درس شرح مائة عامل

درس نمبر 7: اسم کو فقط جر دینے والے حروف 6

 
1

خطبہ

2

کَاف حرف جر کے معانی

وَالْکَافُ لِلتَّشْبِيهِ (کاف تشبیہ کے لیے ہے)۔ موضوع بس ہمارا حروف جارہ ہیں۔ حروف جارہ میں سے ایک حرف ہے یہ "کاف"۔ جہاں اسم کو جر دیتی ہے، یہ تشبیہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ کیا مطلب؟ ایک ہوتا ہے مُشَبَّہ اور ایک ہوتا ہے مُشَبَّہ بِہ۔ جس چیز کو تشبیہ دیں گے، وہ ہو جائے گا مُشَبَّہ ۔ جس کے ساتھ تشبیہ دیں گے، وہ ہو جائے گا مُشَبَّہ بہ۔ انہوں نے مثال بڑی  پیاری دی ہے: "زَيْدٌ كَالْأَسَدِ" (زید شیر جیسا ہے)۔ زید ہے مُشَبَّہ، "أَسَد" ہے مُشَبَّہ بِہ۔ اس کو کہتے ہیں کہ زید کو شیر کے ساتھ تشبیہ دیں۔ خوب! یہ تشبیہ کیا ہے؟ یہ جو کاف تشبیہ کے لیے جب آئے، تو یہ بتاتی کیا ہے؟ بڑا غور کرنا، یہ لفظ جہاں کتاب میں نہیں لکھا ہو، اس کو یاد کریں، کہ پھر کبھی نہیں بھولے گا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ "زَيْدٌ كَالْأَسَدِ"، یہاں کاف، کافِ تشبیہ ہے۔ اس تشبیہ کا مطلب کیا ہے؟ بہت غور کریں۔ اب یہ کتاب پڑھنے ہے، اس کو ویسے کاپی پر لکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ جو "أَسَد" پر کاف آ رہی ہے، یہ کاف کہہ رہی ہے: جناب "أَسَد" صاحب، جناب شیر صاحب، آپ دلیر ہونے میں، دلیری والی صفت میں، اکیلے نہیں، کوئی اور بھی آپ کے ساتھ شریک ہے۔ یہ "زَيْدٌ كَالْأَسَدِ"۔ گویا یہ کاف جو "أَسَد" پر داخل ہوئی ہے، یہ کاف "أَسَد" کو کہہ رہی ہے کہ جناب جنگل کے شیر صاحب، فقط آپ بہادر اور دلیر نہیں، اس دلیری میں زید بھی آپ کے ساتھ شریک ہے۔ یہ ہوتی ہے تشبیہ۔ یعنی وہ کاف بتاتی ہے کہ مُشَبَّہ بِہ کو جو صفت آپ میں پائی جاتی ہے، وہ فقط آپ میں نہیں، بلکہ کوئی اور بھی اس میں آپ کا شریک ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں: "زید شیر جیسا ہے"، ہم اپنے گھروں میں کہتے ہیں: ہمارا بیٹا شیر ہے، ہمارا بھائی شیر ہے۔ یہ کیا مطلب؟ یعنی وہ بہادری اور دلیری والی صفت جو "أَسَد" میں، جو شیر میں پائی جاتی ہے، وہ اس میں بھی پائی جاتی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟ بس اتنا فی الحال تشبیہ کا معنا کافی ہے۔ اور بھی بہت ساری باتیں ہیں، وہ ان شاءاللہ فی علم معانی و بیان میں آپ کو سمجھائیں گے۔

وَالْکَافُ حروف جارہ میں سے ایک ہے۔ کاف کا عمل کیا کرتی ہے؟ آپ کہیں گے: اسم کو جر دیتی ہے۔ معنی کیا دیتی ہے؟ لِلتَّشْبِيهِ (تشبیہ کے لیے)۔ کاف آتی ہے تشبیہ کے لیے، یعنی کاف بتاتی ہے کہ میرا ماقبل کسی صفت میں میرے مابعد کے ساتھ شریک ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "زَيْدٌ كَالْأَسَدِ" (زید شیر جیسا ہے)۔ یعنی کیا مطلب؟ کہ یہ زید بہادری اور دلیری کی صفت میں شیر کے ساتھ شریک ہے۔

وَقَدْ تَكُونُ زَائِدَةً (اور کبھی کبھی یہ کافِ زائدہ ہوتی ہے)۔ کئی دفعہ پیچھے بھی گزارش کیا ہے، زائدہ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یعنی اگر یہ نہ بھی ہو، تو معنی میں خلل نہیں پڑتا۔ اس لحاظ سے زائدہ ہوتی ہے۔ لیکن ممکن ہے کسی اور لحاظ سے اس کا یقیناً کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہوگا۔ اس لیے کہ قرآن جو ہے، وہ زوائد اور حشو سے تو خالی ہے۔ اس کا تو کوئی حرف بھی ایسا نہیں ہے، جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ ہم جو زائدہ کہہ رہے ہیں، اس عنوان سے کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ نہ بھی ہو، تو معنی پر فرق نہیں پڑتا۔ جیسے قرآنِ مجید میں آیا ہے: "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ"۔ بہت غور کریں۔ اگر ہم اس کاف کو بھی زائدہ نہ سمجھیں، اور ہم کہیں کہ کاف بھی تشبیہ کے لیے ہے، بمعنی مثل کے لیے ہے، تو پھر ترجمہ غلط بن جائے گا۔ پھر کیا ہوگا؟ "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ" یعنی "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ" (اس کی مثل جیسی کوئی چیز نہیں)۔ تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی کوئی مثل تو ہے، لیکن مزید اس جیسی ،  یہ غلط ہے۔ بلکہ یہاں ہم کاف کو زائد سمجھیں: "لَيْسَ مِثْلُهِ شَيْءٌ" (اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، ہی نہیں، اس کی کوئی مثل نہیں)۔

3

مُنْذُ اور مُذْ کے معانی

حروف جارہ میں سے دو حرف اور ہیں: ایک ہے "مُنْذُ"، اور ایک ہے "مُذْ"۔ "مُنْذُ" اور "مُذْ" یہ کیا معنی دیتے ہیں؟ یہ کس کے لیے آتے ہیں؟ "مُنْذُ" اور "مُذْ" بہت غور کرنا ہوگا، اس کی بڑی لمبی بحث ہے۔ "مُنْذُ" اور "مُذْ"۔ اب پہلے تھوڑا آسان سمجھ لیں، پھر اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ "مُنْذُ" اور "مُذْ" یہ بتاتے ہیں ابتداءِ غایت کو۔ یعنی انتہاء تو ہمیں پتہ ہے، لیکن اس کی ابتداء کب سے ہوئی تھی؟ یہ "مُنْذُ" اور "مُذْ" اس کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی آگے لکھا ہے  : "فِي الزَّمَانِ الْمَاضِي" (زمانہ ماضی میں)۔ اب ذرا غور کریں کہ جو کام زمانہ ماضی میں ہوا، اس کی ابتداء کب سے تھی؟ کام ہوا ہے زمانہ ماضی میں، لیکن اس کی ابتدا ءکب سے تھی؟ یہ ابتداء کب سے تھی، اس کو یہ "مُنْذُ" اور "مُذْ" بیان کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بیان کرتے ہیں، کبھی ایک اور معنی بیان کرتے ہیں، بِمعنی جَمِيعِ الْمُدَّةِ (کہ صرف ابتدا نہیں بتاتے، بلکہ اس کی پوری مدت کو بیان کرتے ہیں)۔ کہ یہ کام کتنے عرصے سے ہوا، کتنے عرصے تک ہوا، اس کو بھی بیان کرتے ہیں۔

فرماتے ہیں: "مُذُّ" اور "مُنذُ" لِابْتِدَاءِ الْغَايَةِ (غایت کی ابتدا کو) یہ بتاتے ہیں غایت کی ابتدا کو، یعنی کسی انتہا کی ابتدا بتاتے ہیں، "فِي الزَّمَانِ الْمَاضِي" (زمانہ ماضی میں)۔ کہ ایک کام زمانہ ماضی میں ہوا، لیکن وہ بتاتے ہیں کہ وہ کب سے ہو رہا تھا، وہ کب سے۔ یہ "مُنْذُ" اور "مُذْ" بیان کرتے ہیں۔

نَحْو: "مَا رَأَيْتُهُ مُنْذُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" (میں نے اس کو جمعہ کے دن سے نہیں دیکھا)۔ اب "رَأَيْتُ" واحد متکلم، ماضی معلوم ہے۔ "رَأَيْتُ" (میں نے دیکھا)۔ "مَا رَأَيْتُهُ" (میں نے اس کو نہیں دیکھا)۔ "مُنْذُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ" (جمعہ کے دن سے)۔ یعنی کیا مطلب؟ کہ میرے اس کو نہ دیکھنے کی ابتدا کب سے ہوئی تھی؟ وہ ہوئی تھی جمعہ کے دن سے۔ آگے وضاحت بھی کر رہے ہیں: یعنی کیا مطلب؟ ابتداء۔  "أَبْدَأُ رُؤْيَتِي" (میرے دیکھنے کی ابتداء)۔ یعنی میرے اس کو نہ دیکھنے کی ابتدا کب سے ہوئی تھی؟ وہ تھی "يَوْمَ الْجُمُعَةِ" (جمعہ والے دن سے) لے کر ابھی اس وقت تک، یعنی سارا گزشتہ زمانہ ہے نا، اس وقت تک میں نے اس کو نہیں دیکھا۔ اس کا معنی یہ ہوتا ہے۔

وَقَدْ تَكُونَانِ بِمَعْنَى جَمِيعِ الْمُدَّةِ (اور کبھی کبھی یہ بِمَعنَی جَمِيعِ الْمُدَّةِ بھی ہوتے ہیں)۔ یعنی اس کام کے پورے عرصے کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اب ذرا غور کریں۔ ایک ہوتا ہے: ایک کام کی فقط ابتدا کو بیان کرنا۔ ابتدا تو ہوئی تھی فلاں دن سے، لیکن کتنا عرصہ ہوا، کوئی پتہ نہیں۔ اور بسا اوقات ہوتا ہے کہ نہیں، یہ بیان کرنا کہ یہ کام کتنا عرصہ ہوا۔ تو یہ "مُنْذُ" اور "مُذْ" جہاں کسی کام کے ابتدا کو بیان کرتے ہیں، وہاں یہ بمعنی جَمِيعِ الْمُدَّةِ بھی ہو سکتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ "مُنْذُ" اور "مُذْ" پوری مدت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ کام کتنا عرصہ ہوا۔ اس کی مثال دی ہے، بڑی پیاری۔ فرماتے ہیں: "وَقَدْ تَكُونَانِ" (اور کبھی کبھی یہ "مُنْذُ" اور "مُذْ" ہوتے ہیں) بمعنی "جَمِيعِ الْمُدَّةِ" (پوری مدت کے)۔ بمعنی پوری مدت کے، کیا مطلب؟ یعنی یہ فقط کام کے ابتدا کو بیان نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ اس کی پوری مدت کو بھی بیان کرتے ہیں۔ کیا مطلب؟ "رُؤْيَتِي" (میرے دیکھنے کی)۔ یعنی میرے اُس کو نہیں دیکھا "مُنْذُ يَوْمَيْنِ" (دو دن سے) یا "مُذْ يَوْمَيْنِ" (دو دن سے)۔ اُس کو نہ دیکھنے کی پوری مدت، پورا عرصہ جو میں اُس کو نہیں دیکھ سکا، وہ کیا ہے؟ "يَوْمَيْنِ فَقَط" (صرف دو دن)۔ تو کبھی کبھی یہ پورے عرصے کو بھی بیان کرتے ہیں۔ ٹھیک ہو گئے۔

4

رُبَّ حرف جر کے معانی

وَ رُبَّ حروف جارہ میں سے ایک حرف ہے رُبَّ ! اب "رُبَّ" کیا کرتا ہے؟ فرماتے ہیں: ایک تو وہی جو اُن کا حروف جارہ کا کام ہے، یعنی اسم کو جر دیتے ہیں۔ یہ "رُبَّ" تقلیل کا معنی دیتا ہے۔ تقلیل اردو میں ہم کہتے ہیں: جو کام کبھی کبھار ہونا۔ کبھی کبھی ہونا۔ تکثیر (اکثر ہونا)، تقلیل (کبھی کبھار ہونا) تقلیل جو کبھی کبھار ہو، تکثیر جو اکثر ہوتا ہو۔ خوب! اب یہ "رُبَّ" کبھی کبھار، یعنی تقلیل کا معنی دیتا ہے۔ لیکن اس میں کچھ شرائط ہیں۔ اب ان کو ذرا غور سے سمجھنا ہے، اور اسی پر درس مکمل کریں۔

کون سا "رُبَّ"؟ جیسے اسم پر داخل ہوتا ہے۔ بہت غور کریں۔ "رُبَّ" جیسے اسم پر داخل ہوگا:

  1. وہ اسم نکرہ ہوگا، معرفہ نہیں۔

  2. وہ موصوفہ ہوگا، یعنی اس کے ساتھ اس کی کوئی صفت بھی ذکر ہوگی۔

  3. اس کا متعلَق فعل ماضی ہوگا۔

اب ذرا غور کریں کہ "رُبَّ" آتا ہے کس کے لیے؟ تقلیل کے لیے، لیکن تین شرائط کے ساتھ:

  1. "رُبَّ" جیسے اسم پر داخل ہوگا، وہ اسم نکرہ ہوگا، معرفہ نہیں۔

  2. موصوفہ، یعنی اس کے ساتھ اس کی صفت بھی ذکر ہوگی۔

  3. اور اس کا جو متعلق ہے، وہ متعلق فعل ماضی ہوگا، کوئی اور فعل نہیں ہوگا۔

آگے مثال لیں گے، سارا واضح ہو جائے گا۔ جیسے: "رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ"۔ "رُبَّ" داخل ہوئے "رَجُلٍ" پر۔ "رَجُلٍ" نکرہ، "كَرِيمٍ" یہ اس کی صفت ہے۔ تو ہم کہیں گے: "رَجُلٍ" نکرہ، موصوفہ۔ لیکن اس کا متعلق کیا ہے؟ وہ ہے "لَقِيتُهُ"۔ "لَقِيتُ" صیغہ واحد متکلم، فعل ماضی ہے۔ خوب! اب اس کا ہم ترجمہ کیا کریں گے؟ ذرا غور کریں۔"رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ"۔ بلکہ یہاں سے شروع کرتے ہیں، تاکہ آپ کا سارا مطلب آسان ہو جائے

۔ کہ "وَرُبَّ لِلتَّقْلِيلِ" (اور "رُبَّ" تقلیل کے لیے ہے)۔ "رُبَّ" تقلیل کے معنی بیان کرتا ہے، یعنی کبھی کبھار کے معنی۔ "وَلَا يَكُونُ مَجْرُورُهُ" (اور جو "رُبَّ" کا مجرور ہوتا ہے، وہ نہیں ہوگا) "إِلَّا نَكِرَةً مَوْصُوفَةً" (مگر نکرہ موصوفہ)۔ یعنی کیا؟ کہ جس پر "رُبَّ" داخل ہوتا ہے، وہ کیا ہوتا ہے؟

  1. نکرہ ہوتا ہے۔

  2. موصوفہ، یعنی اس کی صفت بھی موجود ہوتی ہے۔

  3. "وَلَا يَكُونُ مُتَعَلَّقُهُ إِلَّا فِعْلًا مَاضِيًا" (اور اس کا متعلق ہمیشہ فعل ماضی ہوتا ہے)۔

ٹھیک ہے۔ نَحْو: "رُبَّ رَجُلٍ كَرِيمٍ لَقِيتُهُ" (کبھی کبھار ایک کریم آدمی سے میری ملاقات ہوئی)۔ "كرِيمٍ" بندے، تقویٰ والے بندے، شریف بندے، صاحبِ کرامت بندے۔ بہت کم ایسے ہیں۔ "لَقِيتُهُ" (جس سے میں نے ملاقات کی) یعنی آپ کہیں گے: جن سے ملاقات کی ہے، ان میں کریم لوگ بہت کم ہیں۔ یہ یوں کہیں کہ بہت کم کریم لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ہے، ورنہ اکثر سارے مطلب اور طمع کے لوگ ہوتے ہیں ختم۔

وَقَدْ تَدْخُلُ عَلَىٰ ضَمِيرِ الْمُبْهَمِ (اور کبھی کبھی یہ "رُبَّ" ضمیرِ مبہم پر بھی داخل ہوتا ہے)۔ یعنی ضروری نہیں کہ "رُبَّ" ہمیشہ اسم ظاہر پر ہو۔ جیسے ہم نے "حَتَّى" کے بارے میں کہا تھا کہ "حَتَّى" ہمیشہ اسم ظاہر پر داخل ہوتا ہے۔ "رُبَّ" کبھی کبھی ضمیر پر بھی داخل ہوتا ہے۔ لیکن "وَلَا يَكُونُ تَمْيِيزُهُ إِلَّا نَكِرَةً مَوْصُوفَةً" (لیکن وہ جو ضمیرِ مبہم ہوگی، تو آگے کوئی نہ کوئی اس کی تمیز ہوگی، جو اس ضمیر میں پائے جانے والے ابہام کو دور کر رہی ہوگی)۔ تو وہ جو تمیز ہوگی، پھر وہ تمیز نکرہ موصوفہ ہوگی۔

مثال: "رُبَّهُ قَلِيلٌ" (کبھی کبھار وہ کم ہیں)۔ اب وہ ضمیر ہے، کہ یہ کن کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ "قَلِيلٌ" وہ ضمیر ہے نا؟ اب اسے تو کوئی پتہ نہیں ہے کہ کس کی بات کر رہا ہے، لیکن آگے کہتا ہے: "رَجُلًا جَوَادًا" (ایک سخی آدمی)۔ "رَجُلًا" نکرہ، "جَوَادًا" اس کی صفت۔ کہ کم ایسے ہیں۔ یہ ہو گیا۔ پہلے ضمیر، "رَجُلًا جَوَادًا" یہ "هُوَ" اور "رُبَّهُ" میں جو "هُوَ" ہے، اس "هُوَ" کی تمیز ہے۔ یعنی اس کو ہی واضح کر رہے ہیں کہ اس "هُوَ" سے مراد کیا ہے؟ کہ کم ایسے ہیں "رَجُلًا جَوَادًا" (سخی لوگ، سخی مرد)۔ "لَقِيتُهُ" (جن کو میں ملا ہوں)۔ اب یہاں "رُبَّهُ" ڈائریکٹ ضمیر پر آیا، لیکن ضمیر کی جو تمیز، جس نے اس ضمیر کو واضح کیا کہ اس سے مراد کیا ہے، وہ ہے "رَجُلًا جَوَادًا"۔ "رَجُلًا" نکرہ، "جَوَادًا" اس کی صفت۔ یہ نکرہ موصوفہ۔

جُذُوعِ النَّخْلِ [طه: ٧١]، والكاف للتشبيه، نحو: «زيـــد كالأسد»، وقد تكون زائدة، نحو قوله تعالى: ﴿وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شيء [الشورى: ۱۱]، ومذ ومنذ لابتداء الغاية في الزمان الماضي، نحو: «ما رأيته مذ يوم الجمعة أو منذ يوم الجمعة» أي: ابتداء عدم رؤيتي إيّاه كان يوم الجمعة إلى الآن، وقد تكونان بمعنى جميع المدة، نحو: «ما رأيته مذ يومين أو منذ يومين» أي: جميع مدّة انقطاع رؤيتي إيّاه يومان. ورُبَّ للتقليل، ولا يكون مجرورها إلّا نكرة موصوفة، ولا يكون متعلَّقه إلّا فعلاً ماضياً، نحو: «رُبَّ رجل كريم لقيته»، وقد تدخل على الضمير المبهم، ولا يكون تمييزه إلّا نكرة موصوفة، نحو: «ربه رجلاً جواداً لقيته». والواو للقسم، وهي لا تدخل إلّا على الاسم الظاهر لا على المضمر، نحو: «والله لأشربنّ اللبن»، وقد تكون بمعنى رُبَّ، نحو: «وعالم يعمل بعلمه» أي: رُبَّ عالم يعمل بعلمه. والتاء للقسم، وهي لا تدخل إلّا على اسم الله تعالى، نحو: تالله لأضر بنّ زيداً».

اعلم أنّه لا بدّ للقسم من الجواب؛ فإن كان جوابه جملة اسميّة؛ فإن كانت مثبَتة وجب أن تكون مصدّرة بـ«إنّ»