درس شرح مائة عامل

درس نمبر 10: حروف مشبّهة بالفعل

 
1

خطبہ

2

حروف مشبّهة بالفعل میں سے اِنَّ اور اَنَّ کی بحث

النوع الثاني

الحُروفُ المشبّهةُ بِالفَعلِ، وَهَيِ َتدخُلُ عَلى المبتدأِ والخَبرِ، تَنصِبُ المبتدأَ وتَرفَعُ الَخبرَ، وَهِيَ سِتّةُ حُروفِِ

ہم کتاب پڑہ رہے ہیں شرح ماۃ عامل سو عامل جو عبد القاھر جرجانی مرحوم نے جمع کیئے تھے ان کی شرح پھر ان میں سے کچھ عوامل لفظیہ تھے کچھ معنویہ فالحال ھم عوامل لفظیہ کو پڑہ رہے ہیں ، نوع اول میں حروف جارہ کی بحث ہم نے پڑہی یہ حروف عامل ہیں یہ اسم کو جر دینے کا عمل کرتے ہیں ، 

نوع ثانی بھی حروف کے بارے میں ہے ان کا نام ہے وہ حروف جو فعل کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ یعنی حروف مشبہ بالفعل ، ہیں حروف لیکن عمل میں مشابھت رکھتے ہیں فعل کی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو یہ معنی کے لحاظ سے مثلا اِنَّ ، حَقَّقتُ کی معنی کو متضمن ہوتا ہے یعنی ان میں معنی فعل والا ہوتا ہے جیسے کَاَنَّ ، شَبَّهتُ اب اس میں تَشَبّہ کی معنی پائی جاتی ہے جو یقیناََ وہ فعل ہے ، تو ایک شباھت ان میں یہ ہے دوسری شباھت جیسے فعل فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دیتا ہے یہ حروف بھی اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں ، یعنی یہ حروف بھی دو چیزوں میں عمل کرتے ہیں ایک کو زبر دیتے ہیں ایک کو پیش جیسے ضَربَ زیدٌ عمرواََ  تو اسی وجہ سے ان کو حروف مشبہ بالفعل کھا جاتا ہے یعنی وہ حروف جو مشابہ ہیں فعل کے ۔

یہ حروف مشبہ بالفعل کیا کرتے ہیں ؟ فرماتے ہیں کہ 

1- مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں گویا یہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں ۔

2- مبتدا کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں ، اگر یہ حروف نہ ہوتے تو وہ مبتدا تھی اب یہ مبتدا انہی کا اسم بن جائے گا اور خبر ان کی خبر مثال : زَيْدٌ قائمٌ ، یہ جملہ اسمیہ ہے زید مبتدا ہے قائم اس کی خبر لیکن اسی مبتدا اور خبر پر ان حروف مشبہ بالفعل میں سے کوئی حرف آجائے تو زیدٌ قائمٌ سے یہ جملہ إنَّ زَيْداً قائمٌ ہو جائے گا ، زید ان کا اسم ہے اور قائم ان کی خبر ہے ،

3- وہ مبتدا ان حروف کا اسم اور خبر انہی حروف کی خبر بن جائے گی ۔

* حروف مشبہ بالفعل 6 ہیں : اِنَّ اَنَّ کَاَنَّ لَیتَ لٰکِنَّ لَعَلَّ

اب ذرا غور کرنا ہے کہ جہاں تک ہے عمل، وہ تو یہ چھے کے چھے ایک ہی عمل کرتے ہیں کہ مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں ۔ مبتدا کو نصب دیتے ہیں، پھر وہ بن جاتا ہے ان کا اسم، اور خبر کو دیتے ہیں رفع، وہ بھی ان کی خبر۔ اب مسئلہ جو آگے یاد کرنے والے نکات ہیں،

بہت توجہ فرمانی ہیں، وہ کیا؟

1: اِنَّ اور اَنَّ کہاں پر پڑھنا ہے اور اِنَّ کہاں پر پڑھنا ہے؟ یہ بڑا مشہور مسئلہ ہے، اور اس کو یاد بھی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کئی مقام ایسے ہیں جہاں اِنَّ پڑھنا ہے، اَنَّ درست نہیں ہوگا، اور کہیں پر اَنَّ پڑھنا ہے، اِنَّ درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح آگے بھی، لَیْتَ اور لَعَلَّ دونوں "کاش" کے معنی میں ہیں، اردو میں ، لیکن دیکھیں گے ان میں بھی ایک خاص فرق ہے۔ ہم ان شاءاللہ ایک ایک کر کے آپ کو آسانی سے بتاتے ہیں۔

النوع الثاني : الحُروفُ المشبّهةُ بِالفَعلِ،

وہ حروف جو فعل کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں، وَھِیَ تَدخُلُ عَلی المُبتَدَاِ وَ الخَبَرِ داخل ہوتے ہیں مبتدا اور خبر پر۔ تَنصِبُ المُبتَداَ (مبتدا کو نصب دیتے ہیں)، وَتَرْفَعُ الْخَبَرَ (اور خبر کو رفع دیتے ہیں)۔ وَهِيَ سِتَّةُ حُرُوفٍ (اور یہ چھے حروف ہیں)۔ یہ ہو گیا ان کا اَثَر۔ کون کون سے ہیں چھے؟ جی، آگے انہوں نے خود لکھا: إِنَّ، أَنَّ، كَأَنَّ، لَيْتَ، لَكِنَّ، لَعَلَّ۔ ٹھیک ہو گیا ۔

اب یہ چھے اس بات میں تو یہ مشترک ہیں کہ یہ مبتدا اور خبر پر داخل ہوتے ہیں، مبتدا کو نصب دیتے ہیں، وہ پھر ان کا اسم بن جاتی ہے، اور اگلی ان کی خبر۔ اب ہر ایک کے معنی کیا دیتا ہے؟ إِنَّ کس معنی میں استعمال ہوتا ہے؟ أَنَّ کس معنی میں استعمال ہوتا ہے؟ آخر اس عمل جو اعراب کا دیتے ہیں، رفع اور نصب، اس سے ہٹ کر کوئی ان کا معنی بھی تو ہوگا کہ کہاں کیا کرتے ہیں؟

فرماتے ہیں: إِنَّ وَأَنَّ (یہ جو پہلے دو ہیں، إِنَّ اور أَنَّإِنَّ اور أَنَّ اسم یعنی وہ مبتدا کو نصب اور خبر کو رفع، یہ عمل میں تو ہو گیا برابر۔ معنی کیا دیتے ہیں؟ فرماتے ہیں: ان کا معنی یہ ہے: "هُمَا لِتَحْقِيقِ مَضْمُونِ الْجُمْلَةِ الْإِسْمِيَّةِ" (إِنَّ اور أَنَّ جملہ اسمیہ کے مضمون کی تحقیق کے لیے آتے ہیں)۔ کیا مطلب؟ جملہ تھا زیدٌ قائمٌ جملہ اسمیہ ہت اب اس کا مضمون یہ ہے نا کہ زید کھڑا ہے۔ مضمون جملہ یہ ہے نا کہ زید کا قیام، زید کھڑا ہے۔ لیکن جب اس پر إِنَّ آ گیا: "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"، اب اس کا ترجمہ یہ نہیں کرنا کہ زید کھڑا ہے۔ اب کریں گے: "تَحْقِيق کہ زَيْد قَائِم ہے" (یہ نہیں، یہ جملہ ہے اسمیہ کا زید قائم جو مضمون تھا، زید کا قیام، زید کا کھڑا ہونا، یہ اس کی تحقیق کرتا ہے)۔

یعنی، اگر متکلم کہتا ہے: "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ"، تو گویا کہ وہ کہہ رہا ہے: "حَقَّقْتُ قِيَامَ زَيْدٍ" (میں نے زید کے قیام کی تحقیق کی ہے)۔ "حَقَّقْتُ" یہ فعل ہو گیا، "قِيَامَ زَيْدٍ" مفعول ہے۔ مفعول ہو گیا کیا؟ کہ میں نے قیام زید کی تحقیق کی ہے۔ یعنی کیا مطلب ہے؟ وہ جس کو ہم کہتے ہیں کنفرم کی ہے، زید قائم، زید کھڑا ہے۔ لیکن جب إِنَّ آئے گا، تو اب ترجمہ کریں گے: "إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" کا معنی ہوگا: "تحقیق کہ زید کھڑا ہے"، "حَقَّقْتُ" (میں نے تحقیق محقق کی ہے، میں نے کنفرم کی ہے کس کو؟ قِيَامَ زَيْدٍ، زید کے قیام کو)۔ یعنی یہ بات ایسی نہیں ہے، میں نے اس کی تحقیق کی ہے، زید کے قیام کی۔

اسی طرح: "وَبَلَغَنِي" (مجھے پتہ چلا ہے) "أَنَّ زَيْدًا مُنْطَلِقٌ" (أَنَّ زَيْدًا، مجھے پتہ چلا ہے کہ تحقیق کے زید مُنْطَلِقٌ، چلنے والے ہیں، جانے والے ہیں)۔ اب ذرا غور کریں: یعنی اصل میں جملہ کیا تھا؟ "زَيْدٌ مُنْطَلِقٌ" (زید چلنے والے ہیں)۔ "انطلاق" چلنا۔ لیکن جب اس پر أَنَّ آ گیا، تو أَنَّ کے بعد اب نہیں کہنا کہ زید چلنے والے ہیں۔ آپ ترجمہ کریں گے کہ : تحقیق، یعنی "بَلَغَنِي" (مجھے اس بات کا پتہ چلا ہے کیا؟ کہ أَنَّ زَيْدًا مُنْطَلِقٌ، تحقیق کے زید جانے والے ہیں) کیا مطلب؟ یعنی أَنَّ زَيْدًا مُنْطَلِقٌ کا مطلب ہم کریں گے: "بَلَغَنِي" (مجھے یہ بات پہنچی ہے، مجھے اس بات کا علم ہے کیا بات پہنچی ہے؟ کہ ثُبُوتُ اِنطِلاقِ زَیدِِ، زید کے چلنے کا، جانے کے ثبوت کی)۔ یعنی کیا مطلب؟ کہ اُس کا چلا جانا ثابت ہے، مجھے اس بات کی اطلاع پہنچی ہے۔

3

كَأَنَّ ،لَكِنَّ کی وضاحت

خوب! یہ ہو گیا۔ اس کے بعد آگے وہ ہے: "كَأَنَّ" (حروف مشبہ بالفعل میں سے ایک ہے)۔ "كَأَنَّ" کیا ہے؟ "ھِیَ لِلتَّشْبِيهِ" (یہ پہلے میں گذارش کر چکا ہوں، یہ آتا ہے تشبیہ کے لیے) یعنی کسی چیز کو کسی دوسری چیز کے ساتھ کسی صفت میں شریک قرار دینا، یہ ہوتا ہے تشبیہ۔ "وَكَأَنَّ" (كَأَنَّ کیا ہے؟ یعنی کاف یہ علیحدہ ہے، اور أَنَّ علیحدہ ہے)۔ "كَأَنَّ" ھِیَ لِلتَّشْبِيهِ (یہ آتا ہے تشبیہ کے لیے، ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ مشابہ دینا)۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "كَأَنَّ زَيْدًا أَسَدٌ" (جیسا کہ زيد ، شیر ہے)، یعنی زید کو تشبیہ دی جا رہی ہے شیر کے ساتھ۔ وہ بات پہلے بتائی تھی، جیسے شیر بہادر ہے، گویا زید بھی "كَأَنَّ" (یعنی اس کو گویا تشبیہ دی جا رہی ہے) اور باتیں آگے بتاتا ہوں ۔

 آگے فرماتے ہیں: "وَلَكِنَّ" (لَكِنَّ کس کے لیے آتا ہے؟) "هِيَ لِلِاسْتِدْرَاكِ" (لَكِنَّ آتا ہے استدراک کے لیے)۔ استدراک کسے کہتے ہیں؟ بہت آسانہ۔ استدراک کا ایک لغوی معنی ہوتا ہے: استدراک یعنی جو چیز انسان سے رہ جائے، بعد میں اس کی تلافی کرنا۔ فلان شے رہ گئی تھی، تو بعد میں اس کی تلافی کر لی، یہ ہوتا ہے لغوی معنی ۔ لیکن یہاں استدراک سے کیا مراد ہے؟ استدراک سے مراد یہ ہے: متکلم ایک کلام کرتا ہے، اس کلام سے متکلم خود سمجھتا ہے کہ شاید سننے والے کو وہ بات نہیں سمجھ  آرہی جو میں سمجھنا چاہتا ہوں، یا وہ یہ سمجھتا ہے، اس کو وہم ہوتا ہے کہ شاید سننے والا غلط سمجھ رہا ہے، جب کہ میں کچھ اور بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ تو وہ پھر لَكِنَّ کے ذریعے اس وہم کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ہوتا ہے استدراک۔

اچھا، استدراک کا معنی کیا ہے؟ آگے خود لکھتے ہیں: یعنی اس وہم کو دفع کرنا ، جو وہم پیدا ہوتا ہے اس متکلم کی پہلی بات سے ۔ ذرا غور کرنا: مثال، متکلم نے ایک جملہ کہا، اس جملے سے ایک وہم ہوا، وہم کہ شاید اس کا مطلب یہ ہے۔ پھر وہی متکلم اس وہم کو دور کرنے کے لیے ایک اور جملہ کہتا ہے، تو اس جملے سے پہلے وہ لَكِنَّ کو لگاتا ہے۔ تو یہ لَكِنَّ بتا رہا ہے کہ اس کلام پہلی سے جو یہ وہم ہو رہا تھا، ایسا نہیں ہے، یہ وہم درست نہیں، بلکہ ایسا ہے۔

مثال بہت آسان سی مثال دیئے۔ مثال کیا دیئے؟ انہوں نے مثال یہ دیئے: "غَابَ زَيْدٌ، وَلَكِنَّ بَكْرًا حَاضِرٌ" (زید غائب ہو گیا، لیکن بکر حاضر ہے)۔ اب ذرا غور کریں: متکلم کہتے ہیں: "غَابَ زَيْدٌ" (زید غائب ہو گیا)۔ اب ممکن ہے اس سے وہم ہو کہ زید اکیلے تو نہیں تھا، بکر بھی اس کے ساتھ تھا۔ اگر زید غائب ہو گیا ہے، تو اس کا مطلب ہے بکر بھی اس کے ساتھ غائب ہو گیا۔ یہ ہو گیا وہم۔ اب اس وہم کو دور کرنے کے لیے متکلم لے آتا ہے: "لَكِنَّ" (کہ زید غائب ہوا ہے، ہمیں وہم ہو رہا ہے بکر بھی ساتھ غائب ہوا)۔ "لَكِنَّ بَكْرًا حَاضِرٌ" (لیکن بکر حاضر ہے)۔ یہ لَكِنَّ کے ذریعے "غَابَ زَيْدٌ" میں جو وہم پیدا ہو رہا تھا، لَكِنَّ کے ذریعے اس نے اس وہم کو دفع کیا ہے۔ اس وہم کے دفع کرنے کا نام ہے استدراک ۔ اور لَكِنَّ آتا ہے استدراک کے لیے ۔

 پس "وَلِھَاذَا" (اور یہی وجہ ہے کہ) "لَا تَقَعُ إِلَّا بَيْنَ الْجُمْلَتَيْنِ" (اب اس میں کوئی شک نہیں کہ لَكِنَّ ہمیشہ دو جملوں کے درمیان آئے گا) کیوں؟ ایک جملہ پہلے ہوگا، جس سے ہمیں وہم ہوگا، درمیان میں آئے گا لَكِنَّ، اس کے ذریعے اس سے پیدا ہونے والے وہم کو ختم کر کے، پھر دوسرا جملہ ذکر کیا جاتا ہے۔ تو پس یہ ہے لَكِنَّ، یہ لَكِنَّ دو جملوں کے درمیان آتا ہے ۔

اَلَّتَینِ ایسے دو جملے "تِکُونَانِ مُتَغَايِرَانِ" (متغایرتین بالمفھوم) کہ وہ دو جملے مفہوم کے لحاظ سے متغایر ہوتے ہیں، مفہوم کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ دو جملے مفہوم کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جیسے: "غَابَ زَيْدٌ"، اب لَكِنَّ، "لَكِنَّ بَكْرًا حَاضِرٌ"۔ ایک جملہ لَكِنَّ سے پہلے ہے: "غَابَ زَيْدٌ"، ایک لَكِنَّ کے بعد ہے: "بَكْرًا حَاضِرٌ"۔ دونوں جملے مفہوم کے لحاظ سے مختلف ہیں، کہ ایک جملے کا مفہوم ہے کہ زید غائب ہو گیا، جبکہ دوسرے کا مفہوم ہے کہ بکر حاضر ہے۔ تو دونوں جملے مفہوم میں مختلف ہیں، ایک میں غیبت کی بات، اور دوسرے میں حضور کی۔

یا اسی طرح ایک اور جملہ: "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ" (نہیں آیا میرے پاس زید)، "لَكِنَّ عَمْرًا جَاءَنِي" (لیکن عمر میرے پاس آیا ہے)۔ اب لَكِنَّ سے پہلے "مَا جَاءَنِي زَيْدٌ"، یہ علیحدہ جملہ، "عَمْرًا جَاءَنِي"، علیحدہ جملہ۔ پہلے جملے کا مفہوم ہے کہ زید نہیں آیا، دوسرے جملے کا مفہوم ہے کہ عمر آیا ہے۔ تو لہٰذا دو جملوں کے درمیان لَكِنَّ آیا، اور دونوں جملے مفہوم کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔

4

إِنَّ اور اَنَّ پڑہنے کے مقامات

اب اگلی بات سے پہلے تھوڑا سا میں چاہتا ہوں آپ کو اس طرح متوجہ کر دوں کہ کہیں پر إِنَّ پڑھا جاتا ہے، اور کہیں پر اَنَّ پڑھا جاتا ہے، تو اُس کو بھی تھوڑا سا میں چاہتا تھا کہ واضح کر دوں، تو نسبتاََ آسان ہو جائے گا۔ پھر اگلے درس میں علیحدہ کر کے اُس کو پڑھ دیں گے ۔ وہ یہ ہے: کچھ مقام ایسے ہوتے ہیں (اب یہ کتاب میں نہیں ہے، آپ کو ایسے یاد کرنا ہوگا) جہاں پر إِنَّ پڑھنا ہے۔ ان شاءاللہ ھدایۃ النحو میں ہم آپ کو اگلے سال کے نحو میں یہ سارا پڑھیں گے۔ فقط ایک آسانی کے لیے کہ تھوڑا سا یاد ہو جائے، کچھ پتہ ہو کہ تھوڑا سا یاد ہو جائے، کچھ پتہ ہو بندے کو "إِنَّ" اور "أَنَّ" میں کیا ہوتا ہے۔ "إِنَّ" کہاں پڑھا جاتا ہے؟ 

1- ابتدائے کلام میں جہاں سے بات شروع ہو رہی ہو، مثلاً: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ۔ چونکہ بات شروع جہاں سے ہو رہی تھی، یہاں ہم پڑھیں گے "إِنَّ"۔ 

2-  اگر "قَالَ" یقول "قال فلان" یا یقول "فلان"، قرآن مجید میں اس کے بہت سارے شواہد ہیں۔ اس کے بعد ہو تو بھی وہاں "إِنَّ" پڑھنا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "قال" اوہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، "قال إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانی الکتاب، یعنی "قال إِنِّي" پڑھنا ہے، "قال اَنِّي نہیں پڑہنا"۔

3- اسی طرح اور بھی ہم نے ابھی پڑھا ہے گذشتہ درس میں کہ ہر قسم کو ایک جواب قسم چاہیے ہوتا ہے، اور اگر یہ جواب قسم جملہ  ہو جواب قسم کی ابتدا میں ہو، وہاں بھی "إِنَّ" پڑھنا ہے۔ جیسے: وَالْعَصْرِ، یہ قسم ہو گیا، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، یہاں "إِنَّ" پڑھنا ہے، "أَنَّ" نہیں پڑھنا۔ ٹھیک ہے جی۔ اور بھی بہت سارے مقام ہیں، لیکن ہم سب کو نہیں پڑھ سکتے، ان شاءاللہ اگلے اس میں بتائیں گے۔ ھدایۃ النحو میں ۔

اسی طرح چند مقام "اَنَّ" کے کہ "اَنَّ" کہاں پڑھنا ہے۔ فرماتے ہیں: اگر جملہ فاعل کے مقام پر ھو، یعنی محلاََ وہ فاعل بن رہا ہو، تو وہاں بھی "اَنَّ" پڑھنا ہے۔ یہ بھی آیت ہے۔ ٹھیک ہے جی ۔أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ  اب وہ ابتدائے کلام تھا، تو ہم نے پڑھا : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ،  یہاں کیا پڑھ رہے ہیں؟  أَنَّا أَنْزَلْنَا کیوں؟ اس لیے کہ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ کے بعد یہ محلاََ اس کا فاعل بن رہا ہے۔ 

ایسی طرح اگر نائب فاعل ہو، اس کی مثال موجود ہے، آیت موجود ہے، قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ ، أُوحِيَ فعل مجہول ہے نا؟ اب اس کے بعد یہ نائب فاعل آنا ہے۔ اب یہاں پڑھنا ہے،أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ  اب یہاں بھی "اَنَّ" پڑھنا چاہیے۔ نائب فاعل ہے خوب ۔ اور بھی بہت سارے ہیں مقام ہم، بہت زیادہ مقام ہیں۔ یہ ان شاءاللہ۔ بعض مقامات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جہاں "إِنَّ" پڑھنا بھی جائز ہوتا ہے اور "أَنَّ" پڑھنا بھی جائز ہوتا ہے۔

5

لَیْتَ اور لَعَلَّ کے معانی

آگے فرماتے ہیں: حروف مشبہ بالفعل میں سے ایک اور حرف ہے، وہ ہے "لَیْتَ"۔ "لَیْتَ" ھِیَ لِلتَّمَنِّی، یہ آتا ہے تمنی کے لیے۔ آگے بتاتا ہوں، تمنی کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ جیسے مثلاً: لَیْتَ زَیدًا قَائمٌ ، یعنی کاش زید قائم ہوتا۔ یعنی اتمنی، یعنی میں چاہتا ہوں قِیَامَہُ زید کے قیام کو۔ 

اور حروف مشبہ بالفعل میں سے ایک ہے "لَعَلَّ"۔ "لَعَلَّ" کس کے لیے آتا ہے؟ ھِیَ لِلتَّرَجِّي، یہ آتا ہے ترجی کے لیے۔ آگے خود بتا رہے ہیں، اس لیے میں یہاں فرق نہیں کر رہا ہوں۔ اگلی سطر میں خود بتا رہے ہیں وہ کہ "لَیْتَ" کا معنی بھی ہوتا ہے خواہش کرنا، اور "لَعَلَّ" کا معنی بھی ہوتا ہے۔ اردو میں ایک جیسے چلتے ہیں۔ اردو میں ہم کہتے ہیں: میری تمنیٰ یہ تھی، کہ ایسا ہو جاتا۔ یہ استعمال ہوتا ہے۔ "لَعَلَّ" ترجی کے لیے۔ ترجی کیا ہوتا ہے؟ لَعَلَّ السُّلْطَانَ یُکْرِمُنِی، امید ہے کے بادشاہ میرا اکرام کرے گا۔ اب سوال یہاں  پیدا ہو رہا ہے کہ اس تمنی اور ترجی میں فرق کیا ہے؟ بہت غور آغا ۔ اب میں آپ کو آسان کر کے بتاتا ہوں۔ اس میں بھی لکھا ہے، فرق یہ ہے کہ یہ جو تمنی ہے اور ترجی ہے، اس میں فرق یہ ہے کہ تمنی کس کی ہوتی ہے؟ ممکنات کی، جو کام ہو سکے ۔ یا یوں کہیں کہ ایک ہے "لَیْتَ"، یہ ہی تھا نا؟ یہ ہے تمنی۔ اور ایک ہے "لَعَلَّ"۔ ہم نے کہا ہے کہ "لَیْتَ" آتا ہے تمنی کے لیے، اور "لَعَلَّ" آتا ہے ترجی کے لیے ۔ اب فرق کیا کریں کہ بہت غور۔ تمنی یعنی یہ جو "لَیْتَ" ہے، یہ اس چیز کی خواہش میں بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ جو کام ہو سکتا ہو، اور اس کی خواہش میں بھی استعمال ہو سکتا ہے اس کی خواہش کرنے میں جو کام نہ ہو سکتا ہو۔ ممکنات یعنی ایسے کام جن کے ہونے کا امکان موجود ہو۔ ممتنعات یعنی ایسے کام جن کے ہونے کا امکان تک ہی نہ ہو۔ تو اب یہ جو "لَیْتَ" ہے، یہ ان میں بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ جو ہو سکتے ہیں، جن کے ہونے کا امکان ہے، اور یہ وہاں بھی استعمال ہوتا ہے جس کے ہونے کا امکان تک ہی نہ ہو۔ 

جبکہ "لَعَلَّ" وہ فقط وہیں استعمال ہوتا ہے جو کام فقط ہو سکتا ہے۔ ٹھیک ہے جی۔ اور آسان، تمنی اُس چیز کی بھی ہوتی ہے جو ہو سکتی ہو، اُس کی بھی ہوتی ہے جو نہ ہو سکتی ہو۔ ترجی فقط وہیں ہو سکتی ہے جو ممکنات میں سے ہو، لیکن ڈاؤٹ ہو، تردد ہو کہ پتہ نہیں ہے یا نہیں ۔ یہ فرق ہے۔ پس اب آپ آسان کرنے کے لیے کہ اگر کوئی پوچھے کہ جناب "لَیْتَ" اور "لَعَلَّ" میں کیا فرق ہے؟ تو آپ کا جواب دو سطروں میں ہونا چاہیے

کہ لیت ان چیزوں کی خواہشات میں بھی استعمال ہو سکتا ہے جو ہو سکتیں ہیں اور جو نہیں ہو سکتی ہوں جبکہ لعل فقط اسی چیز کی خواہش میں استعمال ہوتا ہے جو ممکنات میں ہوں ہو سکتی ہوں ۔

ممکنات یعنی ایسے کام جن کے ہونے کا امکان موجود ہو۔ ممتنعات یعنی ایسے کام جن کے ہونے کا امکان تک ہی نہ ہو۔

 و لیت حروف مشبہ بالفعل میں سے  ہے "لَیْتَھِیَ لِلتَّمَنِّی، یہ آتا ہے تمنی کے لیے۔  جیسے مثلاً: لَیْتَ زَیدًا قَائمٌ ، یعنی کاش زید قائم ہوتا۔ یعنی اتمنی، یعنی میں چاہتا ہوں قِیَامَہُ زید کے قیام کو۔  زید کا قائم ہونا ممکنات میں سے ہے ۔

لَعَلَّ حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے "لَعَلَّوَ ھِیَ لِلتَّرَجِّي، یہ آتا ہے ترجی کے لیے ، جیسے : لَعَلَّ السُّلْطَانَ یُکْرِمُنِی، شاید کے بادشاہ میرا اکرام کرے گا ، ہے تو ممکن کہ اکرام کرے یا نہ کرے

اس تمنی اور ترجی میں فرق کیا ہے؟  تمنی ممکنات میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے زید والی مثال تھی اور تمنی ممتنعات میں بھی استعمال ہو سکتا ہے جیسے :ليْتَ الشبابَ يَعُود ، کاش جوانی پلٹ آتی ، اور ترجی مخصوص ہوتی ہے ممکنات کے ساتھ فقط ۔ لھذا لعل الشبابَ يَعُود ۔ کہنا درست نہیں کیونکہ جوانی کا پلٹنا ممتنعات میں سے ممکنات میں سے نہیں ۔

حروف مشبہ بالفعل پر کبھی کبھی ایک ما داخل ہو جاتی ہے جو ما ان حروف کو ان کے عمل کرنے سے روک دیتی ہے ، ان کا عمل اسم کو نصب اور خبر کو رفع لیکن جب ان کے ساتھ ما آجاتی ہے تو وہ ان کو ان کے عمل سے روک دیتی ہے تبھی اس ما کو کافہ کھا جاتا ہے اِنَّمَآ إِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهࣱ وَاحِدٌ ، اگر ما نہ ہوتی تو ہم پڑہتے اِنَّ اِلٰھَکم پر ما نے عمل سے روک دیا ہے ۔ کافہ یعنی روکنا یہ ان سب پر داخل ہوتی ہے اور ان حروف کو اپنے عمل سے روک دیتی ہے تو چونکہ روک دیتی ہے تو اسے ما کافہ کہتے ہیں جیسے آیت مجیدہ میں ہے أَنَّمَآ إِلَٰهُكُمۡ إِلَٰهࣱ وَٰحِدࣱ ۔

معنى «جاءني القوم حاشا زيداً وخلا زيداً وعدا زيداً»، وإذا وقعت «خلا» و «عدا» بعد «ما»؛ مثل: «ما خلا زيداً وما عدا زيداً» أو في صدر الكلام؛ مثل: «خلا البيت زيداً» و«عدا القوم زيداً» تعيّنتا للفعليّة.

النوع الثاني

الحُروف المشبّهة بالفعل، وهي تدخل على المبتدأ والخبر، تنصِب المبتدأ وترفَع الخبر، وهي ستّة حروف: «إنّ» و«أنّ» وهما لتحقيق مضمون الجملة الاسميّة، مثل: «إنّ زيداً قائم» أي: حقّقتُ قيام زيد، و«بلغني أنّ زيداً منطلق» أي: بلغني ثبوت انطلاق زيد، و«كأنّ» وهي للتشبيه، نحو: «كأنّ زيداً أسد»، و «لكن» وهي للاستدارك، أي: لدفع التوهُّم الناشي من الكلام السابق؛ ولهذا لا تقع إلّا بين الجملتين اللتين تكونان متغايرتين بالمفهوم، مثل: «غاب زيد لكنّ بكراً حاضر»، و«ما جاءني زيد لكنّ عمرواً جاءني»، و«ليت» وهي للتمنّي، مثل: «ليت زيداً قائم» أي: أتمنّي قيامه، و«لعل» وهي للترجّي، مثل: «لعلّ السطان يكرمني»، والفرق بين التمنّي والترجّي أنّ الأوّل يستعمل

في الممكنات كما مرَّ، والممتنعات مثل: «ليت الشباب يعود»، والترجّيَ مخصوص بالممكنات؛ فلا يقال: «لعلّ الشباب يعود»، وتدخل «ما» الكافّةُ على جميعها؛ فتكفّها عن العمل، كقوله تعالى: ﴿أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ [الكهف: ١١٠]، و«إنّما زيـــد منطلق».

النوع الثالث

«ما» و «لا» المشبّهتان بـ «ليس» في النفيْ والدخول على المبتدأ والخبر، ترفَعان الاسم وتنصِبان الخبر، وتدخل «ما» على المعرِفة والنكِرة، مثل: «ما زيد قائماً»، ولا تدخل «لا» إلّا على النكِرة، نحو: «لا رجل ظريفاً».

النوع الرابع

حُروف تنصِب الاسم فقط، وهي سبعة أحرف: «الواو» وهي بمعنى «مع»، نحو: «استوى الماء والخشبة»، و«إلَّا» وهي للاستثناء، نحو: «جاءني القوم إلّا زيداً»، و«يَا» وهي لنداء القريب والبعيد، و«أَيَا» و «هَيَا» وهما لنداء البعيد، و«أَيْ»