درس شرح مائة عامل

درس نمبر 9: اسم کو فقط جر دینے والے حروف 8

 
1

خطبہ

2

حَاشَا وَخَلَا وَعَدَا کی بحث

وَحَاشَا وَخَلَا وَعَدَا (حاشا، خلا، اور عدا)  بحث ہماری چل رہی تھی حروف جارہ کی ۔ ابتدا میں گذارش کی تھی کہ حروف جارہ کی تعداد سترہ ہے۔ جن میں سے اکثر کی بحث الحمدللہ مکمل ہو گئی ۔ گذارش کی کہ یہ فقط اسم پر داخل ہوتے ہیں۔ نمبر دو، یہ فقط اسم میں عمل کرتے ہیں، یعنی فقط اسم کو جر دیتے ہیں، اور کوئی عمل نہیں کرتے ۔ البتہ ہر حرف مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے، کہ ہم نے پڑھا: "بَاء" فلاں معنی میں استعمال ہوتا ہے، "لام" فلاں میں، "فِي" فلاں میں، وغیرہ ۔ آج ان حروف جارہ کی بحث کا تتمہ ہے ۔ آخری ہیں، وہ ہیں تین: حاشا، خلا، اور عدا۔

ایک نکتہ جان لیں اور یاد رکھیں کہ ان تین حروف کے بارے میں (حاشا، خلا، اور عدا) میں ایک بحث ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حاشا، خلا، اور عدا حرف ہیں، لہٰذا وہ ان کے مابعد کو جر دیتے ہیں۔ اور بعض نحوی کہتے ہیں کہ نہیں، یہ حروف میں سے نہیں، بلکہ یہ افعال میں سے ہیں ۔ یہ فعل ہیں، لہٰذا ان کے اندر جو ضمیر ہوتی ہے، وہ فاعل ہوتی ہے، اور اس کے بعد جو اسم ہوتا ہے، وہ مفعول ہوتا ہے۔ آپ اس نکتے کو کاپی پر لکھ لیں کہ حاشا، خلا، اور عدا کے بارے میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے ۔

 بعض کہتے ہیں کہ یہ حروف ہیں، لہٰذا وہ ان کے بعد والے اسم کو جر دیتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ حرف نہیں، بلکہ فعل ہیں، یعنی یہ افعال ہیں، لہٰذا ان کے بعد والے اسم بنابر مفعولیت کے منصوب ہوگا، اس پر زبر پڑھیں گے، اور ان میں فاعل کی ضمیر ہوگی۔ یہ اختلاف ہوگیا۔

اور اگلی بات، اب اس کو ذرا غور سے پڑھیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر  خلا، اور عدا لفظِ "مَا" کے بعد آ جائیں، یعنی خلا کی جگہ ہو "مَا خَلَا"، یا عدا کی جگہ ہو "مَا عَدَا"، ذرا غور کرنا ۔ یعنی اگر خلا اور عدا کے ساتھ "مَا" آ جائے، "مَا خَلَا"، "مَا عَدَا"، نمبر دو، یا یہ خلا یا عدا ابتدائے کلام میں آ جائیں، یعنی جملہ شروع ہی خلا سے یا عدا سے ہو رہا ہو، تو پھر یقیناً یہ فعل ہوں گے، حرف نہیں ہوں گے۔ یعنی پھر یہ حروف جارہ میں سے نہیں ہوں گے۔

اب ذرا غور کریں: پہلی بات جو میں نے گزارش کی، وہ کیا تھی؟ کہ حاشا، خلا، اور عدا میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حروف ہیں، بعض کہتے ہیں کہ یہ افعال ہیں۔ یہ بات سمجھ لیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ خلا اور عدا کے ساتھ اگر "مَا" آ جائے، یا یہ خلا اور عدا کلام کے ابتدائے میں، یعنی جملہ شروع ہی خلا یا عدا سے ہو رہا ہو، تو پھر یقیناً یہ اس وقت فعل ہوں گے، حروف جارہ میں سے نہیں ہوں گے۔

اب اس جملے کو ذرا غور سے پڑھیں یہاں پر یہ نوع مکمل ہوگی : "وَحَاشَا وَخَلَا وَعَدَا کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهَا لِلْإِسْتِثْنَاءِ"۔ جو لوگ حاشا، خلا، اور عدا کو حروف جارہ میں سے قرار دیتے ہیں، کہ یہ حروف میں سے ہیں، یہ اسم کو جر دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں: یہ حروف ہیں، یہ حروف جارہ میں سے ہیں، اسم کو جر دینے کا عمل کرتے ہیں، اور معنی کیا دیتے ہیں؟ یہ معنی دیتے ہیں "اِسْتِثْنَاء" کا۔ "اِسْتِثْنَاء" کیا ہوتا ہے؟ ہمارے اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ "اِسْتِثْنَاء" کا مطلب ہے کہ جو حکم ان کے ماقبل کا ہے، وہ ان کے مابعد کا نہیں ہے۔ ہم اردو میں کہتے ہیں: "سارا خاندان آیا تھا، سوائے اس کے چچا کے"۔ یہ جو ہم کہتے ہیں: "سوائے اس کے چچا کے"، کیا مطلب؟ یعنی باقی خاندان کی طرف نسبت دے رہے ہیں آنے کی، اور چچا کو اس سے نکال رہے ہیں کہ وہ گویا کہ نہیں آیا تھا۔ یہ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، تو عربی میں بھی یہ ہوتا ہے۔

تو جو لوگ اب ان کو حروف جارہ میں سے مانتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ حاشا، خلا، اور عدا میں سے ہر ایک یہ معنی دیتا ہے۔ یہ آتا ہے لِلِاسْتِثْنَاءِ (استثناء کے لیے)۔ کیا مطلب؟ یعنی مطلب اس کا یہ ہوگا کہ یہ بتاتے ہیں کہ جو نسبت ہم سے پہلے والے کی طرف تھی، وہ نسبت ہمارے بعد والے کی طرف نہیں ہے۔ اب مثال دیتا ہوں: "جَاءَنِی الْقَوْمُ حَاشَا زَيْدٍ" (قوم آئی میرے پاس، سوائے زید کے)۔ کیا مطلب؟ یعنی باقی قوم کی طرف نسبت ہے آنے کی۔ "حَاشَا زَيْدٍ" (حاشا بتا رہا ہے: سوائے زید کے)۔ یعنی کیا مطلب؟ زید کی طرف آنے کی نسبت نہیں ہے۔ یعنی کیا؟ ساری قوم میرے پاس آئی، سوائے زید کے  یعنی زید نہیں آیا۔ یا کہیں گے: "جَاءَنِی الْقَوْمُ خَلَا زَيْدٍ"، یا کہیں گے: "جَاءَنِی الْقَوْمُ عَدَا زَيْدٍ" (آئی میرے پاس قوم، سوائے زید کے)۔ خوب! یہ تو ہو گیا جو لوگ ان کو حروف جارہ میں سے قرار دیتے ہیں۔ 

"وَقَالَ بَعْضُهُمْ" (اور بعض نحوی کا نظریہ یہ ہے)، وہ کہتے ہیں: "إِنَّ الْاسْمَ الْوَاقِعَ بَعْدَهَا" (کہ جو اسم بھی حاشا، خلا، اور عدا کے بعد واقع ہوگا) ، ہم نے تو پڑھا ہے نا: "زَيْدٍ"، "حَاشَا زَيْدٍ"، "خَلَا زَيْدٍ"، "عَدَا زَيْدٍ"، وہ کہتے ہیں کہ نہیں، جو اسم بھی ان کے بعد واقع ہوگا، "يَكُونُ مَنْصُوبًا" (وہ مجرور نہیں، بلکہ وہ منصوب ہوگا)، اس پر زبر پڑھی جائے گی۔ کیوں؟ "بِالْمَفْعُولِيَّةِ" (بنابر مفعولیت کے)، یعنی وہ اسم ان کا مفعول ہوگا۔

وہ جو میں نے پہلے سمجھایا کہ ان میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں یہ حروف میں سے ہیں، اور بعض کہتے ہیں افعال میں سے ہیں۔ تو گویا وہ جو کہتے ہیں کہ یہ "بِالْمَفْعُولِيَّةِ" منصوب ہوگا، یعنی وہ ان کو افعال قرار دیتے ہیں، حروف قرار نہیں دیتے۔ پس "يَكُونُ مَنْصُوبًا" (تو وہ اسم منصوب ہوگا) "بِالْمَفْعُولِيَّةِ"۔ پس "فَحِينَئِذٍ تَكُونُ هَذِهِ الْأَلْفَاظُ أَفْعَالًا" (پس اگر ان کا بعد والا اسم مفعول ہوگا، تو اس وقت یہ الفاظ حروف نہیں، بلکہ یہ الفاظ افعال ہوں گے)۔ یعنی حاشا فعل ہوگا، حرف نہیں۔ خلا فعل ہوگا، عدا فعل ہوگا، حرف نہیں۔

پس جناب، اگر ان کے بعد والا اسم مفعولیت کی بنیاد پر منصوب ہو گیا، تو پھر ان کا کوئی فاعل بھی ہوگا یا نہیں ہوگا؟ فرماتے ہیں: "وَالْفَاعِلُ فِيهَا ضَمِيرٌ" (فاعل ان میں ھُو کی ضمیر ہوتی ہے)، "مُسْتَتِرٌ دَائِمًا" (جو ہمیشہ ان کے اندر چھپی ہوتی ہے)، یعنی کبھی ظاہر نہیں ہوتی۔

لہٰذا، اب اگر اسی مثال کو لیں جو ہم نے پہلے پڑھی تھی: "جَاءَنِی الْقَوْمُ حَاشَا زَيْدٍ"، لیکن اگر ہم اس نظریے کو سامنے رکھیں گے، تو پھر کیسے پڑھیں گے؟ پھر مثال یوں بن جائے گی: "جَاءَنِی الْقَوْمُ حَاشَا زَيْدًا"، یا "جَاءَنِی الْقَوْمُ خَلَا زَيْدًا"، یا کہیں گے: "جَاءَنِی الْقَوْمُ عَدَا زَيْدًا"۔ یہ حاشا، خلا، اور عدا افعال ہوں گے، "هُوَ" کی ضمیر ان کی فاعل ہوگی، اور بعد والا "زَيْدًا" ان کا مفعول ہوگا۔ اس نظریے کی بنیاد پر کہ جو کہتے ہیں کہ ان کا مابعد بنابر مفعولیت کے منصوب ہوتا ہے، مجرور نہیں ہوتا۔

یہ بات یہاں پر ختم ہو گئی۔ البتہ اگلی بات ہے۔ اگلی بات یہ ہے: "إِذَا وَقَعَت خَلَا وَعَدَا بَعْدَ مَا" (لیکن اگر خلا اور عدا فقط خلا اور عدا نہ ہوں، بلکہ خلا اور عدا "مَا" کے بعد ہوں)، یعنی "فَقَدْ خَلَا" نہ ہو، بلکہ ہو "مَا خَلَا"، "فَقَدْ عَدَا" نہ ہو، بلکہ ہو "مَا عَدَا"۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "مَا خَلَا زَيْدًا"، یا "مَا عَدَا زَيْدًا"۔ یہ ہوں "فِي صَدْرِ الْكَلَامِ" (کلام کے شروع میں)، یا نہیں؟ "مَا" ساتھ نہیں ہے، "فَقَدْ خَلَا" اور "عَدَا" ہے، لیکن ہے خلا اور عدا "فِي صَدْرِ الْكَلَامِ" (کلام کی ابتدا میں)۔ "صَدْر" (سینہ) کہتے ہیں کہ ابتدا میں، جہاں سے کلام شروع ہو رہا ہے۔ یعنی جملے کے اگر ابتدا میں ہوں گے، تو پھر حکم یہ ہے کیا مطلب؟

اب ذرا غور کریں:

 اگر خلا اور عدا سے پہلے "مَا" ہو، 

یا خلا اور عدا واقع ہوں کلام کی ابتدا میں، 

جیسے یہ مثال ہے: "خَلَا البَيْتُ زَيْدًا"، "عَدَا قَوْمٌ زَيْدًا"، اگر ایسا ہے، "تَعَيَّنَتَا" (تثنیہ کا صیغہ ہے)، تو یہ خلا اور عدا "تَعَيَّنَتَا لِلْفِعْلِيَّةِ" (کیا مطلب؟  یہ معین ہو جائیں گے فعلیت کے لیے)۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ پھر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر "مَا خَلَا" یا "مَا عَدَا" ہو، پھر بھی سارے کہتے ہیں کہ یہ فعل ہے۔ یا خلا اور عدا اگر کلام کی ابتدا میں آ جائے، جملے کی ابتدا میں آ جائے، "تَعَيَّنَتَا" (یہ دونوں متعین جائیں گے)، یعنی پھر بھی یہ حتماً وہاں فعل ہوں گے، حروف جارہ میں سے نہیں ہوں گے۔

تو یہاں تک الحمدللہ نوعِ اول، جس میں حروف جارہ سترہ کی بحث تھی  وہ مکمل ہو گئی۔  اگلے درس میں ان شاءاللہ نوعِ ثانی کو شروع کرتے ہیں۔

أو «لام الابتداء»، نحو: «والله إنّ زيداً قائم»، و«والله لَزيـــد قائم»، وإن كانت منفيّة كانت مصدّرة بـ«ما» و«لا» و«إنْ»، مثل: «والله ما زيد قائماً»، و«والله لا زيد في الدار ولا عمرو»، و «والله إنْ زيد قائم». وإن كان جوابه جملة فعليّة فإن كانت مثبَتة كانت مصدّرة باللام و«قد» أو باللام وحده، مثل: «والله لقد قام زيد»، و«والله لأفعلنّ كذا»، وإن كانت منفيّة فإن كانت فعلاً ماضياً كانت مصدّرة بـ «ما»، مثل: «والله ما قام زيد». وإن كانت فعلاً مضارعاً كانت مصدّرة بـ«ما» و«لا» و «لن»، مثل: «والله ما أفعلنّ كذا»، و«والله لا أفعلنّ كذا»، و«والله لن أفعل كذا». وقد يكون جواب القسم محذوفاً إن كان قبل القسم جملة كالجملة التي وقعت جوابه، مثل: «زيد عالم والله» أي: والله إنّ زيداً عالم، أو كان القسم واقعاً بين الجملة المذكورة، مثل: «زيد والله عالم» أي: والله إنّ زيداً عالم، وحاشا وخلا وعدا، كلّ واحد منها للاستثناء، مثل: «جاءني القوم حاشا زيد وخلا زيد وعدا زيد». وقال بعضهم: إنّ الاسم الواقع بعدها يكون منصوباً على المفعوليّة فحينئذ تكون هذه الألفاظ أفعالاً، والفاعل فيها ضمير مستتر دائماً؛ فالمثال المذكور في

معنى «جاءني القوم حاشا زيداً وخلا زيداً وعدا زيداً»، وإذا وقعت «خلا» و «عدا» بعد «ما»؛ مثل: «ما خلا زيداً وما عدا زيداً» أو في صدر الكلام؛ مثل: «خلا البيت زيداً» و«عدا القوم زيداً» تعيّنتا للفعليّة.

النوع الثاني

الحُروف المشبّهة بالفعل، وهي تدخل على المبتدأ والخبر، تنصِب المبتدأ وترفَع الخبر، وهي ستّة حروف: «إنّ» و«أنّ» وهما لتحقيق مضمون الجملة الاسميّة، مثل: «إنّ زيداً قائم» أي: حقّقتُ قيام زيد، و«بلغني أنّ زيداً منطلق» أي: بلغني ثبوت انطلاق زيد، و«كأنّ» وهي للتشبيه، نحو: «كأنّ زيداً أسد»، و «لكن» وهي للاستدارك، أي: لدفع التوهُّم الناشي من الكلام السابق؛ ولهذا لا تقع إلّا بين الجملتين اللتين تكونان متغايرتين بالمفهوم، مثل: «غاب زيد لكنّ بكراً حاضر»، و«ما جاءني زيد لكنّ عمرواً جاءني»، و«ليت» وهي للتمنّي، مثل: «ليت زيداً قائم» أي: أتمنّي قيامه، و«لعل» وهي للترجّي، مثل: «لعلّ السطان يكرمني»، والفرق بين التمنّي والترجّي أنّ الأوّل يستعمل