درس شرح مائة عامل

درس نمبر 4: اسم کو فقط جر دینے والے حروف 3

 
1

خطبہ

2

باء حرف جر کے معانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وللقسمِ

 بحث ہماری چل رہی تھی حروف جارہ کی اور حروف جارہ میں سے پہلے حرف "با" کی کہ ایک تو یہ اسم کو جر دیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، جیسے "بسم اللہ" میں اسم کی میم کو انہوں نے زیر دی۔ "بسم اللہ"ہم نے پڑھا اور یہ کچھ مختلف معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی یہ حرف جہاں استعمال ہوتے ہیں، ایک تو اسم کو جر دیتے ہیں اور کوئی عمل نہیں کرتے ہیں، یعنی جر کے علاوہ۔ دوسرا یہ کہ جہاں استعمال ہوتے ہیں، وہاں ایک خاص معنی بھی دیتے ہیں جر کے علاوہ۔
ان معنی میں سے بالکل آسان "وَلِلْقَسمِ" یعنی یہی "با" قسم کے لیے بھی آتی ہے، یعنی یہ قسم کا معنی بھی دیتی ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں "بِاللہِ"، تو یہاں "با" قسم کے معنی میں ہوتی ہے۔ درحقیقت اس سے پہلے "اُقْسِمُ" مُقَدَّر ہوتا ہے، یعنی اصل فعل اس میں پہلے ہوتا ہے۔ "اُقْسِمُ" میں قسم دیتا ہوں "بِاللہِ"، تو پس یہ "بِاللہِ" یہ جو "با" ہے، یہ قسم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یعنی نحو "بِاللہِ" اللہ کی قسم۔ "بِاللہِ" باء جار لفظ اللہ مجرور۔ اس سے پہلے "اُقْسِمُ" فعل مُقَدَّر ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم "لَأَفْعَلَنَّ کَذَا " اور نون اس پر تاکید ثقیلہ لگی ہوئی ہے۔ "لَأَفْعَلَنَّ" کہ میں ضرور "کَذَا" یعنی ایسا کروں گا۔ اب اس کا لفظی ترجمہ کیا ہوگا؟ "بِاللہِ" اللہ کی قسم "لَأَفْعَلَنَّ"۔ ایک لام بھی تاکید گیا ہے اور آخر میں "لَنَّ" جو نون ہے ثقیلہ ، وہ بھی تاکید گیا ہے۔ میں ضرور ایسا کروں گا "کَذَا" یعنی ایسا کروں گا۔

وَلِلْاِسْتِعِطَافِ یہی "با" استعطاف، استعطاف کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ عطوفت طلب کرنا، مہربانی طلب کرنا، نرمی طلب کرنا، رحم طلب کرنا۔ کبھی کبھی "با" استعمال ہوتی ہے لیکن معنی دیتی ہے استعطاف کا، عطوفت، مہربانی، نرمی، رحم وہ طلب کرنا۔ جیسے نحو "اِرْحَمْ بِزَیْدٍ"۔ اب زید پر "با" جاری ہوا۔ "اِرْحَمْ" یعنی تُو رحم کر "بِزَیْدٍ" زید پر۔ یہاں "با" جو ہے، اس کو طلبِ رحم، طلبِ عطوفہ، طلبِ نرمی کے لئے یہاں استعمال ہوئی ہے۔

وَلِالظَرْفِيَّۃ یہی "با" یہی "با" ظرفیت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی ظرف۔ ایک ظرفِ زمان ہوتا ہے، ایک ظرفِ مکان ہوتا ہے کہ کوئی کسی مکان میں داخل ہو تو ظرفِ مکان، اور کوئی کسی وقت میں داخل ہو تو وہ ہو گیا ظرفِ زمان۔ 

کبھی ہوتی یہی "با" ہے لیکن معنی دیتی ہے ظرفیت کا۔ ٹھیک ہے جی؟ اچھا کیسے جی؟ فرماتے ہیں یہ دیکھو کب ہمیں پتہ   چلے گا کہ یہ "با" ظرفیت کے لئے ہے؟ بہت آسان سے ایک چیز بعض علماء یہاں پر نشانی بتاتے ہیں کہ جو "با" ظرفیت کے لئے ہوتی ہے، اس کی آسان نشانی یہ ہے کہ اگر وہاں "با" کی بجائے "فی" کو رکھ دیں "فی" کا اردو میں ترجمہ ہوتا ہے "میں" "فی البلد" شہر میں، "فی الجمعہ" جمعہ کے دن میں، "فی اليوم" دن میں، "فی اللیل" رات میں، تو جو "با" یہ جو "با" ہوتی ہے، یہ ظرفیت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جیسے نحو "زیدٌ بِالبَلَدِ" زید شہر میں، یہاں "با" بمعنیٰ"فی" یعنی ظرفیت کا معنی دے رہی ہے کہ "زیدٌ فی البلد" زید شہر میں ہے۔

وَلِالزِيَادَۃِ اور کبھی کبھی یہ "با" زائد ہوتی ہے ، اب اس نکتے کو درست سمجھنا، زائد کا معنی لغو نہیں کرنا ۔ کیوں؟ یہ اس لیے کہ قرآن مجید میں بھی کئی مقام پر یہ "با" زائدہ استعمال ہوئی ہے ۔ لہذا لَغویت کا معنی یہاں نہیں کرنا، بلکہ یہاں زیادتی کا معنی یہ ہوگا کہ اگر یہ "با" یہاں نہ بھی ہو تو بھی معنی پر کوئی خلل نہیں پڑتا۔ اس لحاظ سے تو ہے یہ زائد، لیکن کسی اور لحاظ سے اس کی ضرورت تھی۔ مثلاً وہاں تاکید کو بیان کرنا تھا یا کوئی اور وجہ تھی ، اس لحاظ سے وہ اس کی ضرورت تھی، لہذا اس کو استعمال کیا گیا۔ صرف اس لحاظ سے ہم زائد کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ نہ بھی ہو تو بھی معنی پر خلل نہیں پڑتا۔ زیادتی سے مراد یہ والی زیادتی ہے کہ اس کے حذف کرنے سے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن ہو سکتا ہے کسی اور وجہ سے اس کے اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں۔

وَلِالزِيَادَۃِ  کبھی کبھی یہ "با" زیادتی کے لیے آتی ہے۔ زیادتی کا مراد کیا ہے؟ یہ "با" زائدہ ہوتی ہے۔ زائد کا ترجمہ آپ کیا کریں گے؟ ترجمہ یہ کریں گے کہ اگر اس "با" کو حذف بھی کر دیا جائے تو اصل معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے قرآن مجید کی یہ آیت مجیدہ ہے: "لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ"اب یہ "لَا تُلْقُوا" کے بعد جو "بِأَيْدِيكُمْ" یہ "با" ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ "با" زائد ہے۔ کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اب یہاں پر "بِأَيْدِيكُمْ" میں اگر "با" نہ بھی ہو تو بھی معنی پر فرق نہیں پڑے گا۔ "لَا تُلْقُوا أَيْدِيَكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ" اگر "با" نہ ہوتا، اور اگر "با" ہوگی تو پڑھیں گے "لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ"۔ یہاں "با" زائد ہے، لیکن زائد باین معنی کے کہ اگر یہ "با" نہ بھی ہو تو معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

خوب! اگر چہ یہ تاکید وغیرہ کے لئے یہ اور بات ہے، "با" کی بحث یہاں مکمل ہو گئی کہ "با" کس کس معنی کے لئے آتی ہے۔ اس کی بحث یہاں پر الحمدللہ ختم ہو گئی

3

لام حرف جر کے معانی

حروف جارہ میں سے ہے  اگلا حرف لام ہے اور  یہ "لام" کیا کرتی ہے؟ فرماتے ہیں :  یہ دو کام کرتی ہے،

1: ایک لفظ کے لحاظ سے،وہ اسم کو جر دینا ہے۔

2: معنی کے لحاظ سے، وہ لام کچھ معانی دینا ہے ۔

ان میں سے اختصاص کا معنی ہے۔ کیا مطلب؟ کہ جہاں یہ بتانا مقصود ہو درحقیقت کہ یہ شیء اس شیء کے ساتھ مختص ہے، وہاں اس چیز کو دوسری چیز کے ساتھ "لام" کے ذریعے ملایا جاتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں "المال لزید" مال زید کے لئے مختص ہے۔ "لام" کا معنی ہوتا ہے اختصاص۔ اور اختصاص کا معنی کیاہے؟ ایک چیز کا  دوسری چیزکے لئے خاص کرنا۔ اب یہ جو خاص کرنا ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے دو طریقے سے ۔ کبھی وہ اختصاص ملکیت کا ہوتا ہے کہ وہ شیء  کا دوسرا شیء اس کا مالک ہوتا ہے، یہ اس کی ملکیت ہے۔ اور کبھی اختصاص ملکیت کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے فقط کہ فلاں شیء فلاں شیء کے ساتھ مختص ہے۔

اب بالکل آسان۔ اب یہ فرماتے ہیں:
"وَاللَّامُ لِلْاِخْتِصَاصِ"۔ "لام" جارہ ہونے کے ساتھ یہ کیا کرتی ہے؟ یہ آتی ہے اختصاص کے دو چیزوں پر داخل ہوتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ شیء اس شیء کے ساتھ مختص ہے۔ خوب! نَحو [ الْجُلُّ لِلْفَرَسِ] کہ جل(زین) گھوڑے کے لیے مختص ہے۔ "لِلْفَرَس" یعنی الجل کے یہ زین یا اس کے اوپر جو کپڑا ڈالتا ہے، الجل یہ جل گھوڑے کے لیے خاص ہے۔ اب  یہاں کچھ غور کرنا ہے۔ یہاں "لام" صرف اختصاص کا معنی دے رہی ہے۔ کونسا گھوڑا اس جل کا، اس زین کا، اس پر جو کپڑا ڈالتا ہے، اس کا مالک نہیں ہوتا۔ صرف خاص ہوتا ہے اسی کے لیے۔ یعنی اختصاص معنی مختص ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور پر نہیں ڈالتے۔ لیکن کبھی کبھی اختصاص ہوتا ہے ملکیت والا، جیسے ہم کہتے ہیں "المالُ لزیدِِ"، مال زید کے لیے ہے ۔ تو ایک یہ مختص ہے زید کے لیے، اور دوسرا یعنی زید کی ملکیت میں ہے۔ جبکہ زین گھوڑے کی ملکیت میں نہیں ہوتی، یہ چھوٹا سا اس میں فرق ہے۔

خوب! وَلِالزِيَادَۃِ  اور یہی "لام" کبھی کبھی زیادتی کے لیے آتی ہے۔ کیا مطلب؟ یعنی زائد ہوتی ہے ، زائد کا معنی میں پیچھے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اس کا معنی کیا ہوتا ہے؟ کہ اگر ہم اس کو حذف بھی کر لیں، اس کو ہٹا بھی لیں، تو اس سے اس کے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹھیک ہے؟ جیسے آیت مبارکہ ہے: "رَدِفَ لَكُمْ"، اب "لَكُمْ" میں اگر "لام" نہ بھی ہو اور "رَدِفَ كُمْ" اس کو پڑھیں، تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ "ردِفَ" کا معنی ہوتا ہے پیچھے آنے والا۔ "رَدِفَ لَكُمْ" وہ تمہارے پیچھے آ رہا ہے۔ "رَدِفَ لَكُمْ" وہ آ رہا ہے۔ "رَدِفَ" وہ آ رہے "لَكُمْ" تمہارے پیچھے۔

وَلِلتَّعْلِيلِ اور یہ "لام" مثل "با" کے، کبھی کبھی تعلیل کے لیے آتی ہے۔ تعلیل کا معنی کیا ہوتا ہے؟ یعنی اس فعل کی علت بیان کرنے کے لیے کہ "لام" کے بعد جو ہوتا ہے، وہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ فعل میں نے کیوں کیا؟ اس فعل کی علت یا فلاں یہ کام میں نے کیوں کیا؟ جیسے "جِئْتُکَ لِإِكْرَامِكَ"۔ "جِئْتَُ" فعل ہے، "آیا" کس کا مفعول ہے؟ "جِئْتُ" میں آیا تیرے پاس۔ کاف ضمیر خطاب کیا ہے؟ "جِئْتُکَ" میں آیا تیرے پاس۔ میرے آنے کی وجہاور علت کیا ہے؟ "لِإِكْرَامِكَ"۔ یہ "لام" بتا رہی ہے کہ میرے آنے کی علت کیا تھی؟ وہ تھی "لِإِكْرَامِكَ"، تیرے اکرام کے لیے، تیرے احترام کے لیے۔ یعنی میرے آنے کی علت تیرا احترام اور اکرام تھا۔ اس "لام" نے بتایا ہے کہ "جِئْتُ" میرے آنے کی علت ہے۔

وَلِلْقَسَمِ اور یہی "لام" کس کے لیے آتی ہے؟ قسم کے لیے بھی آتی ہے۔ جیسے "لِلَّهِ لَا يُؤَخِّرُ الْأَجَلُ"، "لِلَّهِ" اللہ کی قسم، "لَا يُؤَخِّرُ الْأَجَلُ"، موت تاخیر نہیں کرتی۔  "لِلَّهِ" پر "لام" قسم گیا ہے، اور اس سے پہلے "أُقْسِمُ" فعل مقدر ہوتا ہے۔ اصل میں "أُقْسِمُ لِلَّهِ لَا يُؤَخِّرُ الْأَجَلُ"۔

وَلِلْمُعَاقَبَةِ یہی "لام" معاقبت ہے۔ معاقبت کیا مطلب ہے؟ معاقبت کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کے انجام کو بیان کرنا۔ اور یہ اردو میں ہم کہتے ہیں "فلاں اللہ کرے ہماری عاقبت بخیر ہو"۔ عاقبت کیا؟ یعنی ہمارا انجام بخیر ہو۔ تو بسا اوقات یہ "لام" اس انجام کو بیان کرنے کے لیے آتی ہے۔ "لِلْمُعَاقَبَةِ" ٹھیک ہے جی؟ انجام کو بیان کرنا۔

اچھا، وہ کیسے؟ فرماتے ہیں: یہ دیکھو، مثال اس کی ہے۔ مثال اس کی کیا دی ہے؟ "لَزِمَ الشَرَّ لِلشَّقَاوَةِ"۔ "لَزِمَ" فعل ماضی ہو گیا ہوا، اس میں فعل ہو گیا۔ "لِلشَّقَاوَةِ"، اس نے شر کو لازم پکڑا۔ ٹھیک ہے جی؟ کیوں؟ "لِلشَّقَاوَةِ"، یہ انجام ہے۔ شر کو لازم پکڑا، کیا مطلب؟ بُرائی کو، غلط کاریوں کو۔ یعنی وہ ہمیشہ غلط کاریوں میں لگا رہا۔ "لزم ، پکڑا" کا معنی ہوتا ہے یعنی ہمیشہ لگا رہا، مسلسل کرتا رہا۔ آگیا ہے "لِلشَّقَاوَةِ"۔ "لِلشَّقَاوَةِ" کیا ہے؟ شقاوت کے لیے۔ کیا مطلب؟ یعنی انجام اس کا بدبختی ہے کہ وہ شر کو، برائیوں کو، بدیوں کو کرتا رہا "لِلشَّقَاوَةِ"، اپنے انجام ، بدبختی کے لیے۔ مراد کیا؟ یعنی یہ "لام" بتا رہی ہے کہ وہی بدبختی اس کا نتیجہ ہے کہ جو بندہ برائی اور مسلسل کرتا رہے گا، غلط کاریاں، انجام اس کا بدبختی، شقاوت ہے۔ ٹھیک ہو گیا؟ خوب، یہ بحث ہو گئی الحمدللہ لام کی ۔

4

مِن حرف جر کے معانی

 وہ "مِن"، "مِن" کا معنی ہوتا ہے اردو میں "سے"۔ "مِن" کن کاموں کے لیے آتا ہے؟ فرماتے ہیں "مِن" کا عمل تو یہ ہے کہ یہ اسم کو جار دیتا ہے، اور لِابْتِدَاءِ الْغَايَةِ، انتہاء کی ابتداء کو بیان کرتا ہے۔ یعنی "مِن" کیا بتاتا ہے؟ کہ یہ جس چیز کی انتہا ہے، اس انتہا ءکی ابتداء کیا تھی؟ "مِن" انتہاء کی ابتداء کو بیان کرتا ہے۔ یہ معنی اس کا ہوتا ہے۔ ایک معنی اس کا یہ ہے۔

اب یہ بات نوٹ کرنا ہے کہ ان سارے حروف میں یہی حرف جس جگہ استعمال ہوا ہے، جہاں اس جگہ کے حساب سے یہ کونسا والا معنی دے رہا ہے، اور کونسا والے معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ اب ذرا غور رکھنا ہے۔

وَمِنْ حروفِ جارہ میں سے ہے "مِن"۔ وَھِیَ لِابْتِدَاءِ الْغَايَةِ، یہ کس کے لیے آتا ہے؟ ابتدائے غایت کے لیے، یعنی انتہاء کی ابتداء کے لیے۔ ٹھیک ہو گیا  "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إِلَى الْكُوفَةِ"، "سِرْتُ" میں چلا "مِنَ الْبَصْرَةِ"، بصرہ سے "إِلَى الْكُوفَةِ" تک۔ اب "مِن" بتا رہا ہے کہ وہ کوفہ تک تو میں گیا ہوں، یہ تو ہے میری انتہا۔ میری ابتدا کہاں سے تھی؟ "سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ"، ابتدا کہاں سے تھی؟ چلنے کی۔ "مِن" بتا رہا ہے کہ اس کوفہ تک جو میری انتہا ہے، جہاں میں جا کے رکا ہوں، ابتدا "مِنَ الْبَصْرَةِ" یعنی ابتدا میری بصرہ سے تھی۔ ٹھیک ہو گیا۔

وَلِلتَّبْعِيضِ کبھی کبھی یہ "مِن" تبعیض کا معنی دیتا ہے۔ تبعیض کا معنی کیا ہوتا ہے؟ بعضیت، جزو،کچھ ۔ یہ بھی تبعیض ہوتی ہے، کچھ کے معنی میں تبعیض ہوتی ہے ۔ "أَخَذْتُ مِنَ الدَّرَاهِمِ"، میں نے لیے "مِنَ الدَّرَاهِمِ"، کچھ دراھم۔ "مِن" بتا رہا ہے کہ سارے نہیں، "مِنَ الدَّرَاهِمِ"، بعض دراہم۔ کہ میں نے سارے نہیں جو درہم پڑے تھے۔ جیسے ہم نہیں کہتے، اپنے اردو میں ہم کہتے ہیں "میں نے کچھ رقم لے لی ہے"۔ کچھ کہاں کہتے ہیں؟ جہاں ساری نہ اٹھائی ہو، بلکہ بہت ساری پڑی تھی، اُس میں سے کچھ لے لی۔ تبعیض کا معنی ہوتا ہے کچھ، اُن میں سے جزو۔

وَلِلتَّبْعِيضِ "مِن" کبھی کبھی تبعیض کا معنی دیتا ہے۔ ٹھیک ہو گئے جی؟ تبعیض، تبعیض کا معنی بعض، یعنی کچھ۔ جیسے ایک مثال میں کہتا ہوں: "أَخَذْتُ مِنَ الدَّرَاهِمِ"، میں نے لیے دراہم سے۔ کیا مطلب؟ "مِنَ الدَّرَاهِمِ" کا معنی ہوتا ہے "بَعْضَ الدَّرَاهِمِ"، یعنی کچھ دراہم۔ بعض دراہم جو میرے پاس کرنسی پڑی تھی، اُس میں سے کچھ میں نے لے لیے۔

"وَلِلتَّبْيِينِ"، یعنی یہی "مِن" کبھی کبھی تبیین کے لیے آتا ہے۔ تبیین کا معنی کیا ہوتا ہے؟ یعنی کسی معنیِ مبہم کو بیان کرتا ہے، کسی معنی کو واضح کرتا ہے۔ تبیین کہتے ہیں روشن کرنا، واضح کرنا۔ یہ "مِن" درحقیقت کسی معنی کی وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے نَحْو قَوْلِهِ تَعَالَى، جیسے قرآن مجید میں اللہ پاک کا فرمان ہے: "فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ"۔ اب درحقیقت غور کرو: "فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ"، "فَاجْتَنِبُوا" تم اجتناب کرو "الرِّجْسَ" سے، پلیدگی سے۔ آگے آگیا "مِنَ الْأَوْثَانِ"۔ اب غور کرو: "الْأَوْثَانِ" جمع "وَثَن" کی، "وَثَن" کہتے ہیں بت کو۔ "فَاجْتَنِبُوا" تم اجتناب کرو پلیدگی سے۔ "الرِّجْسَ" کہتے ہیں پلیدگی کو۔ خوب! "فَاجْتَنِبُوا مِنَ الْأَوْثَانِ"۔ آگیا کیا؟ "فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ"، تم اجتناب کرو "الرِّجْسَ" سے۔ اب یہ "الرِّجْسَ" تھوڑا سا مبہم ہے۔ اب اس میں ممکن ہے سمجھ نہ رہی ہو کہ یہ "الرِّجْسَ" سے مراد کیا ہے؟ آگیا آگیا "مِنَ الْأَوْثَانِ"۔ اس "مِن" نے اس "الرِّجْسَ" کی وضاحت کی۔ یہ جو فرما رہا ہے کہ تم "الرِّجْسَ" سے، پلیدگی سے اجتناب کرو، وہ "الرِّجْسَ" سے ہے کیا؟ وہ پلیدگی ہے کیا؟ تو فرماتے ہیں وہ ہے "مِنَ الْأَوْثَانِ" ، "الْأَوْثَانِ" سے مراد کیا ہے؟ یعنی بتوں سے۔ کہ یہ جو بت ہیں، یہ "الرِّجْسَ" ہیں، یہ پلیدگی ہیں، یہ گندگی ہیں۔ تو اب اس "مِن" نے "الرِّجْسَ" کے معنی کو واضح کیا ہے۔ تو اس کے لئے یہاں پر ہم کہتے ہیں کہ یہاں مِن تبیین کے لئے ہے یعنی رِجس میں جو ایک مبہم تھا کہ پلیدگی سے مراد پتہ نہیں کیا ہوگی اس سے مراد کیا ہوگی اس مِن نے آکر اس کو واضح کر دیا کہ اس رِجس سے مراد ہے الْأَوْثَانِ یعنی بُت اور وہ رجس کیا ہے الَّذِي ھُوَ الْاَوْثَان وہ ہیں وہی بُت،  میں نے بتایا کہ اَوْثان جمع وَثَن کی وَثَن کہتے ہیں بُت کو ٹھیک ہے ۔

وَلِالزِيَادَۃِ  اور یہ مِن بھی کبھی کبھی زیادہ ہوتا ہے جیسے پیچھے گذارش کی ہے نحوُ وَقَوْلِہ تَعَالَى [يَغْفِرْ لَكُمْ مِن ذُنُوبِکُم ] یَغْفِرْ لَكُمْ کہ وہ معاف کر دے گا تمہارے گناہوں کو یہاں ذُنُوبِکُم سے پہلے جو مِن ہے یہ مِن زائد ہے بس اگر یہاں مِن نا بھی ہو مِن نا بھی ہو تو بھی فرماتے ہیں مطلب تام ہو جاتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ٹھیک ہے۔

«اشتريت الفرس بسرجه»، وللتعدية، نحو قوله تعالى: ﴿ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ [البقرة: ١٧]، ونحو: «ذهبت بزيد» أي: أذهبته، وللمقابلة، نحو: «اشتريت العبد بالفرس»، وللقسم، نحو: «بالله الأفعلنَّ كذا»، وللاستعطاف، نحو: «ارحم بزيد»، وللظرفيّة نحو: «زيد بالبلد»، وللزيادة نحو قوله تعالى: ﴿لا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ [البقرة: ١٩٥]. واللام للاختصاص، نحو: «الجُلّ للفرس»، وللزيادة، نحو: ﴿رَدِفَ لَكُمْ [النمل: ٧٢]، أي: ردفكم، وللتعليل، نحو: «جئتك لإكرامك»، وللقسم نحو: «لله لا يؤخر الأجل»، وللمعاقبة، نحو: «لزم الشرّ للشقاوة». ومن وهي لابتداء الغاية، نحو: «سرت من البصرة إلى الكوفة»، وللتبعيض نحو: «أخذت من الدراهم» أي: بعض الدراهم، وللتبيين نحو قوله تعالى: ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ [الحج: ٣٠]، أي: الرجس الذي هو الأوثان، وللزيادة، نحو قوله تعالى: ﴿وَيَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ [الأحقاف: ٣١]. وإلى لانتهاء الغاية في المكان، نحو: «سرت من البصرة إلى الكوفة»، وللمصاحبة، نحو قوله تعالى: ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ [النساء: ٢]، أي: مع أموالكم، وقد