درس شرح مائة عامل

درس نمبر 11: ما و لا مشبھتان بلیس / اسم کو فقط نصب دینے والے حروف کے بارے

 
1

خطبہ

2

تیسری نوع: ما و لا مشبھتان بلیس

النوع الثالث : ما و لا مشبھتان بلیس فی النفی و الدخول علی المبتدا و الخبر 

 بحث ہو رہی ہےہماری عَواَمِل لفظیہ میں تیسرے نمبر پر جن عواَمِل کا ذکر کیا گیا ہے، وہ "ما" اور "لا" ہیں۔ یہ "ما" اور "لا" جو "لیس" کے مشابہ ہیں، ان شاءاللہ آگے ہم افعال ناقصہ کی ایک فصل پڑہیں گے۔ ان افعال ناقصہ میں سے ایک "لیس" آتا ہے۔ یہ "ما" اور "لا" جو اس افعال ناقصہ میں موجود "لیس" کے مشابہ ہیں، کس بات میں مشابہ ہیں؟ فرماتے ہیں کہ 

"لیس" بھی نفی کے لیے آتا ہے، اور یہ "ما" اور "لا" بھی نفی کے لیے آتے ہیں۔

 نمبر دو، وہ "لیس" بھی مبتدا اور خبر پر داخل ہوتا ہے، اور یہ "ما" اور "لا" بھی مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں۔

یہ "ما" اور "لا" عمل کیا کرتے ہیں؟ فرماتے ہیں کہ یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ پچھلی فصل میں جو ہم نے حروف مشابہ بالفعل پڑہے تھے، وہ اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے تھے۔ یہ "ما" اور "لا" اُلٹ آ جائیں گے، یعنی یہ اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ ٹھیک ہو گیا؟

"ما" اور "لا" یہ دو حرف کیوں ہیں جب کام ایک جیسا کرتے ہیں؟ فرماتے ہیں کہ کام کرنے میں، داخل ہونے میں، اور عمل میں فرق نہیں ہے، لیکن ان کا فرق ان کے مدخول کے لحاظ سے ہے۔ وہ کیسے؟ جو "ما" ہے، وہ معرفہ پر بھی داخل ہوتی ہے اور نکرہ پر بھی، لیکن "لا" فقط نکرہ پر داخل ہوتا ہے۔ یعنی "ما" اور "لا" کے درمیان آپس میں ایک فرق یہی ہے۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ "ما" اور "لا" جو مشابہ ہوتے ہیں "بلیس"، ان کے اپنے درمیان کوئی فرق ہے؟ تو آپ جواب میں کہیں گے کہ عمل میں تو فرق کوئی نہیں ہے، عمل تو دونوں ایک جیسا کرتے ہیں، البتہ اس لحاظ سے فرق ہے کہ "ما" معرفہ پر بھی داخل ہو سکتی ہے اور نکرہ بھی ، یعنی اس کا مدخول معرفہ اور نکرہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن جو "لا" ہے، وہ فقط نکرہ پر داخل ہوتا ہے، معرفہ پر داخل نہیں ہوتا۔

یہ اسم کی قسمیں ہیں، یہ اسم معرفہ بھی ہوتا ہے، اور یہ اسم نکرہ بھی ہوتا ہے۔ یہ سارے آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ 

النوع الثالث : ما و لا مشبھتان بلیس فی النفی و الدخول علی المبتدا و الخبر  تیسری نوع   وہ "ما" اور "لا" جو مشابہ ہوتے ہیں "لیس" کے، کس بات میں مشابہ ہوتے ہیں؟ فی النفی، ایک تو یہ مشابہ ہوتے ہیں معنی نفی میں، جیسے "لیس" نفی کے لیے آتا ہے، یہ بھی نفی کے لیے آتے ہیں۔ دوسرا، وَالدُّخُولِ عَلَى الْمُبْتَدَأِ وَالْخَبَرِ، اور جیسے "لیس" مبتدا اور خبر پر داخل ہوتا ہے، یہ "ما" اور "لا" بھی مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں۔ ٹھیک؟

اچھا، یہ تو ہو گئی مشابہ "بلیس" کے حوالے سے بات۔ عمل کیا کرتے ہیں؟ بالکل آسان

 تَرْفَعَانِ الاسْمَ، یہ "ما" اور "لا" دونوں اسم کو رفع دیتے ہیں، وَتَنْصِبَانِ الْخَبَرَ، اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ خوب، جو حروف مشابہ بالفعل کے علاوہ حروف مشابہ بالفعل اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے تھے، فرماتے ہیں کہ یہ "ما" اور "لا" جو مشابہ "بلیس" ہوتے ہیں، اس میں تو کوئی فرق نہیں کہ یہ دونوں عمل ایک جیسا کرتے ہیں، لیکن البتہ ایک فرق ہے، کونسا؟ وَتَّدْخُلُ مَا عَلَى الْمَعْرِفَةِ وَالنَّكْرَةِ، یہ جو "ما" ہے، یہ "ما" مشابہ "بلیس" معرفہ پر بھی داخل ہوتی ہے اور نکرہ پر بھی، یعنی کیا کہ اس "ما" کے بعد ممکن ہے کوئی اسمِ معرفہ موجود ہو، اور ممکن ہے کہ کوئی اسمِ نکرہ موجود ہو۔ جیسے کہتے ہیں: مَا زَيْدٌ قَائِمٌ، "ما" مشابہ "بلیس"، "زَيْدٌ" مرفوع اس کا اسم، اور "قَائِمٌ" اس کی خبر۔ ٹھیک ہے جی؟

وَلَا تَدْخُلُ لَا إِلَّا عَلَى النَّكْرَةِ، ہاں، ایک مثال شاید رہ گئی: مَا زَيْدٌ قَائِماََ، زید معرفہ پر "ما" داخل ہوئی، زید پر جو معرفہ ہے، مَا زَيْدٌ اس میں "قَائِماََ"۔ اور نکرہ کی مثال: مَا رَجُلٌ أَفْضَلَ مِنک، اب "رَجُلٌ" یہ نکرہ ہے، "ما" اس پر بھی داخل ہوئی ہے۔ وَلَا تَدْخُلُ لَا إِلَّا عَلَى النَّكْرَةِ، مَثَلًا نکرہ پر، یعنی "لا" کے بعد ہمیشہ نکرہ ہوتا ہے۔ جیسے لَا رَجُلٌ ظَرِيفاََ، پڑھتے ہیں لَا زَيْدٌ، پڑھتے ہیں لَا رَجُلٌ ظَرِيفاََ، یعنی لَا رَجُلٌ نفی ہو گیا، یعنی کوئی مرد  ظَرِيف (ظرافت پسند، خوش اخلاق) نہیں۔ یہ ہو گئی، بالکل آسان۔

3

چوتھی نوع: اسم کو فقط نصب دینے والے حروف کے بارے

چوتھی فصل: ان عَواَمِل میں جو چوتھی نوع ہے، وہ ہے ان حروف کے بارے میں کہ جو فقط اسم کو نصب دیتے ہیں۔ یعنی کیا مطلب "فقط"؟ یعنی یہ حروف اسم پر داخل ہوتے ہیں، فعل پر نہیں۔ نمبر دو، "فقط" یعنی یہ حروف اسم کو نصب دیتے ہیں، یعنی  إِذَا نَصَبْتَ بِھَاالاِسْمَ فَانتہ عن اعمال فِي غَيْرِهِ، کہ جب آپ ان کو نصب دے لیں کہ اسم کو، پھر مزید کوئی اور کام نہیں کرتے۔ آسان الفاظ میں، "فقط" کے دو معنی ہیں: ایک تو یہ کہ یہ اسم کو نصب دینے کے علاوہ کوئی اور عمل نہیں کرتے، نمبر دو، یہ صرف اسم پر داخل ہوتے ہیں، فعل وغیرہ پر نہیں۔

یہ حروف کتنے ہیں؟ سات، بالکل آسان: واو، إِلَّا، ھَا ، أَيا، هَيَا، أَيْ، اور ہمزہ مفتوحہ۔ یہ سات حروف ایسے ہیں جو اسم کو نصب دیتے ہیں فقط۔ وہ سات کون کون سے ہیں؟ یہ ہیں: واو، إِلَّا، ھَا ، أَيا، هَيَا، أَيْ، اور ہمزہ مفتوحہ۔ اب اس کے آگے تھوڑی سی تفصیل ہو گی، وہ تفصیل آگے یہ ہو گی کہ یہ جو حروف ان شاءاللہ آ رہے ہیں، یہ کس کس معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ پیچھے ہم بار بار یہ بات پڑہتے رہے ہیں کہ ایک ہوتا ہے ان کا عمل، کہ یہ حرکت کونسی دیتے ہیں اپنے بعد والے کو، اور ایک ہوتا ہے ان کا معنی، کہ یہ کس معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی اگر یہاں یہ حرف ہے، تو یہ معنی کونسا دے رہا ہے۔ اب ہر ایک کا ان شاءاللہ ہر حرف کا معنی بھی ساتھ پڑہیں گے۔

اَلنَّوْعُ الرَّابِعُ : چوتھی قسم ان حروف کے بارے میں ہے، تَنْصِبُ الْإِسْمَ، جو اسم کو نصب دیتے ہیں۔ فَقَط، فَقَط پہلے بھی کہا گیا ہے کہ فَا علیحدہ ہے  قَط ، یہ اسماءُ افعال میں سے ہیں، یعنی إِذَا نَصَبْتَ بِھَاالاِسْمَ فَانتہ عن اعمال فِي غَيْرِهِ۔ ٹھیک؟ فَقَط کا معنی ہم کیا کریں گے؟  نمبر1: ایک، یہ اسم کو نصب دیتے ہیں اور بس، اور کس چیز کو نہیں کرتے ہیں۔
نمبر 2: یہ اسم پر ہی داخل ہوتے ہیں، فعل وغیرہ پر نہیں۔

وَھِیَ سَبْعَةُ أَحْرُفٍ، یہ سات حروف ہیں، حرف کی جمع احرف۔ وَھِیَ سَبْعَةُ أَحْرُفٍ، کون کون سے؟ بالکل آسان: واو، إِلَّا، ھَا ، أَيا، هَيَا، أَيْ، اور ھمزہ مفتوحہ۔ سات ٹھیک ہو گئے۔ جی، یہ تو ہو گئے سات۔ اب ان کو یوں جاننا ہے۔ اب آگے ان کی تفصیل آتی ہے۔

الْوَاوُ ھِیَ بمعنی معَ: یہ واو بمعنی "مَعَ" کے بھی استعمال ہوتی ہے، جیسے مثال ہے: "اسْتَوَى الْمَاءُ وَالْخَشَبَةُ"، یعنی پانی برابر ہو گیا اور لکڑی کے ساتھ۔ یہاں جو واو ہے، وہ "مَعَ" کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔یہ مفعول مع کہلاتا ہے  ، واو یہ "بمعنی مع" کے ہے۔ 

اِلّا فرماتے ہیں، اِلّا  کا معنی کیا ہوتا ہے؟ اِلّا آتا ہے للاستثناء۔ استثناء کا معنی کیا ہے؟ یعنی اِلّا اپنے ما بعد کو ما قبل سے خارج کرتا ہے، کہ جو حکم میرے ما قبل کا ہے، پہلے بھی بتایاہے، وہ میرے بعد کا نہیں ہے۔ اِلّا کے بعد جو آتا ہے، اس کو مستثنیٰ کہتے ہیں۔ اِلّا سے پہلے جو ہوتا ہے، اس کو مستثنیٰ منہ کہتے ہیں۔ اِلّا کو حرف استثناء کہتے ہیں۔ اِلّا وھیَ، اور یہ ہے استثناء کے لیے۔ جیسے "جائَنِی القومُ إلا زيداً" (قوم آئی سوائے زید کے)۔ اِلّا نے ایک تو زید اسم کو نصب دیا، استثناء کا معنی دیا، یعنی ساری قوم آئی اور زید نہیں آیا۔

اگلے جو حروف ہیں، فرماتے ہیں، یہ آتے ہیں ندا۔ کسی کو بلانا، بلانے والے کو عربی میں کہتے ہیں "منادی"، جس کو بلایا جاتا ہے، اس کو کہا جاتا ہے "منادیٰ"، اور جس حرف کے ذریعے بلایا جاتا ہے، اس کو کہتے ہیں "حرف ندا"۔ اب منادیٰ ہو سکتا ہے بالکل قریب ہو، یا ہو سکتا ہے کہ بہت بعید ہو۔ تو عرب میں ہر ایک کے لیے مختلف حروف موجود ہیں۔ فرماتے ہیں: "یا" ھِیَ لنِدَاءِ الْقَرِیبِ وَالْبَعِیدِ"۔ نداءِ قریب و بعید کے لیے کیا معنی؟ منادیٰ جس کو بلا رہے ہیں، اگر وہ قریب کھڑا ہے، تو بھی آپ "یا" استعمال کر سکتے ہیں، اور اگر وہ بعید دور کھڑا ہے، تو بھی آپ "یا" کے ذریعے اس کو ندا دے سکتے ہیں۔

اَیا، "ھَیا"، "آیا"، اور "ھَیا" یہ بھی ندا کے لیے ہیں، لیکن  ہھُما لِنِدَاءِ الْبَعِیدِ۔ یہ ہیں نداءِ بعید، یعنی اگر منادیٰ دور کھڑا ہے، تو وہاں اس کو اگر آپ نے ندا دینی ہے، تو وہاں اس کے لیے "آیا" اور "ھَیا" استعمال کریں گے۔ یعنی قریب والے کے لیے "آیا" اور "ھیا" استعمال نہیں کر سکتے۔

 وَاَئ وَالْھَمْزَةُ الْمَفْتُوحَةُ، "اَئ " اور "ھَمْزَة مَفْتُوحَة" (اَ)، ایک ہو گیا "اَئ "، ایک ہو گیا "اَ"۔ ھُما لِنِدَاءِ الْقَرِیبِ، یہ ہیں نداءِ قریب کے لیے، یعنی "اَئ " اور "اَ"، اس کو آپ تب استعمال کریں گے کہ اگر نداءِ قریب ہے، مراد آپ کے قریب کھڑا ہے۔ اگر بعید ہے، تو پھر وہاں ان کو استعمال نہیں کریں گے۔ بس یہ ہو گئی۔

وهذه الْحُرُوفُ الْخَمْسَةُ : "یا"، "ایا"، "ھَیا"، "اَی"، اور "ھَمْزَة مَفْتُوحَة" (اَ)، یہ پانچ  ، تَنْصِبُ الْإِسْمَ إِذَا کَانَ مُضَافًا إِلَی اسْمٍ آخَرَ۔ ایک علمی نکتہ بیان کر رہے ہیں کہ اگرچہ ہم نے ابتدا میں تو کہا ہے کہ سات حروف ایسے ہیں جو اسم کو نصب دیتے ہیں، لیکن آخر میں کہہ رہے ہیں کہ ان سات میں سے یہ پانچ جو ندا کے لیے استعمال ہوتے ہیں، یہ ہمیشہ اسم کو نصب نہیں دیتے۔ یہ اسم کو نصب اس وقت دیتے ہیں، جب وہ اسم کسی اور اسم کی طرف مضاف ہو رہا ہو۔ اگر وہ اسم ان کا مدخول مضاف ہو کر استعمال نہ ہو رہا ہو، تو پھر یہ نصب نہیں دیتے۔ سات میں سے پانچ: "ایا"، "ھَیا"، "یا"، "اَئ"، اور "ھَمْزَة مَفْتُوحَة" (اَ)  اب اس سطر کو کاپی میں یوں لکھیں گے کہ ان سات حروف میں سے جو پانچ حروف ندا کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہ اسم کو نصب اس صورت میں دیں گے کہ اگر وہ اسم کسی اور اسم کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہو رہا ہو۔ جس کی مثال یہ ہم پڑھتے ہیں، کیا ہے جی؟

فرماتے ہیں : وهذه الْحُرُوفُ الْخَمْسَةُ  یہ جو پانچ حروف ہیں،  یہ پانچ حروف  ، تَنْصِبُ الْإِسْمَ إِذَا کَانَ مُضَافًا إِلَی اسْمٍ آخَرَ ، اسم کو نصب دیتے ہیں، لیکن کب؟ شرط یہ ہے کہ جب وہ اسم مُضَاف ہو،ایک اور اسم کی طرف۔ جیسے ہم کہتے ہیں:

  • "یا عبداللہ"

  • "اَیا غلامَ زید"

  • "ھَیا شریفَ القومِ"

  • "اَئ افضلَ القوم"

  • "اَ عبدَاللہ"

یعنی دیکھو، پہلے میں بھی "عبد"، دوسرے میں "غلام"، تیسرے میں "شریف"، چوتھے میں "افضل"، پانچویں میں "عبد"۔ یہ چونکہ آگے مضاف ہو کر استعمال ہو رہے تھے، تب "یا"، "آیا"، "ھیا"، "آئے"، اور "آ" نے اپنے بعد والے اسم کو نصب دیا۔

  • "یا عبدَاللّہ" (عبد پر نصب ہے)

  • "اَیا غلامَہ زید" (غلام پر نصب ہے)

  • "ھَیا شَرِیفَ القَومِ" (شریف پر نصب ہے)

  • "اَئ اَفضَلَ القَومِ" (افضل پر نصب ہے)

  • "اَ عَبدَاللّہِ" (عبد کی دال پر نصب ہے)

ٹھیک ہو گیا جی؟ یہ کہاں تک ہو گیا؟ جان، یہ تو ہو گیا اس صورت میں کہ آگے کسی اور اسم کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوتے ہیں۔ ٹھیک؟

وَتَرْفَعُ الْإِسْمَ إِن لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ الْإِسْمُ مُضَافًا۔ یہی پانچ حروف اپنے بعد والے اسم کو رفع دیتے ہیں، اگر وہ اسم آگے مضاف ہو کر استعمال نہ ہو رہا ہو۔ تو وَتَرْفَعُ الْإِسْمَ، یہ پانچ حروف اپنے بعد والے اسم کو، جس پر یہ داخل ہوئے ہیں، رفع دیتے ہیں، إِن لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ الْإِسْمُ، اگر ان کے بعد والے ان کا مدخول اسم مُضَاف ہو کر استعمال نہ ہو رہا ہو۔ جیسے:

  • "یا رَجُلُ"

  • "یا رَجُلَ" نہیں پڑھیں گے، کیوں؟ کیونکہ "یا رَجُل" کہیں مضاف ہو کر استعمال نہیں ہو رہا۔

وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ۔

في الممكنات كما مرَّ، والممتنعات مثل: «ليت الشباب يعود»، والترجّيَ مخصوص بالممكنات؛ فلا يقال: «لعلّ الشباب يعود»، وتدخل «ما» الكافّةُ على جميعها؛ فتكفّها عن العمل، كقوله تعالى: ﴿أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ [الكهف: ١١٠]، و«إنّما زيـــد منطلق».

النوع الثالث

«ما» و «لا» المشبّهتان بـ «ليس» في النفيْ والدخول على المبتدأ والخبر، ترفَعان الاسم وتنصِبان الخبر، وتدخل «ما» على المعرِفة والنكِرة، مثل: «ما زيد قائماً»، ولا تدخل «لا» إلّا على النكِرة، نحو: «لا رجل ظريفاً».

النوع الرابع

حُروف تنصِب الاسم فقط، وهي سبعة أحرف: «الواو» وهي بمعنى «مع»، نحو: «استوى الماء والخشبة»، و«إلَّا» وهي للاستثناء، نحو: «جاءني القوم إلّا زيداً»، و«يَا» وهي لنداء القريب والبعيد، و«أَيَا» و «هَيَا» وهما لنداء البعيد، و«أَيْ»

و «الهمزة المفتوحة»، وهما لنداء القريب، وهذه الحروف الخمسة تنصب الاسم إذا كان مضافاً إلى اسم آخر، نحو: «يا عبدَ الله»، و «أيا غلامَ زيد» و «هيا شريفَ القوم»، و«أي أفضلَ القوم»، و «أعبدَ الله»، وترفع الاسم إنْ لم يكن ذلك الاسم مضافاً، مثل: «يا زيدُ»، و«يا رجلُ».

النوع الخامس

حروف تنصب الفعل المضارع، وهي أربعة أحرف: «أنْ» و «لَنْ» و «كَيْ» و«إِذَنْ»؛ فـ «أنْ» للاستقبال وإن دخلت على الماضي، نحو: «أسلمت أن أدخلَ الجنّة وأن دخلت الجنّة»، وتسمّى هذه مصدريّة، و«لن» لتأكيد نفيْ المستقبل، مثل: ﴿لَن تَرَانِي [الأعراف: ١٤٣]، وأصلها «لاَ إِنْ» عند الخليل؛ فحذفت الهمزة تخفيفاً، فصارت «لاَنْ» ثم حذفت الألف لالتقاء الساكنين، فبقيت «لَنْ»، و«كي» للسببيّة، أي: يكون ما قبلها سبباً لما بعدها، مثل: «أسلمت كَي أدخلَ الجنّة»؛ فإنّ الإسلام سبب لدخول الجنّة، و«إذن» للجواب والجزاء، وهو لا يتحقّق إلّا في الزمان المستقبل؛ فهي لا تدخل إلّا على الفعل المستقبل، مثل: