اگرچہ ہم نے اس کے دو درس پہلے پڑھے ہیں، لیکن تھوڑی سی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے اس کو شروع کیا تھا "جامع المقدمات" والی شرح "عوامل" سے۔ ایک شرح  ماۃ عامل" ہے جو پاکستان میں چھپی ہوئی ہے اور عام دکانوں پر مل جاتی ہے۔ کچھ احباب نے ہمیں یہ کہا ہے کہ "جامع المقدمات" تک رسائی ہر بندے کی دسترس میں نہیں ہے۔ جو لوگ گھروں میں بیٹھ کر اس کو پڑھنا چاہتے ہیں، تو آپ وہ والی شرح ماۃ عامل کو سامنے رکھیں جو بازار میں عام مل جاتی ہے اور ہر بندہ اس کو لے بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہم آج سے پھر دوبارہ اس شرح ماۃ عامل کی طرف جا رہے ہیں جو پاکستان میں عام طور پر بازاروں میں مل جاتی ہے۔ اس کی شروحات بھی اردو میں ہیں اور یہ عام دستیاب ہے۔
چونکہ اس شرح  ماۃ عامل" کا "جامع المقدمات" والی شرح ماۃ عامل" کے ساتھ تھوڑا سا فرق ہے، لیکن یہ فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔ کہیں کہیں تھوڑا بہت فرق ہے، مثلاً کہیں مثال مختلف دی گئی ہے یا کہیں زیادہ وضاحت کر دی گئی ہے، لیکن کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے فرق ہیں ۔ لیکن چونکہ کچھ احباب نے کہا ہے کہ آپ وہ والی کتاب سامنے رکھیں جو پاکستان میں عام دکانوں پر مل جاتی ہے، اس لیے ہم نے آج اس کو تھوڑا سا پھر دوبارہ شروع کیا ہے ۔
گزشتہ دو درسوں میں ہم نے "نحو" کے بارے میں گفتگو کی تھی کہ "نحو" کیا ہے، "نحو" کا مقام کیا ہے، اور اس کتاب کو انہوں نے کس انداز میں تقسیم کیا ہے۔ یہ بھی ہم نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس میں کہا تھا کہ ان شاءاللہ اس میں تیرہ ابواب ہوں گے اور تیرہ انواع میں اس کو تقسیم کریں گے۔
 پہلا باب حروف کے بارے میں ہے۔ پہلے درسوں میں بتایا تھا کہ "عوامل" کا مطلب ہے "عامل" کی جمع ۔ "عامل" کا لفظی معنی ہوتا ہے "عمل کرنے والا" یا "کام کرنے والا"۔ یہ بھی بتایا تھا کہ ہم ان کو "عوامل" اس لیے کہتے ہیں کہ یہ بھی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ جیسے میں نے وہاں مثال دی تھی کہ ہم پڑھتے ہیں: "بسم اللہ الرحمن الرحیم"۔ یہ "بسم اللہ" کی "میم" پر ہم جو زیر پڑھ رہے ہیں، اس کو ہم "بسمُ اللہ" کیوں نہیں پڑھ رہے ہیں؟ تو میں نے بیان کیا تھا کہ چونکہ اس اسم سے پہلے "باء" آ گئی ہے، اس "باء" نے یہ عمل کیا ہے کہ اس نے اسم کی "میم" کو زیر دی ہے۔ یہی زیر دینا، یہ اس "باء" کا عمل ہے، یہ اس "باء" کا کام ہے۔
اب پہلی نوع ہے ان حروف کے بارے میں ہے جو اسم کو جر دیتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ "فقط" کا کیا مطلب ہے؟ "فقط" کا مطلب ہے کہ یہ حروف صرف اسم کو جر دیتے ہیں یہ حروف کسی فعل پر داخل نہیں ہوتے اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے۔ ان حروف کا نام "حروف جارہ" رکھا جاتا ہے۔ یہ سترہ حروف ہیں۔ ان شاءاللہ ہم ان سب کو ایک ایک کر کے پڑھیں گے۔ پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ یہ سترہ حروف کون سے ہیں۔ ایک شعر میں انہوں نے جمع کیا ہے۔ وہ شعر کچھ یوں تھا:
بَاء، تَاء، کَاف، لَام، وَاو، مِیم، مِن، إِلَی، عَن، عَلَی، فِي، رُبَّ، مُذ، مُنذُ، حَتَّی، خَلَا، عَدَا۔
اب ان حروف میں سے پہلا حرف "باء" ہے۔ اس "باء" کو ذرا غور سے دیکھنا ہے کہ یہ "باء" صرف اسم کو جر دے دیتی ہے یعنی اس کا عمل ہے ، لیکن اس کے عمل کے علاوہ اس کے کچھ معانی بھی ہیں۔ اس کے کافی سارے معانی ہیں۔ ان شاءاللہ ہم ان سب کو ترتیب سے ذکر کریں گے۔ مثلاً یہ "باء" انہوں نے جس ترتیب سے شروع کیا ہے، اس ترتیب سے پڑھتے ہیں۔
"اَلبَاءُ لِلالصاق"، "باء" کیا کرتی ہے؟ ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانے کے لیے "باء" کو استعمال کیا جاتا ہے۔ "الصاق" کا معنی ہوتا ہے "چمٹنا" یا "چمٹانا"۔ خوب، یہ تو ہو گیا نا لفظی معنی "الصاق" یعنی ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ متصل ہو جانا، اس کا مل جانا۔ ٹھیک ہے؟ جی، یہ "باء" اس معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ اب ذرا غور کرو، جب ہم کہتے ہیں "بِهِ دَاءٌ" (اس آدمی کو بیماری ہے)، تو "باء" بتا رہی ہے کہ یہ بیماری اس کو چمٹی ہوئی ہے، بیماری اس کو لگی ہوئی ہے۔ اب پھر خود یہ فرماتے ہیں کہ "الصاق" کے بارے میں کہ یہ جو "الصاق" ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے "وَهُوَاِتِّصَالُ شَیئِِ بِشَیئِِ"، یعنی ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ متصل ہو جانا، چمٹ جانا۔ اب کبھی کبھی "اتصال" حقیقی ہوتا ہے اور کبھی کبھی مجازی۔ یہ بھی شاید گذشتہ درس میں نے بیان کیا تھا۔ "اتصال حقیقی" کا مطلب کیا ہے؟ کہ ایک چیز دوسری شے کے ساتھ ایک واحد شیئ ہو جائے، ہم ان کو جدا نہ کر سکیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں "بِهِ دَاءٌ" (اس کو بیماری ہے)۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تو بندہ ایک ہے اور یہ اس کی بیماری ایک ہے ۔ نہیں، بیماری یہ خاص کیفیت ہوتی ہے جو اس کے پورے جسم پر چمٹی ہو جاتی ہے۔ اس کو "اتصال حقیقی" کہتے ہیں۔ اور کبھی کبھی "اتصال مجازی ہوتا ہے، کہ نہیں، دو چیزیں ہوتی ہیں، دو شیئ ہوتی ہیں، واقع میں وہ الگ ہوتی ہیں، نظر میں بھی الگ ہوتی ہیں، لیکن ہم ان کو پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ شیئ اس شیئ کے ساتھ متصل ہے، یہ اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یہ چمٹی ہوئی ہے۔ لیکن وہ "اتصال مجازی" ہوتا ہے۔ بڑی پیاری مثال دی ہے، بس نہ کہتے ہیں "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" (میں زید کے پاس سے گزرا)۔ اب دیکھو، میں جہاں سے گزر رہا ہوں، میرا اپنا ایک وجود ہے، مستقل۔ زید کا اپنا وجود ہے، واقع میں دو الگ ہیں۔ لیکن میں کیا کہہ رہا ہوں؟ کہ میں اس کے پاس سے، اس سے متصل، اس کے قریب گزرا۔ یہ کیا مطلب؟ کہ میں جہاں سے گزرا، جس جگہ سے گزرا، زید اس کے قریب تھا۔ اب جہاں جو "اتصال" ہے، اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے بیماری انسان کے ساتھ چمٹی ہوتی ہے، کیا میں بھی اس کے ساتھ ایسے چمٹا ہوا تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ لیکن ہم پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ "اس کے ساتھ سے گزرا"، یعنی اس کو کہتے ہیں "اتصال مجازی"۔ بالکل آسان۔
اسی طرح "باء" استعانت (مدد طلب کرنے) کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جیسے "بِسْمِ اللہِ" میں بھی علماء کہتے ہیں کہ "باء" استعانت کے لیے ہے۔ جیسے "کَتَبْتُ بِالْقَلَمِ" (میں نے قلم کی مدد سے لکھا)۔ 
یہی با کبھی کبھی تعلیل (وجہ بیان کرنے) کے معنی میں بھی آتی ہے۔ "علت" کا معنی کیا ہے؟ کہ یہ کام ایسے کیوں ہوا۔ "علت" کا معنی جیسے قرآن مجید میں آیا ہے: "أَنكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ" (سورہ البقرہ)۔ تم لوگوں نے تحقیق کہ تم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تم لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ "علت" کیا تھی اس ظلم کی؟ "بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ" (اس لیے کہ تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا)۔ وہ جو بچھڑے کی پرستی تھی، وہ جو ایک مشہور واقعہ ہے، ٹھیک ہے جی؟ وہ جو بچھڑا تھا اور اس کی پرستی شروع کر دی، وہ سبب بنا۔ وہ "علت" ہے کہ تم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔
یہی با مصاحبت کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ مصاحبت کیا ہوتا ہے؟ ایک شیئ کا دوسری شیئ کے ساتھ ہونا۔ جیسے ہم کہتے ہیں نا، پیغمبر کے صحابی، یعنی مقصد کیا ہے؟ یعنی وہ ان کے ساتھ ہوتے تھے، ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اب یہاں "ساتھ" کا معنی مصاحبت کا معنی کچھ اور ہے۔ یہاں مصاحبت کیا ہے؟ جیسے ہم کہتے ہیں "اشْتَرَيْتُ الْفَرَسَ بِسَّرْجِہِ" (میں نے گھوڑا خریدا اس کی زین کے ساتھ)۔ یعنی مراد کیا؟ کہ صرف گھوڑا نہیں تھا، بلکہ اس کی زین بھی ساتھ تھی۔ اب آپ یہاں کہہ سکتے ہیں کہ یہاں "باء" "مع" کے معنی میں ہے۔ "مع" کا معنی ہوتا ہے "ساتھ"۔ مَعَنَا: یعنی ہمارے ساتھ، مَعِی : میرے ساتھ۔
یہی "باء" تعدیہ کے لیے بھی آتی ہے۔ تعدیہ کیا ہے؟ یہ وہ صرف میر (صرف) میں میں بیان کر چکا ہوں، پہلے بھی شاید درس میں بتایا تھا کہ کسی لازم کو متعدی کرنے کے لیے بھی "باء" آتی ہے۔ جیسے ایک فعل لازم ہو، جو صرف فاعل کے ساتھ ہو، یعنی تام ہو جاتا ہو، جس کو مفعول کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اگر اسی لازم کو ہم متعدی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو اس لازم کو اس "باء" کے ذریعے متعدی بناتے ہیں، یعنی اس کے ساتھ "باء" لگا دیں گے، تو وہ پھر لازم نہیں رہے گا، بلکہ متعدی کا معنی دے گا۔
خوب، اور بھی آگے پڑھتے ہیں۔ ذرا اس کا ترجمہ کر لیں، ایک ایک کر کے، تاکہ آپ کو آسانی ہو۔