وَ رُبَّ حروف جارہ میں سے ایک حرف ہے رُبَّ ! اب "رُبَّ" کیا کرتا ہے؟ فرماتے ہیں: ایک تو وہی جو اُن کا حروف جارہ کا کام ہے، یعنی اسم کو جر دیتے ہیں۔ یہ "رُبَّ" تقلیل کا معنی دیتا ہے۔ تقلیل اردو میں ہم کہتے ہیں: جو کام کبھی کبھار ہونا۔ کبھی کبھی ہونا۔ تکثیر (اکثر ہونا)، تقلیل (کبھی کبھار ہونا) تقلیل جو کبھی کبھار ہو، تکثیر جو اکثر ہوتا ہو۔ خوب! اب یہ "رُبَّ" کبھی کبھار، یعنی تقلیل کا معنی دیتا ہے۔ لیکن اس میں کچھ شرائط ہیں۔ اب ان کو ذرا غور سے سمجھنا ہے، اور اسی پر درس مکمل کریں۔
کون سا "رُبَّ"؟ جیسے اسم پر داخل ہوتا ہے۔ بہت غور کریں۔ "رُبَّ" جیسے اسم پر داخل ہوگا:
	- 
	وہ اسم نکرہ ہوگا، معرفہ نہیں۔ 
- 
	وہ موصوفہ ہوگا، یعنی اس کے ساتھ اس کی کوئی صفت بھی ذکر ہوگی۔ 
- 
	اس کا متعلَق فعل ماضی ہوگا۔ 
اب ذرا غور کریں کہ "رُبَّ" آتا ہے کس کے لیے؟ تقلیل کے لیے، لیکن تین شرائط کے ساتھ:
	- 
	"رُبَّ" جیسے اسم پر داخل ہوگا، وہ اسم نکرہ ہوگا، معرفہ نہیں۔ 
- 
	موصوفہ، یعنی اس کے ساتھ اس کی صفت بھی ذکر ہوگی۔ 
- 
	اور اس کا جو متعلق ہے، وہ متعلق فعل ماضی ہوگا، کوئی اور فعل نہیں ہوگا۔ 
آگے مثال لیں گے، سارا واضح ہو جائے گا۔ جیسے: "رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ"۔ "رُبَّ" داخل ہوئے "رَجُلٍ" پر۔ "رَجُلٍ" نکرہ، "كَرِيمٍ" یہ اس کی صفت ہے۔ تو ہم کہیں گے: "رَجُلٍ" نکرہ، موصوفہ۔ لیکن اس کا متعلق کیا ہے؟ وہ ہے "لَقِيتُهُ"۔ "لَقِيتُ" صیغہ واحد متکلم، فعل ماضی ہے۔ خوب! اب اس کا ہم ترجمہ کیا کریں گے؟ ذرا غور کریں۔"رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ"۔ بلکہ یہاں سے شروع کرتے ہیں، تاکہ آپ کا سارا مطلب آسان ہو جائے
۔ کہ "وَرُبَّ لِلتَّقْلِيلِ" (اور "رُبَّ" تقلیل کے لیے ہے)۔ "رُبَّ" تقلیل کے معنی بیان کرتا ہے، یعنی کبھی کبھار کے معنی۔ "وَلَا يَكُونُ مَجْرُورُهُ" (اور جو "رُبَّ" کا مجرور ہوتا ہے، وہ نہیں ہوگا) "إِلَّا نَكِرَةً مَوْصُوفَةً" (مگر نکرہ موصوفہ)۔ یعنی کیا؟ کہ جس پر "رُبَّ" داخل ہوتا ہے، وہ کیا ہوتا ہے؟
	- 
	نکرہ ہوتا ہے۔ 
- 
	موصوفہ، یعنی اس کی صفت بھی موجود ہوتی ہے۔ 
- 
	"وَلَا يَكُونُ مُتَعَلَّقُهُ إِلَّا فِعْلًا مَاضِيًا" (اور اس کا متعلق ہمیشہ فعل ماضی ہوتا ہے)۔ 
ٹھیک ہے۔ نَحْو: "رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ" (کبھی کبھار ایک کریم آدمی سے میری ملاقات ہوئی)۔ "كرِيمٍ" بندے، تقویٰ والے بندے، شریف بندے، صاحبِ کرامت بندے۔ بہت کم ایسے ہیں۔ "لَقِيتُهُ" (جس سے میں نے ملاقات کی) یعنی آپ کہیں گے: جن سے ملاقات کی ہے، ان میں کریم لوگ بہت کم ہیں۔ یہ یوں کہیں کہ بہت کم کریم لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ہے، ورنہ اکثر سارے مطلب اور طمع کے لوگ ہوتے ہیں ختم۔
وَقَدْ تَدْخُلُ عَلَىٰ ضَمِيرِ الْمُبْهَمِ (اور کبھی کبھی یہ "رُبَّ" ضمیرِ مبہم پر بھی داخل ہوتا ہے)۔ یعنی ضروری نہیں کہ "رُبَّ" ہمیشہ اسم ظاہر پر ہو۔ جیسے ہم نے "حَتَّى" کے بارے میں کہا تھا کہ "حَتَّى" ہمیشہ اسم ظاہر پر داخل ہوتا ہے۔ "رُبَّ" کبھی کبھی ضمیر پر بھی داخل ہوتا ہے۔ لیکن "وَلَا يَكُونُ تَمْيِيزُهُ إِلَّا نَكِرَةً مَوْصُوفَةً" (لیکن وہ جو ضمیرِ مبہم ہوگی، تو آگے کوئی نہ کوئی اس کی تمیز ہوگی، جو اس ضمیر میں پائے جانے والے ابہام کو دور کر رہی ہوگی)۔ تو وہ جو تمیز ہوگی، پھر وہ تمیز نکرہ موصوفہ ہوگی۔
مثال: "رُبَّهُ قَلِيلٌ" (کبھی کبھار وہ کم ہیں)۔ اب وہ ضمیر ہے، کہ یہ کن کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ "قَلِيلٌ" وہ ضمیر ہے نا؟ اب اسے تو کوئی پتہ نہیں ہے کہ کس کی بات کر رہا ہے، لیکن آگے کہتا ہے: "رَجُلًا جَوَادًا" (ایک سخی آدمی)۔ "رَجُلًا" نکرہ، "جَوَادًا" اس کی صفت۔ کہ کم ایسے ہیں۔ یہ ہو گیا۔ پہلے ضمیر، "رَجُلًا جَوَادًا" یہ "هُوَ" اور "رُبَّهُ" میں جو "هُوَ" ہے، اس "هُوَ" کی تمیز ہے۔ یعنی اس کو ہی واضح کر رہے ہیں کہ اس "هُوَ" سے مراد کیا ہے؟ کہ کم ایسے ہیں "رَجُلًا جَوَادًا" (سخی لوگ، سخی مرد)۔ "لَقِيتُهُ" (جن کو میں ملا ہوں)۔ اب یہاں "رُبَّهُ" ڈائریکٹ ضمیر پر آیا، لیکن ضمیر کی جو تمیز، جس نے اس ضمیر کو واضح کیا کہ اس سے مراد کیا ہے، وہ ہے "رَجُلًا جَوَادًا"۔ "رَجُلًا" نکرہ، "جَوَادًا" اس کی صفت۔ یہ نکرہ موصوفہ۔