بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
حَتَّى لِاِنتِھاءِ الغَايَةِ فِی الزَّمَانِ نحو: نِمْتُ الْبَارِحَةَ حَتَّى الصَّبَاحِ او فی المکان: بحث ہماری چل رہی تھی حروف جارہ کی وہ حروف جو اسم پر داخل ہوتے ہیں، اسم پر داخل ہونے کے بعد اس اسم کو جر دیتے ہیں۔ ان حروف میں سے ایک حرف ہے "حَتَّى"۔ حَتَّى کیا عمل کرتا ہے؟ اسم کو جر دیتا ہے۔ لیکن یہ "حَتَّى" کبھی انتہاء غایت فی الزمان میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی انتہاء غایت فی المکان میں۔ کیا مطلب؟ یعنی اگر کوئی شخص کوئی کام کر رہا ہو اور وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں نے یہ کام کس وقت تک کیا، یعنی جب وہ وقت آیا، میں نے یہ کام ختم کر دیا، اس کو کہتے ہیں انتہاء غایت فی الزمان اور اگر شخص کوئی کام کر رہا ہو اور پھر وہ بتائے کہ یہ کام میں نے کس جگہ تک کیا، یعنی جب وہاں پہنچا، پھر میں نے یہ عمل ختم کر دیا، اس کو کہتے ہیں انتہاء غایت فی المکان ۔ یہ "حَتَّى" انتہاء غایت فی الزمان کو بھی بیان کرتا ہے اور انتہاء غایت فی المکان کو بھی بیان کرتا ہے۔
انہوں نے جو مثالیں دی ہیں:
    زمان کی مثال: نِمْتُ الْبَارِحَةَ حَتَّى الصَّبَاحِ ۔
        "نِمْتُ" (میں سویا) واحد متکلم ہے۔
        "الْبَارِحَةَ" گزشتہ رات کو کہتے ہیں، یعنی جو رات گزر جائے۔
        ایک شخص کہتا ہے: "نِمْتُ الْبَارِحَةَ حَتَّى الصَّبَاحِ" (میں گزشتہ رات صبح تک سویا)۔ یعنی کیا؟ وہ جو سونے کا عمل انجام دے رہا تھا، وہ گزشتہ رات چلتا رہا حَتَّى الصَّبَاحِ (صبح تک)۔ جب صبح ہوئی، پھر میں اٹھ گیا۔ یعنی یہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جو دس گیارہ بجے اٹھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جب صبح ہوئی، بس میں اٹھ گیا۔ یقیناً نماز پڑھی ہوگی۔
    مکان کی مثال: سِرْتُ الْبَلَدَةَ حَتَّى السُّوقِ ۔
        "سِرْتُ" (میں چلا) واحد متکلم ہے۔
        "الْبَلَدَةَ" شہر کو کہتے ہیں۔
        ایک شخص کہتا ہے: "سِرْتُ الْبَلَدَةَ حَتَّى السُّوقِ" (میں شہر میں بازار تک چلتا رہا)۔ یعنی جب بازار آیا، میں رک گیا۔ پھر میں ادھر ادھر رہا، بازار میں نہیں گیا۔ یعنی کیا؟ میرے چلنے کے انتہا کا جو مقام تھا، جہاں میرا چلنا ختم ہو گیا، وہ تھا بازار۔
خوب! پس گویا "حَتَّى" کا عمل کیا کرتا تھا؟ اس کو ساتھ ساتھ یاد رکھنا ہے کہ عمل تو یہ کرتا تھا کہ اسم کو جر دیتا تھا، لیکن جن معانی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی اس سے جو معنی لینا ہے، کبھی یہ انتہاء غایت فی الزمان کا معنی دیتا ہے، کبھی یہ انتہاء غایت فی المکان کا معنی دیتا ہے۔
اور آگے فرماتے ہیں کہ کبھی یہ مصاحبت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ میں کئی دفعہ گذارش کر رہا ہوں، مصاحبت کا اردو میں ترجمہ ہم "ساتھ" کرتے ہیں۔ عربی میں "مَعَ" ہوتا ہے۔ یعنی اگر ہم کہیں کہ کبھی کبھی "حَتَّى" بمعنی "مَعَ" کے استعمال ہوتا ہے، یعنی "حَتَّى" ساتھ کا معنی دیتا ہے، تو بھی یہ درست ہے۔ ٹھیک ہے جی!
خوب! اب یہ جو مصاحبت ہے، اس کی پہلے بھی ایک مثال تھی، وہاں بھی گذارش کی تھی، آج دوبارہ بھی کرنی ہے کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ "حَتَّى" کا مابعد (جو کچھ "حَتَّى" کے بعد آتا ہے) "حَتَّى" کے ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں میں نے مثال آپ کو دے دی تھی، ہم نے پیش کی تھی: "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ"۔ وہاں میں نے کہا تھا کہ الی کا مابعد (یعنی "الْمَرَافِقِ") الی کے ماقبل ("أَيْدِيَكُمْ") کے حکم میں شامل ہے۔ یہاں بھی کہتے ہیں کہ کبھی کبھی "حَتَّى" کا مابعد "حَتَّى" کے ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے، اور کبھی کبھی "حَتَّى" کا مابعد "حَتَّى" کے ماقبل کے حکم میں داخل نہیں ہوتا۔
اگر اس کی کچھ مثالیں بھی ہیں، اب اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ تاکہ  اس کے ساتھ آپ کو پھر مشکل نہ ہوں۔
"حَتَّى" حروف جارہ میں سے ایک ہے۔
"حَتَّى" کیا کرتا ہے؟ لِاِنتِھاءِ  لِلغَايِۃِ (غایت کو بیان کرتا ہے)۔
یہ غایت کو، یعنی مقصد کے انتہا کو بیان کرتا ہے۔
فِی الزَّمَانِ (زمان کے لحاظ سے) بھی، میں نے آپ کو آسان اردو میں گزارش کیے، یعنی کبھی "حَتَّى" یہ بیان کرتا ہے کہ یہ کام جو میں کر رہا تھا، یا کوئی بھی کر رہا تھا، اس کام کے کرنے کا وقت کب تھا، یعنی اس کے کام کی وقت کے لحاظ سے انتہاء بتاتا ہے کہ جب یہ وقت آیا، پھر وہ کام ختم ہو گیا۔
مثال:
   نِمْتُ الْبَارِحَةَ حَتَّى الصَّبَاحِ
"نِمْتُ" (میں سویا) واحد متکلم ہے۔
"الْبَارِحَةَ" گزشتہ رات کو کہتے ہیں۔
 "حَتَّى الصَّبَاحِ" صبح تک۔
        یہ "حَتَّى" کیا بیان کر رہا ہے؟ کہ وہ جو میں سو رہا تھا، میرے سونے کا عمل گزشتہ شب چلتا رہا، چلتا رہا، حَتَّى الصَّبَاحِ (صبح تک)۔ لیکن جب صبح ہوئی، تو یہ انتہاء غایت فی الزمان ہے۔ بس سونے کا جو انتہا تھی، اس عمل کا جو اختتام ہوا، صبح ہوتے ہی سونے کا کام ختم ہو گیا۔
اسی طرح فی المکان:
  سِرْتُ الْبَلَدَةَ حَتَّى السُّوقِ
 "سِرْتُ" (میں چلا) واحد متکلم ہے۔
 "الْبَلَدَةَ" شہر کو کہتے ہیں۔
 "حَتَّى السُّوقِ" بازار تلک۔
        یہ کیا بیان کر رہا ہے؟ کہ میں شہر میں چلتا رہا، چلتا رہا، چلتا رہا، حَتَّى السُّوقِ (بازار تک)۔ یعنی کیا؟ جہاں سے بازار شروع ہوا، پھر میرے چلنے کا عمل وہاں پر ختم ہو گیا۔ اب یہ جگہ کے لحاظ سے انتہائے غایت بیان کر رہا ہے۔
فرماتے ہیں: وَلِلْمُصَاحَبَةِ (مصاحبت کے لیے بھی)۔ یہ "حَتَّى" مصاحبت کا معنی بھی دیتا ہے۔ مصاحبت کا معنی کئی بار گزارش کی ہے، اردو میں "ساتھ" ہوتا ہے یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کبھی کبھی "حَتَّى" بمعنی "مَعَ" کے ہوتا ہے۔ عربی میں "مَعَ"، اردو میں "ساتھ"۔ مثال: قَرَأْتُ وِرْدِي حَتَّى الدُّعَاءِ
"قَرَأْتُ وَرْدِي" (میں نے اپنا ورد پڑھا)۔ "حَتَّى الدُّعَاءِ" دعا تک۔
یہاں "حَتَّى" کا معنی تلک نہیں کرنا، یہ نہیں کہ دعا شروع ہوتے ہی میں خاموش ہو گیا، بلکہ یہاں کرنا ہے: "قَرَأْتُ وِرْدِي" (میں نے اپنا ورد پڑھا)، پھر وہی جو روٹین میں انسان اپنے دعا و اذکار جو بھی پڑھتا ہے، وہ میں نے پڑھے "حَتَّى الدُّعَاءِ"۔ یہاں "حَتَّى" بمعنی "مَعَ" ہے، یعنی "حَتَّى الدُّعَاءِ" (دعا سمیت)۔ یعنی میں نے جو اپنے ورد اور اذکار پڑھنے تھے، وہ سارے پڑھے دعا کے ساتھ۔
آگے فرماتے ہیں:
    وَمَا بَعْدَهُ قَدْ يَكُونُ دَاخِلًا فِي حُكْمِ مَا قَبْلَهُ۔ اور "مَا بَعْدَهُ" (جو کچھ "حَتَّى" کے بعد ہوتا ہے) "حَتَّى" کا مابعد ہے جیسے الدُّعَا، اَلسُّوقُ ، اَلصَّباح ، قَدْ يَكُونُ دَاخِلًا (کبھی کبھی یہ مابعد داخل ہوتا ہے) فِي حُكْمِ مَا قَبْلَهُ (اس حکم میں جو "حَتَّى" کے ماقبل کا ہے)۔
مثال دیتے ہیں، بہت واضح ہو جائے گا:
    نَحْو: أَكَلْتُ السَّمَكَةَ حَتَّى رَأْسِهَا
    "أَكَلْتُ السَّمَكَةَ" (میں نے مچھلی کھائی)۔
    "حَتَّى رَأْسِهَا" اس کے سر تک۔
    یہاں "رَأْسِهَا" (اس کا سر) "حَتَّى" کے مابعد ہے، اور یہ "حَتَّى" کے ماقبل ("السَّمَكَةَ") کے حکم میں داخل ہے، یعنی میں نے مچھلی کو اس کے سر تک کھایا۔)
کیا مچھلی "حَتَّى رَأْسِهَا" کہتے ہیں؟ مچھلی "رَأْسِهَا" (اس کے سر) تک۔ اب یہاں اس کا معنی ہم نے کیا کرنا ہے؟ کہ یہ "رَأْس" (سر) اُس "سَمَكَة" (مچھلی) کے حکم میں داخل ہے۔ مچھلی کا حکم کیا تھا؟ کھانا۔ "أَكَلْتُ" (میں نے کھایا)۔ اب یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے مچھلی جو کھائی "حَتَّى رَأْسِهَا" (اس کے سر تک)، میں تو اُس کا سر بھی ساتھ کھا گیا۔ اب یہ "رَأْس" (سر) اُس حکمِ "أَكَلْ" (کھانا) میں داخل ہے، جو حکمِ "أَكَلْ" اُس "سَمَكَة" (مچھلی) کے لیے تھا۔ یعنی گویا اس کا مطلب ہوگا کہ میں نے مچھلی کھائی "حَتَّى رَأْسِهَا" (اس کے سر سمیت)، یعنی فقط مچھلی نہیں بلکہ سر بھی ساتھ کھایا۔
وَقَدْ لَا يَكُونُ دَاخِلًا فِيهِ (اور کبھی کبھی "حَتَّى" کا مابعد "حَتَّى" کے ماقبل میں داخل نہیں ہوتا)۔ نَحْوُ الْمِثَالِ الْمَذْكُورِ (جیسا کہ پچھلی مثال تھی): "نِمْتُ الْبَارِحَةَ حَتَّى الصَّبَاحِ"۔ اب حکم کونسا تھا؟ "نِمْتُ" (میں سویا)۔ اب یہ سونے والا حکم فقط "الْبَارِحَةَ" (گزشتہ رات) کے لیے تھا۔ "حَتَّى الصَّبَاحِ" (صبح تک) جو "حَتَّى" کا مابعد ہے، "الصَّبَاحِ" (صبح) کے لیے یہ سونے والا حکم نہیں تھا۔ اب یہ پڑھ گئی۔ بس، آپ جب اس کو یاد کریں گے تو آپ یوں کہیں گے: کبھی کبھی "حَتَّى" کا مابعد "حَتَّى" کے ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے، اور کبھی کبھی "حَتَّى" کا مابعد "حَتَّى" کے ماقبل کے حکم میں داخل نہیں ہوتا۔ ٹھیک ہوئی؟ یہ قصہ ختم۔
آگے فرماتے ہیں: اس "حَتَّى" کی ایک خصوصیت جو بیان کرنی ہے، وہ کیا ہے؟ کہ یہ "حَتَّى" اسمِ ظاھر کے ساتھ مختص ہے۔ یعنی "حَتَّى" کے بعد باقاعدہ اسم ہوتا ہے، ضمیر نہیں۔ جیسے "إِلَى" کو ہم کہہ سکتے ہیں إِلَیہ، "فِي" کو ہم کہہ سکتے ہیں فِيہ، "مِن" کے بعد کہہ سکتے ہیں مِنہُ، "با" کے ساتھ کہہ سکتے ہیں بِہ، لیکن "حَتَّى" یہ مختص ہے اسمِ ظاہر کے ساتھ۔ یعنی "حَتَّى" کے بعد ضمیر نہیں آئے گی۔
وَهِيَ مُخْتَصَّةٌ بِالِاسْمِ الظَّاهِرِ اور یہ "حَتَّى" مختص ہے بِالِاسْمِ الظَّاهِرِ اسمِ ظاہر کے ساتھ یعنی "حَتَّى" کے بعد ہمیشہ ایک اسم ہونا چاہیے، ضمیر نہیں۔ بِخِلَافِ إِلَى، جبکہ "إِلَى" کا حکم یہ نہیں ہے۔ "إِلَى" کے بعد اسم بھی ہو سکتا ہے، "إِلَى" کے بعد ضمیر بھی آ سکتی ہے، جیسے "إِلَيْهِ"، "إِلَيْهِمْ"، "إِلَيْهِمَا"، "إِلَيْكُمَا"۔ ہم نے دیکھا کہ ضمیر کی طرف وہ مضاف ہوتے رہتے ہیں۔
 تو پس "حَتَّى" اور "إِلَى" میں ایک فرق: "حَتَّى" کے بعد ہمیشہ اسمِ ظاہر ہوگا، جبکہ "إِلَى" کے بعد ضروری نہیں ہمیشہ اسمِ ظاہر ہو، بلکہ ضمیر بھی آ سکتی ہے۔
لہٰذا آگے فرماتے ہیں: فَلَا يُقَالُ "حَتَّاهُ"، وَيُقَالُ "إِلَيْهِ"۔ لہٰذا "حَتَّاهُ" کہنا صحیح نہیں، لیکن "إِلَيْهِ" کہنا صحیح ہے۔ فَلَا يُقَالُ (نہیں کہا جائے گا) "حَتَّاهُ"، لیکن وَيُقَالُ (یہ مضارع مجہول ہے) "إِلَيْهِ"۔ جبکہ "إِلَيْهِ" کہنا، یعنی "إِلَى" کو ھِی ضمیر کی طرف مضاف کرنا جائز ہے۔ خوب! یہ دو تین باتیں تھیں جو "حَتَّى" سے مربوط تھیں۔