بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
وَإِلَىٰ لِانْتِهَاءِ الْغَايَةِ فِي الْمَكَانِ، حروف جارہ میں سے ایک حرف ہے "إِلَى"۔ یہ "إِلَى" اسم کو جر دیتا ہے اور یہ استعمال ہوتا ہے لِانْتِهَاءِ الْغَايَةِ فِي الْمَكَانِ، یعنی کسی مقصد کی انتہاء کو بیان کرنے کے لیے۔ مثلاً اگر مکان ہو تو مسافت کی انتہاء بتاتا ہے۔ اگر زمان میں ہو تو وقت کی انتہاء بتاتا ہے۔ کہ مکان میں کیا ہوگا؟ مثال وہی پچھلی مثال جو آپ نے "مِن" میں استعمال کی تھی: "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ"، بصرہ سے کوفہ تک۔ "إِلَى" بیان کر رہا ہے کہ میرے اس چلنے کی مسافت کی انتہا، آخری حد، آخری منزل کیا تھی؟ وہ بتا رہا ہے "إِلَى" کہ وہ کوفہ تھی۔
جیسے زمان میں آیت مبارکہ ہے: "وَأَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ"، تو وہاں پر کیا ہوتا ہے؟ یعنی روزے کا انتہا کیا ہے؟ اس کے وقت کا اختتام کیا ہے؟ وہ ہے "اللَّيْلِ"  تو یہ "إِلَى" انتہا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اگر مکان میں ہو تو زمان میں ہو تو اس کی مسافت یا غایت کی انتہا کو بتاتا ہے۔ "إِلَى لِانْتِهَاءِ الْغَايَةِ فِي الْمَكَانِ"، "إِلَى" آتا ہے مکان میں مسافت کی انتہا کو بیان کرنے کے لیے، یعنی جگہ میں۔ زمان میں بھی آتا ہے،  قرآن مجید کی آیت ہے: "وَأَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ"، وہ گویا صیام کے وقت کو بتا رہا ہوتا ہے کہ اس کی انتہا کب ہے؟ وہ ہے "اللَّيْلِ"۔ " لِانْتِهَاءِ الْغَايَةِ"، مسافت کی انتہا کو بیان کرتا ہے۔ کبھی اگر یہ مکان میں استعمال ہو اور زمان میں ہو تو آیت بیان کی نحو "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ"، جیسے "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ"، یعنی مسافت کی انتہا کیا تھی؟ میری منزل آخری کہاں تھی؟ رُکنا کہاں تھا؟ وہ تھا "الْكُوفَةِ"۔ اس کو بیان کیا ہے کس نے؟ "إِلَى" نے۔
وَلِلْمُصَاحَبَةِ، یہ "إِلَى" مُصَاحَبَت کے لیے بھی آتا ہے۔ کئی مقامات میں میں نے بیان کیا ہے۔ مُصَاحَبَت یعنی ساتھ کے معنی میں۔ عربی میں ہوگا "مَعَ"، "مَعَ" کا معنی بھی ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی اگر آپ یوں کہیں کہ "إِلَى" بمعنی "مَعَ" کے بھی استعمال ہوتا ہے تو بھی وہی بات ہے۔ اور آپ کہیں کہ "إِلَى" مُصَاحَبَت یعنی ساتھ کا معنی دینے کے لیے آتا ہے تو بھی بات ایک ہی ہے۔ ٹھیک ہے جی؟
جیسے نَحْو قَوْلِهِ تَعَالَى، آیت مبارکہ ہے: "وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ"، تم نہ کھاؤ "أَمْوَالَهُمْ"، ان کے اموال ۔ اوہ! یتیموں کے اموال "إِلَى أَمْوَالِكُمْ"، اپنے اموال کے ساتھ۔ یہاں "إِلَى" کا معنی میں ساتھ کرنا ہے۔
تَک پیچھے تو ہم نے "تَک" کیا تھا نا معنی الی کا؟ "سِرْتُ"، کہ میں چلا بصرہ سے "إِلَى الْكُوفَةِ"، کوفہ تک۔ 
جب"إِلَى" مُصَاحَبَت کے لیے ہوگا تو "إِلَى" کا معنی ہوگا ساتھ۔ "وَلَا تَأْكُلُوا"، اور تم نہ کھاؤ "أَمْوَالَهُمْ"، ان کے اموال "إِلَى أَمْوَالِكُمْ"، اپنے اموال کے ساتھ۔ اب یہاں "إِلَى" مُصَاحَبَت کے لیے، یعنی "إِلَى أَمْوَالِكُمْ" کا معنی ہے "مَعَ أَمْوَالِكُمْ"، یعنی اپنے اموال کے ساتھ۔ آپ اردو میں ترجمہ آسانی سے کریں گے کہ "إِلَى" مُصَاحَبَت کے لیے آتا ہے تو آپ کہیں "إِلَى" مُصَاحَبَت کا معنی، یعنی "إِلَى" ساتھ کا معنی دیتا ہے۔ عربی میں ہوتا ہے "مَعَ"، اردو میں ہوگا ساتھ ۔
وَقَدْ يَكُونُ مَا بَعْدَهَا دَاخِلًا فِي مَا قَبْلَهَا إِنْ كَانَ مَا بَعْدَهَا مِنْ جِنْسِ مَا قَبْلَهَا۔ یہ ایک نکتے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ یہ جو "إِلَى" ہوتا ہے، کچھ "إِلَى" کا "مَا قَبْلُ" ہوتا ہے اور کچھ "إِلَى" کا "مَا بَعْدُ" ہوتا ہے۔ اب تھوڑی سی آپ توجہ فرمائیں گے تو مزہ آئے گا۔
ہم نے کہا تھا: "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ"، اب بصرہ "إِلَى" کا "مَا قَبْلُ" ہے، یعنی وہ اس سے پہلے ہے۔ کوفہ "إِلَى" کا "مَا بَعْدُ" ہے، وہ اس کے بعد ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں بصرہ اور مکان ہے اور شہر ہے اور جگہ ہے۔ جبکہ کوفہ ایک اور جگہ ہے، ایک اور علاقہ ہے، ایک اور شہر ہے۔ ٹھیک؟ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ "إِلَى" کا "مَا بَعْدُ"، یعنی جو الی کے بعد ہوتا ہے، وہ اسی الی کے "مَا قَبْلُ" میں داخل ہوتا ہے۔ الی کے "مَا قَبْلُ" میں شمار ہوتا ہے اگر وہ "مَا بَعْدُ" اسی "مَا قَبْلُ" کی جنس سے ہو۔
اب تھوڑی سی اس کی وضاحت آپ کو بتانے پڑے گی۔ کیا مطلب ہے؟ ہم نے تھوڑا سا اس کو سمجھانے کے لیے آپ کو اس کی بتانا ضروری ہے۔ وہ یہ آپ ذرا غور کریں: "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ"، بصرہ "إِلَى" سے پہلے ہے، کوفہ الی کے بعد ۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوفہ بصرہ میں شامل ہے؟ نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کوفہ ،  بصرہ کی جنس سے نہیں ہے۔ بصرہ ایک الگ شہر ہے، ایک الگ جگہ ہے، ایک الگ علاقہ ہے۔ جبکہ کوفہ ایک اور شہر ہے، ایک اور علاقہ ہے، ایک اور منطقہ ہے۔
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہی "إِلَى" کا "مَا بَعْدُ" درحقیقت اسی الی کے "مَا قَبْلُ" میں داخل ہوتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ دونوں کی یہ "مَا بَعْدُ"، یہ جو الی کے بعد استعمال ہوا، یہ اسی اس کے "مَا قَبْلُ" کی جنس میں سے ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی اور چیز نہیں ہوتا۔ تھوڑا سا آپ اس کو غور کریں، مزہ آجائے گا۔
وَقَدْ يَكُونُ مَا بَعْدَهَا دَاخِلًا فِي مَا قَبْلَهَا إِنْ كَانَ مَا بَعْدَهَا مِنْ جِنْسِ مَا قَبْلَهَا۔ یعنی الی کا "مَا بَعْدُ" اسی الی کے"مَا قَبْلُ" کی جز ہوتا ہے، اس میں شامل ہوتا ہے کب جب الی کا ما بعد الی کے ماقبل کی جنس سے ہو تو وہ مابعد اسی ماقبل میں شامل ہوتا ہے۔
نَحْو قَوْلِهِ تَعَالَى، اب ذراغور کرو: "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ"، قرآن مجید کی آیت ہے: "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ"، تم دھو اپنے چہروں کو "وَأَيْدِيَكُمْ"، اور اپنے ہاتھوں کو "إِلَى الْمَرَافِقِ"، کہنیوں تک ۔ اب اس میں دو تین نکتے ہیں۔ اس پر ذرا غور کرو۔ ایک دو لفظ اس میں یاد کرانا آپ کو ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو ہوتا ہے نا "إِلَى" کا "مَا بَعْدُ"، یعنی جو الی کے بعد آتا ہے، جیسے ہم نے کہا نا "إِلَى الْكُوفَةِ"، اس کو کہتے ہیں غایت، اور الی کے "مَا قَبْلُ" کو کہتے ہیں کیا؟ مبدأ۔ ٹھیک ہے جی؟ غایت اور مبدأ۔
یعنی ہم کہتے ہیں کہ کبھی کبھی غایت مبدأ میں داخل ہوتی ہے اگر غایت مبدأ کی جنس ہو۔ اب درحقیقت غور کرو، ہم نے کہا: "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ"، خداوند عالم کا فرمان ہے: "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ"، تم دھو اپنے چہروں کو "وَأَيْدِيَكُمْ"، اپنے ہاتھوں کو "إِلَى الْمَرَافِقِ"، کہنیوں تک۔ اب "أَيْدِيَكُمْ" الی کا"مَا قَبْلُ" ہے، "الْمَرَافِقِ" کہنیاں یہ الی کا "مَا بَعْدُ" ہے۔ لیکن یہ "الْمَرَافِقِ" اُسی "أَيْدِي" میں، ہاتھوں میں شامل ہے، داخل ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ "الْمَرَافِقِ" اُسی "أَيْدِي" کی جنس ہے۔ یہ نہیں کہ "أَيْدِي" سے مراد کچھ اور ہے اور "الْمَرَافِقِ" اور ہے۔ فرماتے ہیں یہ اُسی کی جنس میں سے ہے، اُسی میں شامل ہے۔ تو اس لیے کہہ رہے ہیں "الْمَرَافِقِ" یہاں "الْمَرَافِقِ" "أَيْدِي" میں داخل ہے۔ چونکہ یہ اُسی ہاتھوں کی "أَيْدِي"، کہتے ہیں ہاتھوں کو "أَيْدِي" کی جنس میں سے ہے۔
لیکن وَقَدْ لَا يَكُونُ مَا بَعْدَهَا دَاخِلًا فِي مَا قَبْلَهَا۔ لیکن کبھی کبھی یہ الی کا "مَا بَعْدُ"، یعنی یہ غایت مبدأ میں داخل نہیں ہوتی۔ کیوں نہیں ہوتی؟ فرماتے ہیں اس لیے کہ "لَمْ يَكُنْ مَا بَعْدَهَا مِنْ جِنْسِ مَا قَبْلَهَا"، کہ اگر الی کا "مَا بَعْدُ" الی کے "مَا قَبْلُ" کی جنس میں سے نہ ہو تو ۔ اچھا، اس کی کوئی مثال؟
اس کی مثال یہ ہے: "وَأَتِمُّوا الصِّيَامَ"، خداوند متعال کا فرمان ہے: "وَأَتِمُّوا الصِّيَامَ"، تم روزے کو پورا کرو روزے کو "إِلَى اللَّيْلِ"، رات تک۔ اب انہوں کو ذرا غور کرو، جب دونوں مثالوں کو ۔
ایک مثال کیا ہے۔ "فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ"، اب "فَاغْسِلُوا" کا جو حکم ہے، وہ ہے کہ تم دھو اپنے ہاتھوں کو "إِلَى الْمَرَافِقِ"، کہنیوں تک۔ اب یہاں "إِلَى الْمَرَافِقِ" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس جگہ سے کہنی شروع ہوتی ہے، وہاں ختم کر دو، بس کر دو۔ نہیں، نہیں۔ یہ "الْمَرَافِقِ" اسی "أَيْدِي" میں شامل ہے۔ جب شامل ہے تو "فَاغْسِلُوا" کا حکم بھی ان "الْمَرَافِقِ" کو شامل ہے۔ یعنی تم اپنے ہاتھوں کو دھو، کہنیوں کے ساتھ ۔ لیکن کیوں؟ اسی لیے کہ "الْمَرَافِقِ" کہنیاں اس "أَيْدِي" میں شامل ہے۔
لیکن یہ جو آیت ہے: "ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ"، "وَأَتِمُّوا الصِّيَامَ"، اور پھر تم پورا کرو اپنے روزوں کو "إِلَى اللَّيْلِ"، رات تک۔ اب دیکھو، "اللَّيْلِ" صیام میں داخل نہیں ہے۔ صیام جمع ہےصوم کی یعنی روزہ، یہ اور چیز ہے۔ "اللَّيْلِ" ایک وقت ہے، یہ الگ ہے۔ یہ "اللَّيْلِ" صیام کی جنس میں سے نہیں۔ جب نہیں ہے تو "أَتِمُّوا" کا حکم "اللَّيْلِ" کو شامل بھی نہیں کیا مطلب؟ کہ جوں ہی "اللَّيْلِ" شروع ہوگی، صیام صوم یعنی روزہ وہاں پر ختم ہو جائے گا۔
اب بہت غور کریں۔ یہیں پر اس کو اختتام کرتے ہیں۔ دوبارہ توجہ دیں، یعنی "فَاغْسِلُوا" (دھو لو) یہ بھی ایک حکم تھا۔ "أَتِمُّوا" (پورا کرو) یہ بھی حکم ہے۔ وہاں "الْمَرَافِقِ" (کہنیوں) کا الی کے بعد میں آیا ہے، اور یہاں "اللَّيْلِ" (رات) کا الی کے بعد میں ہے۔ لیکن وہاں ہم نے کہا تھا کہ "فَاغْسِلُوا" کا حکم "الْمَرَافِقِ" کو شامل ہے۔ کیوں؟ کیونکہ "الْمَرَافِقِ" (کہنیاں) "أَيْدِي" (ہاتھوں) میں داخل ہیں۔ جو حکم "أَيْدِي" (ہاتھوں) کا ہے، وہی "الْمَرَافِقِ" (کہنیوں) کا ہے ۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ "الْمَرَافِقِ" (کہنیاں) "أَيْدِي" (ہاتھوں) کی جنس (قسم) میں شامل ہے۔
لیکن  أَتِمُّوا حکم میں "اللَّيْلِ" (رات) "الصِّيَامَ" (روزے) کی جنس میں شامل نہیں ہے۔ روزہ ایک عبادت ہے، جبکہ رات ایک وقت ہے۔ چنانچہ "أَتِمُّوا" (پورا کرو) کا حکم "اللَّيْلِ" (رات) کو شامل نہیں کرتا، بلکہ روزہ رات آنے پر ختم ہو جاتا ہے۔
دونوں مثالوں میں فرق کو سمجھیں:
    وضو کی مثال: "فَاغْسِلُوا وَجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ" (چہرے اور ہاتھ کہنیوں تک دھوؤ)۔ یہاں "الْمَرَافِقِ" (کہنیاں) ہاتھوں کا حصہ ہیں، اس لیے حکم انہیں شامل کرتا ہے۔
    روزے کی مثال: "أَتِمُّوا الصّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ" (روزے رات تک پورے کرو)۔ یہاں "اللَّيْلِ" (رات) روزے کی جنس میں نہیں، اس لیے حکم صرف روزے کے وقت تک لاگو ہوتا ہے۔
نتیجہ: جب "مَا بَعد" (بعد والا علاقہ) پہلے والے حکم کی جنس میں ہو تو وہ شامل ہوتا ہے، ورنہ نہیں۔ لہٰذا، روزہ رات شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے، جبکہ وضو میں کہنیاں تک دھونا ضروری ہے۔