درس شرح مائة عامل

درس نمبر 8: اسم کو فقط جر دینے والے حروف 7

 
1

خطبہ

2

قَسَم والی واو اور تاء کی بحث

وَالْوَاوُ لِلْقَسَمِ (واو قسم کے لیے ہے)۔ بحث ہماری چل رہی تھی حروف جارہ کی۔ حروف جارہ کون کون سے ہیں؟ عمل کیا کرتے ہیں؟ اور کون سا حرف کیا معنی دیتا ہے؟ اُن حروف جارہ میں سے ایک ہے "واو"۔ فرماتے ہیں: واو جہاں یہ اسم کو جر دیتی ہے، وہاں اس واو کا معنی یہ ہے کہ یہ آتی ہے قسم کے لیے۔ واو قسم کے لیے۔ لیکن اس واو کے لیے ایک شرط ہے، وہ یہ ہے کہ یہ واو ہمیشہ اسم ظاہر پر داخل ہوتی ہے، ضمیر پر داخل نہیں ہوتی۔ واو کا مجرور ہمیشہ اسم ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)۔ یعنی واو داخل ہوئی اسم ظاہر "اللَّهِ" پر۔ یہاں "اللَّهِ"، اس کے ھا کو جر بھی دیا، جو اس کا اصل کام ہے، اور یہاں قسم کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

آگے فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی یہی واو بمعنی "رُبَّ" کے بھی آتی ہے۔ یعنی جو معنی "رُبَّ" میں لیا جاتا ہے، وہی معنی اس واو سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ تقلیل والا معنی۔ تو وہ بہرحال جہاں بمعنی "رُبَّ" کے بھی لیا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے جی؟

وَالْوَاوُ لِلْقَسَمِ (واو قسم کے لیے آتی ہے)۔ وَهِيَ لَا تَدْخُلُ إِلَّا عَلَى الْاسْمِ الظَّاهِرِ (اور یہ واو داخل نہیں ہوتی مگر اسم ظاہر پر)۔ یہ تو لفظی ترجمہ ہو گیا۔ اور آپ کیا کریں گے کہ واو قسم کے لیے آتی ہے، اور یہ داخل ہوتی ہے اسم ظاہر پر، لَا عَلَى المُضَّمَرِ (ضمیر پر داخل نہیں ہوتی)۔ ٹھیک ہو گیا جی؟

خوب! آگے فرماتے ہیں: نَحْوُ مِثَالِهَا (اس کی مثال کیا ہے؟)۔ فرماتے ہیں: مثال اس کی یہ موجود ہے، وہ ہے: "وَاللَّهِ لَأَشْرَبَنَّ اللَّبَنَ"۔ "وَاللَّهِ" (واو داخل ہوئی اسم ظاہر "اللَّهِ" پر)۔ "اللَّهِ" کے آخری حرف کو اس نے جر دیا۔ "وَاللَّهِ" (اور یہاں واو واوِ قسم ہے)۔ ٹھیک ہو گیا جی؟ خوب! "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)۔ "لَأَشْرَبَنَّ اللَّبَنَ" (میں ضرور دودھ  پیوں گا)۔ "لَبَنَ" کہتے ہیں دودھ کو۔ "لَأَشْرَبَنَّ" (ایک اسم میں لامِ تاکید ہے، اور "أَشْرَبَنَّ" آخر میں نونِ تاکید ثقیلہ ہے)۔ "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)۔ "لَأَشْرَبَنَّ اللَّبَنَ" (میں ضرور پیوں گا دودھ کو)۔ محل شاہد کیا تھا؟ وہی تھا: واو اسم ظاہر "اللَّهِ" پر داخل ہوئی، قسم کے معنی میں ہے، اور "اللَّهِ" کے حق کو اس نے جر دیا۔ "وَاللَّهِ

خوب! آگے فرماتے ہیں: "وَقَدْ تَكُونُ بِمَعْنَى رُبَّ" (اور یہی واو کبھی کبھار بمعنی "رُبَّ" کے بھی آتی ہے)۔ یعنی جو معنی "رُبَّ" دیتا تھا، وہی معنی یہ بھی دیتی ہے۔ کیسے؟ "وَعَالِمٍ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ" (اور عالم جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے)۔ واو بمعنی "رُبَّ" کے ہو گیا۔ آگے تفسیر کر رہے ہیں: یعنی "وعالِمٍ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ" (اور عالم جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے)۔ اس واو کی جگہ آپ "رُبَّ" رکھیں، تو اب یہ بن جائے گا: "رُبَّ عَالِمٍ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ"۔ واو بمعنی "رُبَّ" کے۔ اب تقلیل والا معنی ہوگا۔ تو اس کا ترجمہ کیسے کریں گے؟ کہ کم ایسے عالم دیکھے ہیں جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں۔ یا کثرت والا معنی ہوگا، تو بہت سارے عالم ایسے دیکھے ہیں جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں۔ خوب! یہاں پر واو داخل ہوئی "عَالِمٍ" اسم ظاہر پر۔ "وَعالِمٍ" (اور عالم)  اور اس نے اس کو جر دیا۔ ٹھیک ہے۔

اس کے بعد حروف جارہ میں سے اگلا حرف ہے، وہ ہے "تَاء"۔ فرماتے ہیں: "تَاء" حروف جارہ میں سے ہے، اسم کو جر دیتی ہے، اور یہ بھی قسم کے لیے آتی ہے۔ لیکن اس میں ایک شرط یہ ہے کہ یہ سوائے اللہ کے نام کے، یعنی اسم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور پر داخل نہیں ہوتی۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "تَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)  یہ صحیح ہے ۔ "تَزَيْدٍ" (زید کی قسم)، "تَعَمْرٍو" (عَمرو کی قسم)، یہ غلط ہے۔ فرماتے ہیں: "وَالتَّاءُ لِلْقَسَمِ" (تاء قسم کے لیے ہے)۔ "وَهِيَ لَا تَدْخُلُ إِلَّا عَلَى اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى" (اور یہ داخل نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ کے نام پر) یعنی یہ تاء فقط اسمُ اللہِ تعالیٰ پر داخل ہوتی ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "تَاللَّهِ لَأَضْرِبَنَّ زَيْدًا" (اللہ کی قسم، میں ضرور ماروں گا زید کو)  ٹھیک ہے جی؟

اب ذرا غور کریں کہ یہ تاء تاءِ قسم ہے، جو فقط اِسمُ اللہِ، یعنی اسم ظاہر "اللَّهِ" پر داخل ہوتی ہے۔ "تَاللَّهِ" (کسی بھی اور اسم پر یہ تاء داخل نہیں ہوتی)۔ خوب! اب یہاں پر کچھ چیزیں ذرا آگے نکات ہیں، جو وہ سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ 

وہ فرماتے ہیں کہ یہ جو قسم ہوتی ہے، اس قسم کو ایک جوابِ قسم بھی چاہیے ہوتا ہے۔ آپ تھوڑا سے اس کو سمجھ لیں ، تاکہ پھر آپ کے لیے آسان ہو جائے۔ کیا مطلب؟ 

مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی انسان قسم اٹھاتا ہے، تو اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ تاکہ میں اگلی جو بات کروں، وہ میری بات مضبوط ہو جائے، وہ میری بات پکی ہو جائے، اس بندے کو میری اگلی بات پر یقین آ جائے۔ عام طور پر قسم عام ہمارے معاشرے میں بھی لوگ قسم اٹھاتے ہیں۔

تو فرماتے ہیں: یہ جو عربی میں ہم قسم کی بات کر رہے ہیں، کہ تا قسم کے لیے۔ جب بھی کوئی قسم اٹھائے گا، اب قسم تو ہو گئی۔ مثلاً "اللہ کی قسم"، بندے نے سن لیا۔ تو اب اس شخص نے اس قسم کا کوئی آگے جوابِ قسم دینا ہے۔ یہ بھی تو بتانا ہے کہ آخر میں نے یہ قسم کیوں اٹھائی ہے؟ ٹھیک ہے جی؟

اب ذرا غور فرمائیں کہ یہ کیوں؟ یہ جو قسم اٹھائی، قسم کے بعد جو اگلی بات کرے گا، اس بات کو کہتے ہیں جوابِ قسم۔ جیسے ہم اردو میں کہیں: "اللہ کی قسم"، یہ ہو گئی قسم۔ آگے میں فرما کہتا ہوں: "میں کربلا ضرور جاؤں گا"، یا "میں حج پر جاؤں گا"۔ یہ جو اگلی بات کر رہا ہوں، یہ بن جائے گا اس قسم کا جوابِ قسم ۔ اب عربی میں بھی فرماتے ہیں: ہم نے کہا "اللہ کی قسم"، "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)، "بِاللَّهِ" (اللہ کی قسم)۔ پس اگر ہم عربی میں کوئی قسم اٹھاتے ہیں، تو اس قسم کا کوئی نہ کوئی جوابِ قسم بھی تو ہوگا یا نہیں ہوگا؟ یقیناً آگے اس کا جوابِ قسم بھی ہوگا۔

اب جو جوابِ قسم ہے، اب ذرا عربی میں بہت توجہ کے ساتھ اس کو آپ لکھ لیں گے، تو پھر آپ کو زیادہ آسان ہو جائے گا۔ جوابِ قسم یا جملہ اسمیہ ہوگا، یا جملہ فعلیہ ہوگا۔ یہ باتیں نحو میر میں آپ نے پڑھی ہوں گی کہ ایک جملہ اسمیہ ہوتا ہے، جس میں جیسے ہم کہتے ہیں: "زَيْدٌ قَائِمٌ" (زید کھڑا ہے)۔ "زَيْدٌ" مبتدا ہے، "قَائِمٌ" اس کی خبر ہے۔ مبتدا اور خبر دونوں اسم ہیں، تو یہ بن جائے گا جملہ اسمیہ۔ اور اگر ہم کہتے ہیں: "قَامَ زَيْدٌ" (زید کھڑا ہوا)، تو "قَامَ" چونکہ فعل ہے، "زَيْدٌ" اس کے بعد اس کا فاعل ہے، تو یہ بن جاتا ہے جملہ فعلیہ۔ تو پس جہاں مبتدا و خبر دونوں اسم ہوں، وہ ہوتا ہے جملہ اسمیہ۔ جہاں ایک فعل ہو، ایک پہلے فعل ہو، دوسرا اسم ہو، اس کو کہتے ہیں جملہ فعلیہ۔

خوب! اب یہ جو جوابِ قسم ہوگا یا جملہ اسمیہ ہوگا یا جملہ فعلیہ ہوگا۔ اب اگر جملہ اسمیہ ہے، پھر آگے دو قسمیں ہیں: یا وہ منفیہ ہے، یا مثبت ۔ کیا مطلب منفیہ اور مثبت کا؟ یعنی یا تو بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کروں گا، یہ بن جائے گا منفیہ۔ وہ نفی کر رہا ہے کہ یہ نہیں کروں گا۔ اور اگر ایک شخص کہتا ہے کہ یہ کروں گا، تو یہ بن جاتا ہے مثبت۔

اب جملہ اسمیہ یا منفی ہوگا، یا مثبت ہوگا۔ وہاں پھر آگے پھر اب آگے ان شاءاللہ تفصیل میں آپ کو سمجھاتے ہیں وہ کیا کہ اگر اسمیہ ہوگا، تو پھر اس کو کیسے طرح ذکر کرنا ہوگا۔ اس کے اپنے قواعد ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی مرضی تو نہیں کہ ہم جیسا جملہ چاہیں، وہاں رکھ دیں۔ عربی قواعد کے مطابق، اگر کسی قسم کا جوابِ قسم جملہ اسمیہ ہو، تو اس کو کس طرح لانا ہوگا، اور اگر جملہ فعلیہ ہو، تو اس کو کس طرح لانا ہوگا۔ پھر اگر وہ جملہ اسمیہ منفیہ ہے، تو کس طرح لانا ہے، جملہ مثبتہ ہے، تو کس طرح۔ یہ ساری باتیں ہم تفصیل میں وضاحت کرتے ہیں، تاکہ آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔

وَاعلَم : جس کو آپ اردو میں کہتے ہیں نوٹ، عربی کتب میں ہوتا ہے "وَاعلَم "،تو جان یعنی یہ ایک علیحدہ، ایک نوٹ ہے، ایک نکتہ اور ایک علمی بات ہے، جو سمجھانا چاہتے ہیں۔ فرماتے ہیں: "إِنَّهُ لَا بُدَّ لِلْقَسَمِ مِنْ جَوَابٍ" کہ جہاں بھی کوئی قسم ہوتی ہے، لَا بُدَّ کا معنی ہوتا ہے ضروری ہے، لازم ہے۔ تو ضروری ہے کہ اس قسم کا کوئی جواب بھی ہو۔ یہ جو بندہ قسم اٹھا رہا ہے، تو اگر جو بات کرے گا، ہر اسی بات کو جوابِ قسم کہتے ہیں، کہ یہ قسم کس بات کی خاطر اٹھائی ہے، کیا بتانے کے لیے اٹھائی ہے۔ وہ جو اگلی بات ہوتی ہے، اسی کو کہتے ہیں جواب قسم۔

فرماتے ہیں: ہر قسم کے لیے لَا بُدَّ (ضروری ہے) مِنَ الجَوَابٍ (اس کے قسم کا جوابِ قسم ہونا)۔ اب جوابِ قسم، جیسے میں نے آپ کو پہلے سمجھایا ہے، یا وہ جملہ اسمیہ ہوگا، یا فعلیہ۔ فرماتے ہیں: اگر اس قسم کا جواب جملہ اسمیہ ہے تو اس جملہ اسمیہ کی بھی دو قسمیں ہیں۔ میں نے آپ کو اردو میں آسان سمجھایا ہے: مثبت کا معنا ہوتا ہے کہ کوئی کہے کہ یہ کروں گا، اور منفی کا معنا ہوتا ہے کہ کوئی کہے یہ نہیں کروں گا۔

فرماتے ہیں: اب اردو میں آپ نے جملہ یوں لکھنا ہے اگر قسم کا جوابِ قسم جملہ اسمیہ ہو اور وہ جملہ اسمیہ ہو بھی مثبتہ، کسی کام کے کرنے کی بات کر رہے ہو، تو واجب ہے أَنْ تَكُونَ (کہ وہ جملہ اسمیہ مصدَّرَةً شروع ہونے والا ہو، یا شروع کیا گیا ہو)۔ کس سے؟ بِاِنَّ أَوْ بِاللَّامِ (یا "أَنْ" کے ساتھ، یا لام کے ساتھ)۔ یعنی اگر وہ جوابِ قسم جملہ اسمیہ مثبتہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جملہ اسمیہ مثبتہ کو شروع کیا گیا ہو بِاِنَّ أَوْ بِاللَّامِ (یا "أنْ" لگا جائے، یا لام ابتداء)۔

مثال بہت آسان سمجھائی ہے۔ فرماتے ہیں: نَحْوُ (مثال)۔ وہ جیسے ہم نے کہا: "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)، یہ ہو گئی قسم۔ اب ہمیں چاہیے اس کا جوابِ قسم۔ اب جوابِ قسم کیا تھا؟ "زَيْدٌ قَائِمٌ" (زید کھڑا ہے)۔ "زَيْدٌ" مبتدا، "قَائِمٌ" اس کی خبر۔ یہ تھا جملہ اسمیہ۔ تو اب لازم ہے کہ اس سے پہلے یا "اِنَّ" لگائیں۔ آپ کیا کہیں؟ آپ کہیں: "وَاللَّهِ اِنَّ زَيْداََ قَائِمٌ"، یا اس طرح کہنا ہوگا، یا لام ابتداء لگانی ہوگی۔ یعنی کیا؟ یا ہم کہیں گے: "وَاللَّهِ لَزَيْدٌ قَائِمٌ" (یعنی زید سے پہلے اس پر لام ابتداء لگائی)۔ یہ واجب ہے۔ یعنی اگر ہم کہیں: "وَاللَّهِ زَيْدٌ قَائِمٌ"، تو یہ عربی گرامر کے لحاظ سے درست نہ ہوگا۔ بلکہ ہمیں یہ کہنا ہوگا: "وَاللَّهِ اِنَّ زَيْداََ قَائِمٌ"، یا ہم کہیں: "وَاللَّهِ لَزَيْدٌ قَائِمٌ

یہ تو تب تھا کہ اگر جملہ اسمیہ مثبتہ تھا۔ آگے فرماتے ہیں: "وَإِنْ كَانَتْ مَنْفِيَّةً" (لیکن اگر وہ جوابِ قسم جملہ اسمیہ تھا، لیکن جملہ اسمیہ منفیہ، یعنی کوئی کام نہ کرنے کے بارے میں قسم اٹھائی جا رہی تھی)، تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کیا؟ فرماتے ہیں: اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ "مَكَانَتَهُ مُصَدَّرَةً بِمَا أَوْ لَا أَوْ إِنْ" (اگر وہ جملہ اسمیہ منفیہ ہے، تو پھر ضروری ہے کہ اس جملے کی ابتدا میں یا عربی میں "مَا" کو لایا جائے، یا "لَا" کو ذکر کیا جائے، یا "إِنْ" کو)۔

یعنی "إِنْ" کے علاوہ، اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ جملہ اسمیہ منفیہ جوابِ قسم ہو، تو یہ درست نہیں ہوگا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)، یہ ہو گئی قسم۔ آگے اگر ہے تو "زَيْدٌ قَائِمٌ" (زید کھڑا ہے)، تو جملہ اسمیہ۔ لیکن اگر منفیہ ہے، تو ہم یوں کہنا پڑے گا: "وَاللَّهِ مَا زَيْدٌ قَائِمٌ" (اللہ کی قسم، زید کھڑا نہیں ہے)، یا یوں کہنا ہوگا، یا کہیں گے: "وَاللَّهِ لَا زَيْدٌ فِي الدَّارِ" (اللہ کی قسم، زید گھر میں نہیں ہے)، یا "وَلَا عَمْرٌو" (اور عمر بھی نہیں ہے)۔ "دَارٍ" کہتے ہیں گھر کو۔ یا کہنا ہوگا: "وَاللَّهِ إِنَّ زَيْدًا قَائِمٌ" (اللہ کی قسم، زید کھڑا ہے)۔ تو پس اس جوابِ قسم جو جملہ تھا، اس کے ابتدا میں یا "مَا" کہنا ہوگا، یا "لَا" کہنا ہوگا، یا "إِنْ"۔ ٹھیک ہے جی؟ البتہ "إِنْ" کی قسم نہیں ہے، یہاں مراد "إِنْ نافیہ"ہے۔

خوب! یہ تو وہ باتیں تھیں کہ اگر جوابِ قسم جملہ اسمیہ تھا، تو ہم نے کہا ہے: اگر مثبتہ ہوگا، تو اس کو اس انداز میں لانا ہے، عربی گرامر کے لحاظ سے اور اگر منفیہ ہے، تو اس انداز سے۔ اب فرماتے ہیں: اگلا حصہ۔ "وَإِنْ كَانَ جَوَابُهُ جُمْلَةً فِعْلِيَّةً" (اگر جوابِ قسم جملہ فعلیہ ہے)، تو اب جملہ فعلیہ میں بھی پھر وہی بات ہوگی: یا وہ جملہ فعلیہ مثبتہ ہوگا، یا وہ منفیہ ہوگا۔ مثبتہ کا معنا کیا؟ جیسے میں نے پہلے گزارش کی ہے کہ یا وہ یہ بتانا چاہ رہے ہوں گے کہ یہ کام ہوگا، یا ہوگا کہ یہ نہیں ہوگا۔

اب فرماتے ہیں: "فَإِنْ كَانَتْ مُثْبَتَةً" (اگر وہ جملہ فعلیہ مثبتہ ہے، کہ کسی کام کے انہیں قسم ہے)، تو پھر "كَانَتْ مُصَدَّرَةً بِاللَّامِ وَقَدْ أَوْ بِاللَّامِ وَحْدَهُ" بہت توجہ! اگر قسم آپ لکھیں کاپی پر تو یوں لکھیں گے: اگر قسم کا جوابِ قسم جملہ فعلیہ مثبتہ ہوگا، تو پھر اس جملہ کو شروع کیا جائے گا یا لام اور قد دونوں کو ذکر کر کے، یا فقط لام کو) اگر ایسا نہیں کریں گے، تو عربی گرامر کے لحاظ سے وہ جملہ درست نہیں ہوگا۔

مثلاً ہم کہتے ہیں: "وَاللَّهِ لَقَدْ قَامَ زَيْدٌ" (اللہ کی قسم، یقیناً زید کھڑا ہوا)  آپ نے دیکھا کہ "قَامَ" فعل تھا، "زَيْدٌ" اس کا فاعل تھا، جملہ فعلیہ تھا۔ لیکن اس سے پہلے لام اور قد، "لَقَدْ" (یعنی لام اور قد دونوں کو  ذکر کیا گیا)یا فقط لام کو: "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)۔ "لَأَفْعَلَنَّ كَذَا" (میں ضرور ایسا کروں گا)۔ اب "لَأَفْعَلَنَّ" (افعل) صیغہ واحد متکلم کا، اور اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ لگی ہوئی ہے۔ اب اس پر "لَأَفْعَلَنَّ"  فقط  لام نہ آئیے۔ پس لہٰذا "وَاللَّهِ لَأَفْعَلَنَّ" نہیں، بلکہ کہنا ہے: "وَاللَّهِ لَأَفْعَلَنَّ كَذَا" (اللہ کی قسم، میں ایسا ضرور کروں گا)۔ "كَذَا" (ایسا)۔ جو بھی مجھے کرنا ہوگا۔ ٹھیک ہے۔

"وَاللَّهِ لَقَدْ قَامَ زَيْدٌ" (اللہ کی قسم، یقیناً زید کھڑا ہوا)۔ یہ تو تھا کہ اگر وہ جملہ فعلیہ مثبتہ تھا۔ اب آگے: "وَإِنْ كَانَتْ مَنْفِيَّةً" (اگر وہ جملہ فعلیہ لیکن ہے منفیہ، جملہ فعلیہ مثبتہ نہیں، بلکہ منفی ہے)، اگر منفیہ ہے، بہت توجہ! اس کی اب ترتیب بنائیں گے، تو ڈھیر ساری اقسام بن جائیں گی۔ اب بھی دوبارہ گذارش کرتا ہوں: اگر منفیہ ہے، تو پھر دیکھنا ہوگا آیا اس میں جو فعل استعمال ہوا ہے، آیا وہ فعل فعلِ ماضی ہے، یا وہ فعل فعلِ مضارع ہے۔ ہم صرف میں اس کو بار بار پڑھ چکے ہیں کہ "ضَرَبَ" ماضی ہوتا ہے، "يَضرِبُ" مضارع ہوتا ہے۔ "نَصَرَ" ماضی ہوتا ہے، "يَنْصُرُ" مضارع ہوتا ہے۔ "شَرَفَ" ماضی ہوتا ہے، "يَشْرُفُ" مضارع ہوتا ہے۔

تو اب فرماتے ہیں کہ اگر جوابِ قسم جملہ فعلیہ منفیہ ہو، تو پھر اس کی دو قسمیں ہیں:

  1. "فَإِنْ كَانَت فِعْلًا مَاضِيًا" (اگر وہ جملہ فعلیہ منفیہ ہے، اور اس میں جو فعل استعمال ہوا ہے، اگر ہے وہ فعل ماضی ہے)، "كَانَتْ مُصَدَّرَةً بِمَا" (تو وہاں ضروری ہے کہ اس جملہ فعلیہ سے پہلے اس کو شروع کیا جائے مُصَدَّرَةً، کہتے ہیں انہیں شروع کیا جائے کس کے ساتھ؟ بِمَا، یعنی حرفِ کلمہِ "مَا" کے ساتھ)۔ اس سے پہلے "مَا" کو ذکر کیا جائے۔ جیسے کہتے ہیں: مِثْلًا "وَاللَّهِ مَا قَامَ زَيْدٌ" (اللہ کی قسم، زید کھڑا نہیں ہوا)۔ اب دیکھو: "وَاللَّهِ" یہ ہو گئی قسم۔ "مَا قَامَ زَيْدٌ" (جوابِ قسم)۔ "مَا" (نفی)، "قَامَ" (فعل ماضی ہے)، اور "زَيْدٌ" اس کا اسم فاعل ہے۔ چونکہ یہ منفی تھا، تو "قَامَ" سے پہلے "مَا" کو ذکر کیا گیا۔ "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)۔ "مَا قَامَ زَيْدٌ" (زید کھڑا نہیں ہوا)۔

  2. "وَإِنْ كَانَ فِعْلًا مُضَارِعًا" (اور اگر وہ فعل فعلِ مضارع ہے، یعنی جو جملہ فعلیہ میں فعل استعمال ہوا ہے، وہ فعل فعلِ مضارع ہے)، "كَانَتْ مُصَدَّرَةً" (تو وہاں ضروری ہے کہ یا اس کی ابتدا میں "مَا" ہو، نمبر دو یا ابتدا میں "لَا" ہو، نمبر تین یا اس کی ابتدا میں "لَنْ" ہو)۔ "لَنْ" (وہ جو چار حروف نفی ہیں، اَن،لَن،کَی،اِذَن، ان میں سے کوئی ایک ہوگا)، تب جا کر یہ جملہ فعلیہ منفیہ بنے گا۔ اگر یہ نہیں ہوں گے، تو پھر وہ جملہ فعلیہ منفیہ نہیں بن سکتا۔

جیسے: "وَاللَّهِ" (اللہ کی قسم)، یہ تو ہو گئی قسم۔ "مَا أَفْعَلَنَّ كَذَا" (فعل مضارع اگر مستقبل کا معنی کریں گے، مَن یہ کام ہرگز نہیں کروں گا)، یا کہے: "وَاللَّهِ لَا أَفْعَلَنَّ كَذَا" (اللہ کی قسم، میں یہ کام نہیں کروں گا)، یا "لَن أَفْعَلَنَّ كَذَا"، یا "اللَّهِ" (اللہ کی قسم)، "میں یہ کام ایسا نہیں کروں گا"۔

 تو پس اب ذرا اس وَاعلَم میں جو نکتہ آپ کو سمجھایا گیا ہے، وہ نکتہ یہ تھا: اس مقام میں اس حد تک کہ یا ہر قسم کو ایک جوابِ قسم چاہیے ہوتا ہے۔ ایک سطر یہاں ختم کر دیں۔

 نمبر دو: وہ جوابِ قسم یا جملہ اسمیہ ہوگا، یا جملہ فعلیہ ہوگا ۔

دوسری سطر: جملہ اسمیہ یا مثبتہ ہوگا، یا منفیہ ہوگا۔ یہاں ختم ۔ 

مثالیں سب کی یہاں کتاب میں موجود ہیں۔ اور اگر جملہ فعلیہ ہوگا، تو پھر اس کی وہی بات ہے: یا وہ مثبتہ ہوگا، یا منفیہ ہوگا۔ اگر منفیہ ہوگا، تو پھر دیکھنا ہوگا کیا اس میں فعل ماضی استعمال ہوا ہے، یا فعل مضارع ۔ ہر جملے کا آغاز کس حرف سے، کس سے کرنا ہے، سب کی مثالیں ہم نے یہاں پر پڑھ لی ہیں۔

یہ بات جہاں پر مکمل ہوئی، اگلی بات اب یہاں سے یہ شروع ہو رہی ہے۔

قَد یَکُونُ جَوابُ القَسمِ مَحذُوفاََ بہت توجہ! ہم نے پیچھے کیا کہا ہے کہ ہر قسم کو ایک جوابِ قسم چاہیے ہوتا ہے، اور وہ جملہ جوابِ قسم یا اسمیہ ہوگا، یا فعلیہ۔ وہ بات مکمل ہوگی۔

 آگے فرماتے ہیں: کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ قسم تو ہوتی ہے، لیکن اس کا جوابِ قسم لفظوں میں، عبارت میں موجود نہیں ہوتا، ہوتا ہے، لیکن وہ محذوف ہوتا ہے، یعنی اس کو لفظاََ میں ذکر نہیں کیا جاتا۔ اچھا، وہ کیسے؟ وہ کہاں پر؟ فرماتے ہیں: وہ یہ ہے، اگر کوئی قسم کسی ایسے جملے کے بعد واقع ہو، کہ وہ جملہ جوابِ قسم واقع ہو سکتا ہو، تو ایسے مقام پر بھی جوابِ قسم والا جملہ محذوف ہوتا ہے۔

دوبارہ اس کو غور کریں اور لکھ لیں کہ
ایک : اگر کوئی قسم کسی ایسے جملے کے بعد واقع ہو، جو جملہ جوابِ قسم بن سکتا ہو، یعنی جوابِ قسم کی طرح ہے، لیکن ہے قسم سے پہلے، تو ایسے مقام پر بھی قسم کا جوابِ قسم محذوف ہوگا ۔
دو، یا قسم ایک ایسے جملے کے درمیان  میں واقع ہو، کہ آدھا جملے کا حصہ اس قسم سے پہلے ہے آدھا بعد میں ہے اور قسم ان کے درمیان میں واقع ہوئی ہے اور جملہ بھی جوابِ قسم بھی بن سکتا ہے تو ایسے مقام پر بھی جملہ جوابِ قسم محذوف ہوگا یعنی لفظاََ ذکر نہیں ہوگا ۔

مثال دوبارہ غور کریں : قَد یَکُونُ جَوابُ القَسمِ مَحذُوفاََ ، کبھی کبھی جواب قسم محذوف ہوتا ہے یعنی وہ لفظا ذکر نہیں ہوتا وہ کب ہوتا ہے ؟ فرماتے ہیں دو مقام ایسے ہیں جہاں جواب قسم محذوف ہوتا ہے ۔

1- اِن کَانَ قَبلَ القَسَمِ جُملَتاََ ، اگر قسم سے پہلے ایسا جملہ ہو ،کَالجُملَۃِ الَّتِی وَقَعَت جَوابُہ ، مثل اُسی جملے کے کہ جیسے جملے نے اس قسم کا جواب واقع ہونا تھا یعنی اگر قسم سے پہلے جواب قسم کے جملے کی طرح کا جملہ قسم سے پہلے موجود ہو تو وہاں قسم کا جواب قسم محذوف ہوتا ہے جیسے مثل زَیدٌ عَالِمٌ وَاللہِ ، اب دیکھیں زیدٌ عالِمٌ جملہ اسمیہ پہلے آگیا اور قسم آگئی بعد میں اب اگر قسم پہلے ہوتی تو ہم اسے پڑہتے کہ وَاللہِ اِنَّ زَیداََ عَالِمٌ ، لیکن اب ہم کھیں کہ وَاللہِ سے پہلے زَیدٌ عَالِمٌ ایک ایسا جملہ ہے جو اس جملے کی طرح ہے جس نے جواب قسم بننا تھا  لھاذا وَاللہِ کا جوابِ قسم اِنَّ زَیداََ عَالِمٌ محذوف ہے ۔

2-  دوسرا مقام وہ ہے اَو کَانَ القَسَمُ یا قسم ایسے مقام پر واقع ہو بَینَ الجُملَۃِ المَذکُورَۃِ ایک ایسے جملے کے درمیان میں آجائے کہ جو جملہ مثل اسی جملے کے ہو کہ جو جواب قسم بن سکتا ہے جیسے اسی مثال کو لے لیں زَیدٌ وَاللہِ عَالِمٌ ، اب اصل جملہ تھا زَیدٌ عَالِمٌ ، زید مبتدا تھا درمیان میں واللہ قسم آگئی اس کے بعد آگیا عَالمٌ اب اس مقام پر بھی واللہ جو قسم ہے اس کا جواب قسم محذوف ہے وہ کیا ہے وَاللہِ اِنَّ زَیداََ عَالِمٌ چونکہ زید اور عالم کے درمیان واللہ قسم آگیا اور یہ جملہ بھی اسی جملے کی طرح ہے جس نے جواب قسم بننا تھا تو اس مقام پر بھی جواب قسم محذوف ہوگا ۔

جُذُوعِ النَّخْلِ [طه: ٧١]، والكاف للتشبيه، نحو: «زيـــد كالأسد»، وقد تكون زائدة، نحو قوله تعالى: ﴿وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شيء [الشورى: ۱۱]، ومذ ومنذ لابتداء الغاية في الزمان الماضي، نحو: «ما رأيته مذ يوم الجمعة أو منذ يوم الجمعة» أي: ابتداء عدم رؤيتي إيّاه كان يوم الجمعة إلى الآن، وقد تكونان بمعنى جميع المدة، نحو: «ما رأيته مذ يومين أو منذ يومين» أي: جميع مدّة انقطاع رؤيتي إيّاه يومان. ورُبَّ للتقليل، ولا يكون مجرورها إلّا نكرة موصوفة، ولا يكون متعلَّقه إلّا فعلاً ماضياً، نحو: «رُبَّ رجل كريم لقيته»، وقد تدخل على الضمير المبهم، ولا يكون تمييزه إلّا نكرة موصوفة، نحو: «ربه رجلاً جواداً لقيته». والواو للقسم، وهي لا تدخل إلّا على الاسم الظاهر لا على المضمر، نحو: «والله لأشربنّ اللبن»، وقد تكون بمعنى رُبَّ، نحو: «وعالم يعمل بعلمه» أي: رُبَّ عالم يعمل بعلمه. والتاء للقسم، وهي لا تدخل إلّا على اسم الله تعالى، نحو: تالله لأضر بنّ زيداً».

اعلم أنّه لا بدّ للقسم من الجواب؛ فإن كان جوابه جملة اسميّة؛ فإن كانت مثبَتة وجب أن تكون مصدّرة بـ«إنّ»

أو «لام الابتداء»، نحو: «والله إنّ زيداً قائم»، و«والله لَزيـــد قائم»، وإن كانت منفيّة كانت مصدّرة بـ«ما» و«لا» و«إنْ»، مثل: «والله ما زيد قائماً»، و«والله لا زيد في الدار ولا عمرو»، و «والله إنْ زيد قائم». وإن كان جوابه جملة فعليّة فإن كانت مثبَتة كانت مصدّرة باللام و«قد» أو باللام وحده، مثل: «والله لقد قام زيد»، و«والله لأفعلنّ كذا»، وإن كانت منفيّة فإن كانت فعلاً ماضياً كانت مصدّرة بـ «ما»، مثل: «والله ما قام زيد». وإن كانت فعلاً مضارعاً كانت مصدّرة بـ«ما» و«لا» و «لن»، مثل: «والله ما أفعلنّ كذا»، و«والله لا أفعلنّ كذا»، و«والله لن أفعل كذا». وقد يكون جواب القسم محذوفاً إن كان قبل القسم جملة كالجملة التي وقعت جوابه، مثل: «زيد عالم والله» أي: والله إنّ زيداً عالم، أو كان القسم واقعاً بين الجملة المذكورة، مثل: «زيد والله عالم» أي: والله إنّ زيداً عالم، وحاشا وخلا وعدا، كلّ واحد منها للاستثناء، مثل: «جاءني القوم حاشا زيد وخلا زيد وعدا زيد». وقال بعضهم: إنّ الاسم الواقع بعدها يكون منصوباً على المفعوليّة فحينئذ تكون هذه الألفاظ أفعالاً، والفاعل فيها ضمير مستتر دائماً؛ فالمثال المذكور في