" کی لام کو نصب دیا ہے، اور اس فعل کو مصدر کی تاویل میں کر دیا ہے۔ گویا اصل معنی یہ ہے کہ "اَسلمتُ لِدُخولِ الجنۃ "، یعنی میں نے اسلام قبول کیا تاکہ جنت میں داخل ہوں، یہاں "اَن" نے فعل کو مصدر کی تاویل میں کر دیا ہے، اور اس نے استقبال کا معنی بھی دیا ہے۔

اس طرح ہم نے دیکھا کہ یہ حروف افعال میں کیسے عمل کرتے ہیں اور ان کے معنی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ان شاءاللہ، آگے ہم مزید تفصیلات اور مثالیں دیکھیں گے

النوع الخامِسُ حُرُوفٌ پانچویں نوع ان حروف کے بارے میں ہے تَنْصِبُ الْفِعْلَ الْمُضَارِعَ  جو حروف فعل مضارع کو نصب دیتے ہیں اب یہاں ایک سطر آپ نے خود اضافہ کرنی ہے کہ پہلی چار انواع ان کے بارے میں تھیں جو اسم عمل کرتی تھیں اب شروع کر رہے ہیں ان کو کہ جو افعال میں عمل کرتی ہیں ۔

وهي أربعة أحرف یہ چار حروف ہیں ان و لن و کی و اذن اب فرماتے ہیں ایک تو ہو گیا ان کا عمل کہ یہ فعل مضارع پر داخل ہو کر اس کو نصب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں فان للاستقبال کس کے لیے استقبال کے لیے و ان داخلت علی الماضی چاہے یہ ماضی پر داخل بھی کیوں نہ ہو اب سمجھ آگئی، یعنی اگر یہ مضارع پر داخل ہو تو بھی استقبال کا معنی آیندہ کا معنی دے گا اور اگر یہ ماضی پر داخل ہو تو بھی یہ معنی استقبال کا دے گا اب مضارع کی مثال : اَسلمتُ لان ادخُلَ الجنۃ   ، اور اگر ماضی پر داخل ہو تو مثال یہ ہوگا : اَسلمتُ ان دخلتُ الجنۃ ، اب یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اَن استقبال کے لئے آتا ہے اب فرماتے ہیں بے شک یہ ماضی پر داخل ہو تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا فرماتے ہیں اس لیے کہ جب یہ اَن داخل ہو جائے گا وہ چاہے مضارع ہو چاہے ماضی یہ اس کو مصدر میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ان ، ان مصدریہ ہے جب معنی مصدر میں تبدیل ہو جائے گا پھر مصدر میں تبدیل ہونے کے بعد وہ چاہے ماضی ہو یا مضارع کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

و تسمیٰ ھذہ مصدریۃََ  اور اس اَن کو کہا جاتا ہےمصدریہ اب انہی مثالوں کو دوبارہ دیکھنے گا غور سے کہ مثال کونسی تھی مضارع پر داخل ہونے کی مثال یہی تھی اَسلمتُ لان ادخُلَ الجنۃ   ، یا ماضی کی مثال کیا تھی  اَسلمتُ ان دخلتُ الجنۃ ،اب اس اَن نے اس کو مصدر کی تاویل میں کر دیا تو گویا اصل میں جملہ پھر یوں بن جائے گا ، اَسلمتُ لِدُخولِ الجنۃ  ۔

اب یہاں پر ایک چھوٹی سی بات ہے ممکن ہے کوئی کہے کہ جناب ماضی تو ہوتا ہے گذرہ ہوا زمانہ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آتا ہے استقبال آنے والے زمانے کے لیے تو جب ماضی پر داخل ہوگا ماضی کا معنی ہے کہ یہ کام ہو چکا ہے اور یہ استقبال کے لیے آپ کہیں گے قرآن مجید میں بھی بہت ساری آیات ایسی ہیں کہ جو کام ابھی ہوا نہیں ہے مثال بڑی مشہور ہے قیامت کے بارے میں حتیٰ  اَتاک الیقین اب اَتیٰ  فعل ماضی ہے، ہر وہ کام جس کے ہونے کا یقین ہو اس کو ماضی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو یہ بھی اسی لحاظ سے ٹھیک ہو گیا خوب اتنا فیلحال آپ کیلئے کافی ہے اور باتیں اس میں زیادہ نہیں ۔

3

فعل مضارع کو نصب دینے والے حروف: "لن"

دوسرا حرف دوسرا حرف ہے لَن خوب یہ کس کیا معنی دیتا ہے اب ذرا غور کرنا لتأكيد نفی المستقبل ،  یہاں تین باتیں ہیں ذرا توجہ کرنا ، نمبر ایک (۱) : لن مستقبل کا معنی دیتا ہے مستقبل  ،استقبال کے لئے آتا ہے ۔
نمبر دو (۲) :  استقبال کی بھی نفی کے لئے کہ یہ کام آئندہ نہیں ہوگا ۔
نمبر تین (۳) :  اور صرف نفی بھی نہیں بلکہ اس نفی کی تأكيدکرتا ہے کہ ہرگز یہ کام نہیں ہوگا ۔

اب ذرا غور کریں یعنی جس فعل مضارع پر لن داخل ہوگا وہ کیا کہے گا ایک تو یہ بتا رہے ہوگا یہ کام  زمانہ آئندہ میں نہیں ہوگا یعنی استقبال کی نفی ،نہیں ہوگا اور صرف نفی بھی نہیں بلکہ اس نفی کی تأكيدکہ اصلاً کسی بھی صورت میں یہ نہیں ہوگا ۔

 قرآن مجید کی مشہور ہے سورہ عراف کی کہ جب خداوند متعال  نے  حضرت موسیٰ کو  کہا لَن تَرَانِی ،  لن ترانی تو ہرگز مجھے نہیں دیکھے گا مستقبل کی نفی بھی ہے اور نفی بھی تاکید کے ساتھ کے ہرگز ہے یعنی ایسا ہوئی نہیں سکتا ک تو ہ مجھے دیکھ لے گا ٹھیک ہو گیا ۔

 فرماتے ہیں  انْ حرُوفِ نَاصبَہ میں سے دوسرا  ہے لَن ،  ایک تو یہ فعل مضارع کو نصب دیتا ہے اور کیا کرتا ہے فرماتے ہیں

 لِتَاکیدِ نَفِیِ الْمُسْتَقْبِلِ مستقبل کی نفی کی تاکید کرتا ہے یعنی گویا یہ استقبال کی نفی بھی کرتا ہے اور صرف نفی نہیں بلکہ اس نفی کی تاکید بھی جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں یہ کام نہیں کرنا اب یہ نفی ہو گئی ،  نھی ہو گئی اور ایک ہوتی یہ کام ہرگز نہیں کرنا یہ ہرگز اردو میں تاکید کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ بھی وہی کام کرتا ہے مثل : لَن تَرَانِي جیسے قرآنِ مجید کی آیت ہے خداوند  متعال نے فرمایا لَن تَرَانِي اب اس کا معنی یہ نہیں کرنا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکے گا بلکہ لَن تَرَانِي تُو ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکے گا ٹھیک فرماتے ہیں وَأَصلُھا اچھا یہ کیا ہے جی یہ جو حرفِ لن ہے اس کے بارے میں خلیل بن احمد ،  یہ نحوی ہے بہت بڑا علماءِ علم نحو میں اس کا نام ہے وہ کہتا ہے کہ لَن اصل میں لا ،اِن تھا لا اِن ٹھیک اچھا پھر لا اِن میں جو اِن کا ھمزہ ہے اس کو تخفیف کے لیے حذف کیا گیا تو یہ بن گیا لان یعنی الف بھی ساکن اور نون بھی پھر التقاے ساکنین کی وجہ سے الف گر گئی تو یہ بن گیا لَن ٹھیک ہوگیا خوب ۔

وَأَصلُھا اس لن یعنی حرفِ لن اصل میں کیا تھا لا،اِن  ،اصل میں تھا لا،ان عَندَالْخَلیل خلیل بن احمد نحوی کے نزدیک اس کا نام پورا ہے خلیل بن احمد ، خلیل بن احمد نحوی کے نزدیک یہ اصل میں لا،اِن تھا فَحُذِ فَتِ الھَمزَةُ اِن کے ھمزہ کو حذف کیا گیا تخفیفاً لفظ کو کلمہ کو چھوٹا کرنے کے لئے تخفیف کے لئے تو فَسَارَت جب ھمزہ نکل گیا ، حذف ہو گیا تو یہ بن گیا لَان ، اِن کا ھمزہ ہٹا ہے نا اِن کی نون تو کھڑی ہے اب الف بھی ساکن اور نون بھی ساکن ثُمَّ حُذِفَتِ الاَلِفُ بعد میں الف کو بھی حذف کر دیا گیا کیوں؟ لالتقاءِ الساکنین چونکہ الف کے ساتھ نون بھی ساکن تھی چونکہ دو ساکن ہی اکٹھے ہو گئے تھے الف کو حذف کر دیا فَبَقِيَت اور باقی رہ گیا لَن ٹھیک ہو گیا۔

4

فعل مضارع کو نصب دینے والے حروف: "کَی" اور "اِذَن"

 ان حروفِ نَاصِبَہ فَعِلِ مضارع میں سے تیسرہے کَی ، کَیْ عمل میں تو باقیوں کی طرح ہے یعنی فعلِ مضارع کو نصب دیتا ہے پر معنی کیا دیتا ہے؟ فرماتے ہیں کی سببیت بیان کرتا ہے کیا مطلب؟ یعنی کَیْ  یہ  بیان کرتا ہے کہ میرا ما قبل میرے ماںبعد کے لیے سبب بنا ہے کہ اگر یہ میرا ما قبل نہ ہوتا تو میرا ما بعد بھی نہ ہوتا سببیت سے یہ مراد ہوتی ہے جیسے اَسْلَمْتُ کَیْ اَدْخُلَ الْجَنَّۃَ اب کیا بتا رہا ہے کہ اَسْلَمْتُ میرا اسلام لانا سبب بنا ہے کس کے لیے؟ جنت میں داخل ہونے کے لیے اگر میں اسلام نہ لاتا تو جنت میں بھی داخل نہ ہوتا بالکل آسان ۔

 فرماتے ہیں وَکَیْ حروفِ ناصبہ میں سے ایک ہے کَیْ،  کَیْ فعل مضارع کو نصب دیتا ہے معنی کیا دیتا ہے لِلسَبَبِیَّۃِ  ، کَیْ آتا ہے سببیَّت کے لیے کیا مطلب؟ مطلب آگے خود انہوں نے وضاحت کر دی فرماتے ہیں اَئ ، اَئ کا مطلب یہ ہے  یہ حرفِ تفسیر ہوتا ہے یعنی سببیَّت کی وضاحت کر رہا ہے سببیَّت کا مطلب کیا ہے یعنی يكون ما قبلها سبباً لما بعدها ،  کَیْ یہ بیان کرتا ہے کہ کَیْ کا مَا قَبْل سببًا سبب ہے لِمَا بَعْدَھا، کَیْ کے مَا بَعْد کے لیے جیسے اَسْلَمْتُ میں اِسْلَامْ لَایَا  کَیْ اَدْخُلَ الْجَنَّۃَ ،  تاکہ جنت میں داخل ہوں اب کَی یہ بتا رہا ہے کہ اَسْلَمْتُ (میں اسلام لایا ) یعنی یہ اسلام لانا سبب ہے دخولِ جنت کے لیے پس فَإِنَّ الْاِسْلَامَ سَبَبٌ لِدُخُولِ الْجَنَّة پس اسلام سبب ہے دخولِ جنت کے لیے لیکن اس سببیَّت کو کس نے بیان کیا یہ ایسی کَیْ  نے واضح کیا ۔ 

 حروفِ ناصبہ میں سے چوتھا اور آخری ہے اِذَن ،  خوب اِذَن کیا کرتا ہے فرماتے ہیں اذن فعل مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے باقی تین دیتے ہیں اور فرماتے ہیں اِذَن کسی سوال کے جواب یا شرط کی جزا میں واقع ہوتا ہے یعنی اگر کوئی سوال کرے تو جواب میں یہ آتا ہے یا کوئی شرط ہو اس کے جزا میں یہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ فقط فعل مستقبل پر داخل ہوتا ہے اور زمانہ مستقبل میں متحقق ہوتا ہے یعنی ماضی میں نہ یہ داخل ہوتا ہے نہ یہ اس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

 دو سطر یاد رکھنا کہ: ایک : اِذَن فقط فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے یہ ایک بات ہو گئی ، نمبر دو : اور یہ اذن کا معنی فقط زمانہ مستقبل میں متحقق  ہوتا ہے ماضی میں اس کا معنی ہوتا ہی نہیں ۔ یہ تو شرط کی جزا ہوتا ہے یہ سوال کا جواب آگے مثال لیں گے واضح ہو جائے گا ۔

اذن حروف ناصبہ میں سے چوتھا ہے اذن اچھا اذن کیا کرتا ہے فعل مضارع کو نصب دیتا ہے اور لِلجَوابِ وَالجَزَا ، اذن یہ آتا ہے جواب اور جزا کے لئے یعنی اگر کوئی بات کرتا ہے تو کسی کے جواب دینا ہو تو جواب میں اذن آتا ہے یا کوئی شرط ہو تو اس کی جزا میں ، اب اس کی وجہ سے اس میں دو خصوصیات ہیں ۔

 نمبر ایک : وَهُوَ لَا يَتَحَقَّقُ إِلَّا فِي زَمَانِ الْمُسْتَقْبَلِ، یعنی یہ اذن زمانے مستقبل کے علاوہ کہیں اور متحقق نہیں ہوتا یعنی کسی اور میں اس کا معنی نہیں بنتا فقط زمانے مستقبل ۔

 نمبر دو: فَھِیَ لَا تَدْخُلُ اِلَّا عَلَى الْفِيْلِ الْمُسْتَقْبِلِ،  اور یہ اذن   داخل نہیں ہوتا مگر فعلِ مستقبل پر یعنی کیا کہیں گے کہ اذن فقط فعلِ مضارع پر داخل ہوتا ہے ماضی پر داخل نہیں ہوتا اچھا ۔
وَهُوَ لَا يَتَحَقَّق اب تھوڑا سا اس میں ضمیر میں مسئلہ ہے کہ ُھوَ سے مراد کیا ہے ،  ھِی سے مراد تو آگیا اذن اب یہاں پر فرماتے ہیں ُھوَ سے مراد کیا ہے کہ اذن چونکہ آتا ہے جواب اور جزا کے لیے،  ُھوَ اب آپ اس میں تھوڑی سی غور کریں گے تو آپ کہیں گے کہ ُھوَ سے مراد ہے یہ نہیں یہ جواب اور جزا والا عمل ُھوَ  کا مرجع ہوگا عمل کہ اذن جو جواب اور جزا کے لیے آتا ہے ُھوَ  یہ عمل یعنی یہ کام یہ معنی جواب اور جزا والا ہے لَا يَتَحَقَّق یہ سوائے زمانے مستقبل کے متحقق یہ جواب اور جزا یعنی زمانے مستقبل میں ہوتا ہے ماضی میں نہیں ہوتا اس لیے آپ کو متوجہ کر رہا ہوں کہ ُھوَ اور ھِیَ میں فرق کہ اگر سوال ہو کہ ُھوَ  لَا یَتَحَقَّق،  ُھوَ کی ضمیر مذکر کس کے لیے یہ کس طرف جارہی ہے تو آپ کہیں گے ُھوَ سے مراد ہے یعنی اذن کا یہ کام یہ معنی جو جواب اور جزا کے لیے یہ عمل لَا يَتَحَقَّق اِلَّا فِي الزَّمَانِ الْمُسْتَقْبِلِ فَھِیَ اس ہے یا اسے مراد خود اذن ہے پس یہ اذن داخل نہیں ہوتا مگر فعلِ مستقبل پر مثال : اِذَن تَدْخُلَ الْجَنَّةَ فِی جَوَابِ مَنْ قَالَ اَسْلَمْتُ ایک شخص کہتا ہے اَسْلَمْتُ میں اسلام لیا جو ں ہی وہ کہتا ہے اَسْلَمْتُ میں اسلام لیا اس کے جواب میں آپ کہیں گے اِذَن تَدْخُلَ الْجَنَّةَ ،  پَس تُو جَنَّة میں داخل ہو جائے گا اب اذن تَدْخُلَ فعل مضارع پر داخل ہوا ہے لام کو نصب بھی دیا ہے اور زمانِ مستقبل کی بات ہے اس نے کہا میں اسلام لیا آپ نے کہا اذن تَدْخُلَ الْجَنَّةَ پس تُو جَنَّة میں داخل ہو گا تو یہاں پر الحمدللہ یہ حروفِ ناصبہ کی بحث مکمل ہوگئی ۔

و «الهمزة المفتوحة»، وهما لنداء القريب، وهذه الحروف الخمسة تنصب الاسم إذا كان مضافاً إلى اسم آخر، نحو: «يا عبدَ الله»، و «أيا غلامَ زيد» و «هيا شريفَ القوم»، و«أي أفضلَ القوم»، و «أعبدَ الله»، وترفع الاسم إنْ لم يكن ذلك الاسم مضافاً، مثل: «يا زيدُ»، و«يا رجلُ».

النوع الخامس

حروف تنصب الفعل المضارع، وهي أربعة أحرف: «أنْ» و «لَنْ» و «كَيْ» و«إِذَنْ»؛ فـ «أنْ» للاستقبال وإن دخلت على الماضي، نحو: «أسلمت أن أدخلَ الجنّة وأن دخلت الجنّة»، وتسمّى هذه مصدريّة، و«لن» لتأكيد نفيْ المستقبل، مثل: ﴿لَن تَرَانِي [الأعراف: ١٤٣]، وأصلها «لاَ إِنْ» عند الخليل؛ فحذفت الهمزة تخفيفاً، فصارت «لاَنْ» ثم حذفت الألف لالتقاء الساكنين، فبقيت «لَنْ»، و«كي» للسببيّة، أي: يكون ما قبلها سبباً لما بعدها، مثل: «أسلمت كَي أدخلَ الجنّة»؛ فإنّ الإسلام سبب لدخول الجنّة، و«إذن» للجواب والجزاء، وهو لا يتحقّق إلّا في الزمان المستقبل؛ فهي لا تدخل إلّا على الفعل المستقبل، مثل:

«إذن تدخلَ الجنّة» في جوابِ من قال: «أسلمتُ».

النوع السادس

حروف تجزِم الفعل المضارع، وهي خمسة أحرف:

«لَمْ» و «لَمَّا» و «لاَمُ الأمْرِ» و«لاَ النَهْيِ» و«إِنْ» للشرط والجزاء؛ فـ «لم» تجعل المضارع ماضياً منفياً، مثل: «لم يضرب» بمعنى «ما ضرب»، و«لَمّا» مثل «لم»، لكنّها مختصّة بالاستغراق، مثل: «لَمّا يضربْ زيد» أي: ما ضرب زيد في شيء من الأزمنة الماضية، و«لاَمُ الأَمْرِ» وهي لطلب الفعل إمّا عن الفاعل الغائب، مثل: «لِيضربْ»، أو عن الفاعل المتكلّم، مثل: «لِأضربْ»، و«لِنضربْ»، أو عن المفعول الغائب، مثل: «لِيُضربْ»، أو عن المفعول المخاطَب، مثل: «لِتُضربْ»، أو عن المفعول المتكلّم، مثل: «لِأُضربْ»، و«لِنُضربْ»، و«لاَ النهْيِ» وهي ضدّ لامِ الأمر، أي: لطلب ترك الفعل إمّا عن الفاعل الغائب، أو المخاطَب، أو المتكلّم، مثل: «لا يَضربْ»، و«لا تضربْ»، و«لا أَضربْ»، و«لا نَضربْ»، و«إنْ» وهي تدخل على الجملتين، والجملة الأولى تكون فعليّة، والثانية قد تكون