درس شرح مائة عامل

درس نمبر 3: اسم کو فقط جر دینے والے حروف 2

 
1

خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

2

ابتدائی عبارتیں

3

گذشتہ ۲ درسوں کا خلاصہ

اگرچہ ہم نے اس کے دو درس پہلے پڑھے ہیں، لیکن تھوڑی سی وضاحت یہ ہے کہ ہم نے اس کو شروع کیا تھا "جامع المقدمات" والی شرح "عوامل" سے۔ ایک شرح  ماۃ عامل" ہے جو پاکستان میں چھپی ہوئی ہے اور عام دکانوں پر مل جاتی ہے۔ کچھ احباب نے ہمیں یہ کہا ہے کہ "جامع المقدمات" تک رسائی ہر بندے کی دسترس میں نہیں ہے۔ جو لوگ گھروں میں بیٹھ کر اس کو پڑھنا چاہتے ہیں، تو آپ وہ والی شرح ماۃ عامل کو سامنے رکھیں جو بازار میں عام مل جاتی ہے اور ہر بندہ اس کو لے بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہم آج سے پھر دوبارہ اس شرح ماۃ عامل کی طرف جا رہے ہیں جو پاکستان میں عام طور پر بازاروں میں مل جاتی ہے۔ اس کی شروحات بھی اردو میں ہیں اور یہ عام دستیاب ہے۔

چونکہ اس شرح  ماۃ عامل" کا "جامع المقدمات" والی شرح ماۃ عامل" کے ساتھ تھوڑا سا فرق ہے، لیکن یہ فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔ کہیں کہیں تھوڑا بہت فرق ہے، مثلاً کہیں مثال مختلف دی گئی ہے یا کہیں زیادہ وضاحت کر دی گئی ہے، لیکن کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے فرق ہیں ۔ لیکن چونکہ کچھ احباب نے کہا ہے کہ آپ وہ والی کتاب سامنے رکھیں جو پاکستان میں عام دکانوں پر مل جاتی ہے، اس لیے ہم نے آج اس کو تھوڑا سا پھر دوبارہ شروع کیا ہے ۔

گزشتہ دو درسوں میں ہم نے "نحو" کے بارے میں گفتگو کی تھی کہ "نحو" کیا ہے، "نحو" کا مقام کیا ہے، اور اس کتاب کو انہوں نے کس انداز میں تقسیم کیا ہے۔ یہ بھی ہم نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس میں کہا تھا کہ ان شاءاللہ اس میں تیرہ ابواب ہوں گے اور تیرہ انواع میں اس کو تقسیم کریں گے۔

 پہلا باب حروف کے بارے میں ہے۔ پہلے درسوں میں بتایا تھا کہ "عوامل" کا مطلب ہے "عامل" کی جمع ۔ "عامل" کا لفظی معنی ہوتا ہے "عمل کرنے والا" یا "کام کرنے والا"۔ یہ بھی بتایا تھا کہ ہم ان کو "عوامل" اس لیے کہتے ہیں کہ یہ بھی کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ جیسے میں نے وہاں مثال دی تھی کہ ہم پڑھتے ہیں: "بسم اللہ الرحمن الرحیم"۔ یہ "بسم اللہ" کی "میم" پر ہم جو زیر پڑھ رہے ہیں، اس کو ہم "بسمُ اللہ" کیوں نہیں پڑھ رہے ہیں؟ تو میں نے بیان کیا تھا کہ چونکہ اس اسم سے پہلے "باء" آ گئی ہے، اس "باء" نے یہ عمل کیا ہے کہ اس نے اسم کی "میم" کو زیر دی ہے۔ یہی زیر دینا، یہ اس "باء" کا عمل ہے، یہ اس "باء" کا کام ہے۔

اب پہلی نوع ہے ان حروف کے بارے میں ہے جو اسم کو جر دیتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ "فقط" کا کیا مطلب ہے؟ "فقط" کا مطلب ہے کہ یہ حروف صرف اسم کو جر دیتے ہیں یہ حروف کسی فعل پر داخل نہیں ہوتے اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے۔ ان حروف کا نام "حروف جارہ" رکھا جاتا ہے۔ یہ سترہ حروف ہیں۔ ان شاءاللہ ہم ان سب کو ایک ایک کر کے پڑھیں گے۔ پہلے بھی میں نے بتایا تھا کہ یہ سترہ حروف کون سے ہیں۔ ایک شعر میں انہوں نے جمع کیا ہے۔ وہ شعر کچھ یوں تھا:

بَاء، تَاء، کَاف، لَام، وَاو، مِیم، مِن، إِلَی، عَن، عَلَی، فِي، رُبَّ، مُذ، مُنذُ، حَتَّی، خَلَا، عَدَا۔

اب ان حروف میں سے پہلا حرف "باء" ہے۔ اس "باء" کو ذرا غور سے دیکھنا ہے کہ یہ "باء" صرف اسم کو جر دے دیتی ہے یعنی اس کا عمل ہے ، لیکن اس کے عمل کے علاوہ اس کے کچھ معانی بھی ہیں۔ اس کے کافی سارے معانی ہیں۔ ان شاءاللہ ہم ان سب کو ترتیب سے ذکر کریں گے۔ مثلاً یہ "باء" انہوں نے جس ترتیب سے شروع کیا ہے، اس ترتیب سے پڑھتے ہیں۔

"اَلبَاءُ لِلالصاق"، "باء" کیا کرتی ہے؟ ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانے کے لیے "باء" کو استعمال کیا جاتا ہے۔ "الصاق" کا معنی ہوتا ہے "چمٹنا" یا "چمٹانا"۔ خوب، یہ تو ہو گیا نا لفظی معنی "الصاق" یعنی ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ متصل ہو جانا، اس کا مل جانا۔ ٹھیک ہے؟ جی، یہ "باء" اس معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ اب ذرا غور کرو، جب ہم کہتے ہیں "بِهِ دَاءٌ" (اس آدمی کو بیماری ہے)، تو "باء" بتا رہی ہے کہ یہ بیماری اس کو چمٹی ہوئی ہے، بیماری اس کو لگی ہوئی ہے۔ اب پھر خود یہ فرماتے ہیں کہ "الصاق" کے بارے میں کہ یہ جو "الصاق" ہوتا ہے، یہ ہوتا ہے "وَهُوَاِتِّصَالُ شَیئِِ بِشَیئِِ"، یعنی ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ متصل ہو جانا، چمٹ جانا۔ اب کبھی کبھی "اتصال" حقیقی ہوتا ہے اور کبھی کبھی مجازی۔ یہ بھی شاید گذشتہ درس میں نے بیان کیا تھا۔ "اتصال حقیقی" کا مطلب کیا ہے؟ کہ ایک چیز دوسری شے کے ساتھ ایک واحد شیئ ہو جائے، ہم ان کو جدا نہ کر سکیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں "بِهِ دَاءٌ" (اس کو بیماری ہے)۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تو بندہ ایک ہے اور یہ اس کی بیماری ایک ہے ۔ نہیں، بیماری یہ خاص کیفیت ہوتی ہے جو اس کے پورے جسم پر چمٹی ہو جاتی ہے۔ اس کو "اتصال حقیقی" کہتے ہیں۔ اور کبھی کبھی "اتصال مجازی ہوتا ہے، کہ نہیں، دو چیزیں ہوتی ہیں، دو شیئ ہوتی ہیں، واقع میں وہ الگ ہوتی ہیں، نظر میں بھی الگ ہوتی ہیں، لیکن ہم ان کو پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ شیئ اس شیئ کے ساتھ متصل ہے، یہ اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یہ چمٹی ہوئی ہے۔ لیکن وہ "اتصال مجازی" ہوتا ہے۔ بڑی پیاری مثال دی ہے، بس نہ کہتے ہیں "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" (میں زید کے پاس سے گزرا)۔ اب دیکھو، میں جہاں سے گزر رہا ہوں، میرا اپنا ایک وجود ہے، مستقل۔ زید کا اپنا وجود ہے، واقع میں دو الگ ہیں۔ لیکن میں کیا کہہ رہا ہوں؟ کہ میں اس کے پاس سے، اس سے متصل، اس کے قریب گزرا۔ یہ کیا مطلب؟ کہ میں جہاں سے گزرا، جس جگہ سے گزرا، زید اس کے قریب تھا۔ اب جہاں جو "اتصال" ہے، اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے بیماری انسان کے ساتھ چمٹی ہوتی ہے، کیا میں بھی اس کے ساتھ ایسے چمٹا ہوا تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ لیکن ہم پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ "اس کے ساتھ سے گزرا"، یعنی اس کو کہتے ہیں "اتصال مجازی"۔ بالکل آسان۔

اسی طرح "باء" استعانت (مدد طلب کرنے) کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جیسے "بِسْمِ اللہِ" میں بھی علماء کہتے ہیں کہ "باء" استعانت کے لیے ہے۔ جیسے "کَتَبْتُ بِالْقَلَمِ" (میں نے قلم کی مدد سے لکھا)۔ 

یہی با کبھی کبھی تعلیل (وجہ بیان کرنے) کے معنی میں بھی آتی ہے۔ "علت" کا معنی کیا ہے؟ کہ یہ کام ایسے کیوں ہوا۔ "علت" کا معنی جیسے قرآن مجید میں آیا ہے: "أَنكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ" (سورہ البقرہ)۔ تم لوگوں نے تحقیق کہ تم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تم لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ "علت" کیا تھی اس ظلم کی؟ "بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ" (اس لیے کہ تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا)۔ وہ جو بچھڑے کی پرستی تھی، وہ جو ایک مشہور واقعہ ہے، ٹھیک ہے جی؟ وہ جو بچھڑا تھا اور اس کی پرستی شروع کر دی، وہ سبب بنا۔ وہ "علت" ہے کہ تم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔

یہی با مصاحبت کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ مصاحبت کیا ہوتا ہے؟ ایک شیئ کا دوسری شیئ کے ساتھ ہونا۔ جیسے ہم کہتے ہیں نا، پیغمبر کے صحابی، یعنی مقصد کیا ہے؟ یعنی وہ ان کے ساتھ ہوتے تھے، ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اب یہاں "ساتھ" کا معنی مصاحبت کا معنی کچھ اور ہے۔ یہاں مصاحبت کیا ہے؟ جیسے ہم کہتے ہیں "اشْتَرَيْتُ الْفَرَسَ بِسَّرْجِہِ" (میں نے گھوڑا خریدا اس کی زین کے ساتھ)۔ یعنی مراد کیا؟ کہ صرف گھوڑا نہیں تھا، بلکہ اس کی زین بھی ساتھ تھی۔ اب آپ یہاں کہہ سکتے ہیں کہ یہاں "باء" "مع" کے معنی میں ہے۔ "مع" کا معنی ہوتا ہے "ساتھ"۔ مَعَنَا: یعنی ہمارے ساتھ، مَعِی : میرے ساتھ۔

یہی "باء" تعدیہ کے لیے بھی آتی ہے۔ تعدیہ کیا ہے؟ یہ وہ صرف میر (صرف) میں میں بیان کر چکا ہوں، پہلے بھی شاید درس میں بتایا تھا کہ کسی لازم کو متعدی کرنے کے لیے بھی "باء" آتی ہے۔ جیسے ایک فعل لازم ہو، جو صرف فاعل کے ساتھ ہو، یعنی تام ہو جاتا ہو، جس کو مفعول کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن اگر اسی لازم کو ہم متعدی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو اس لازم کو اس "باء" کے ذریعے متعدی بناتے ہیں، یعنی اس کے ساتھ "باء" لگا دیں گے، تو وہ پھر لازم نہیں رہے گا، بلکہ متعدی کا معنی دے گا۔

خوب، اور بھی آگے پڑھتے ہیں۔ ذرا اس کا ترجمہ کر لیں، ایک ایک کر کے، تاکہ آپ کو آسانی ہو۔

4

پہلاحرف جر: باء

"النَّوْعُ الْأَوَّلُ" (پہلی نوع) "حُرُوفٌ" (حروف) کے بارے میں ہے۔ یہ حروف "تَجُّرُ الْاِسْمَ" (اسم کو جر دیتے ہیں)۔ "فَقَطْ" (فقط) کا معنی اب بتاتے ہیں کہ یہ فا علیحدہ ہے، بلکہ یہ فصیحہ ہے، اور "قَطُّ" یہ اسم فعل ہے۔ خوب، یعنی یہ صرف اسم کو جر دیتی ہے۔ کیا مطلب؟ آپ اس کی وضاحت کیا کر سکتے ہیں کہ جب یہ اسم کو جر دے لے گی، تو اس کے بعد مزید کوئی اور عمل نہیں کرے گی۔ "وَتُسَمَّى" (اور انہیں کہا جاتا ہے) یہ حروف جو اسم کو جر دیتے ہیں، ان حروف کا نام "حُرُوفًا جَارَّةً" (حروف جر) رکھا جاتا ہے۔ اور یہ حروف جو حروف جر ہیں، "تَجُرُ الْاِسْمَ" (اسم کو جر دیتے ہیں)۔ "سَبْعَةَ عَشَرَ حَرْفًا" (سترہ حروف) ہیں۔ کتنے ہو گئے؟ "سَبْعَةَ عَشَرَ" (سترہ) حروف ہیں۔ جن میں سے پہلا حرف "الْبَاءُ" (باء) ہے۔ یہ جو ہم اردو میں پڑھتے ہیں "الف، بے، تے" سے، عربی میں اس طرح پڑھتے ہیں: "أَلِف، بَاء، تَاء، ثَاء"، اس طرح اس کو پڑھا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں: "الْبَاءُ" پہلا حرف ہے۔ "بَاء" حروف جارہ میں سے ہے۔ "بَاء" کا عمل کیا ہے؟ اس کا عمل یہ ہے کہ یہ "بَاء" اسم کو جر دیتی ہے، اس کو زیر دیتی ہے۔ اور

 "الْبَاءُ لِلْاِلْصَاقِ" (باء الصاق کے لیے ہے۔ "الْاِلْصَاقِ" کا معنی کیا ہوتا ہے؟ "الْاِلْصَاقِ" کا معنی ہے: "اتصالُ شَيْءٍ بِشَيْءٍ" (ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ متصل ہونا، مل جانا، چمٹ جانا)۔ ٹھیک ہے نا؟ خوب، آگے چلیں۔

اب یہ جو "الْاِلْصَاقِ" ہے، کہ یہ جو ایک شے دوسری شے کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یا تو یہ "الْاِلْصَاقِ" حقیقی ہو گا، یا پھر مجازی۔ "الْاِلْصَاقِ حَقِيقَةً" (حقیقی اتصال) کا معنی کیا ہے؟ جیسے "بِهِ دَاءٌ" (اس کو بیماری ہے)۔ اب آپ دیکھیں، یہ جو بیماری انسان پر آتی ہے، جیسے میں کہتا ہوں: (مجھے بخار ہو گیا ہے)۔ اب ہم واقعے میں دکھا سکتے ہیں کہ بخار الگ ہو اور میں الگ نہیں، 

"وَإِمَّا مَجَازًا" (یا پھر مجازی) ہو گا، یعنی واقعے میں دو چیزیں الگ ہوں گی، مستقل ہوں گی، لیکن ہم کہیں گے کہ یہ شے اس کے ساتھ متصل ہے، ملی ہوئی ہے۔ جیسے مثال: "مَرَرْتُ بِزَيْدٍ" (میں زید کے پاس سے گزرا)۔ اب دیکھو، "بَاء" نے زید کو جر دے دیا، زید کے ساتھ متصل ہو کر۔ کیا مطلب؟ یعنی اس کا اصل ترجمہ یہ بن جائے گا: "اِلْتَصَقَ مُرُورِی" یعنی میرا گزرنا "بِمَكَانٍ" (ایسی جگہ سے) "يَقْرُبُ مِنْهُ زَيْدٌ" (کہ جس کے زید قریب تھا)۔ یعنی کیا مطلب؟ میں ایک ایسی جگہ سے گزرا کہ جس جگہ کے زید بالکل قریب تھا۔ اب زید کا اپنا ایک وجود تھا، میرا اپنا وجود تھا، لیکن جہاں سے میں گزر رہا تھا، اس کے زید بالکل قریب تھا۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ "اتِصَال" ہے، مل گیا ہے، لیکن یہ "اتصَال مَجَازی ہے۔

اسی طرح فرماتے ہیں: "بَاء" جر دینے کے علاوہ ایک اور معنی بھی دیتی ہے، "وَلِلْاِسْتِعَانَةِ" (استعانت کے لیے)۔ "بَاء" آتی ہے استعانت کے لیے۔ "الْاِسْتِعَانَةِ" کا لغوی معنی ہوتا ہے: مدد طلب کرنا۔ یعنی "بَاء" جہاں آتی ہے، اس کا معنی مدد طلب کرنا ہوتا ہے۔ جیسے "كَتَبْتُ بِالْقَلَمِ" (میں نے قلم سے لکھا)۔ مطلب کیا؟ یعنی "كَتَبْتُ بِاِسْتِعَانَةِ الْقَلَمِ" (میں نے قلم کی مدد سے لکھا)۔ اس لیے علماء نحو فرماتے ہیں کہ یہ جو "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ" میں "بَاء" ہے، یہ "بَاء" بھی استعانت کی ہے۔ کیا مطلب؟ کہ میں اللہ کے اسم سے مدد لیتے ہوئے ابتدا کر رہا ہوں، جو رحمان اور رحیم ہے۔ ٹھیک ہے نا؟ خوب۔

"وَقَدْ تَكُونُ لِلتَّعْلِيلِ" (اور کبھی یہ تعلیل کے لیے بھی ہوتی ہے)۔ بہت واضح کر دیا گیا ہے۔ اوپر کہا گیا ہے کہ "بَاء" "اِلْصَاقِ" کے لیے ہے، "بَاء" استعانت کے لیے ہے۔ اب کہتے ہیں: "قَدْ تَكُونُ لِلتَّعْلِيلِ" (یہ کبھی تعلیل کے لیے بھی ہوتی ہے)۔ یہ "قَدْ" بتاتا ہے کہ یہ کبھی کبھار کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی کیا مطلب؟ اس کا آپ اردو میں ترجمہ یوں کریں گے: "وَقَدْ تَكُونُ" (اور کبھی یہ ہوتی ہے)۔

کبھی "باء" تعلیل (وجہ بیان کرنے) کے لیے بھی آتی ہے، کہ یہ کام جو ہوا ہے، اس کام کی علت کیا ہے؟ اب "قَدْ تَكُونُ" (یہ کبھی کبھار ہوتی ہے)۔ یعنی کبھی کبھار اس کا مطلب ہے الصاق اور استعانت کے لیے زیادہ آتی ہے، اور کبھی کبھی تعلیل (وجہ بیان کرنے) کے لیے بھی آتی ہے۔ تعلیل کہتے ہیں علت کو بیان کرنا، کہ یہ کام کیوں ہوا، اس کو بیان کرتے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ" (بے شک تم لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا)۔ اب یہ حکم آیا نا کہ تم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اب آگے فرمایا: "بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ" (اس لیے کہ تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا)۔ یہ جو "باء" ہے، "بِاتِّخَاذِكُمْ" سے پہلے، یہ "باء" اس ظلم کی علت کو بیان کر رہی ہے کہ تم نے جو اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اس کی علت کیا تھی؟ "بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ" (اس لیے کہ تم نے بچھڑے کی پرستی کی، اس کی پوجا شروع کر دی) ۔ وہ علت تھی۔

اسی طرح فرماتے ہیں کہ یہ "باء" مصاحبت کے معنی میں بھی آتی ہے۔ مصاحبت کا مطلب کیا ہے؟ جیسے ایک لفظ ہوتا ہے عربی میں "مَعَ" (میم، عین)، اور اردو میں اس کا ترجمہ ہوتا ہے "ساتھ"۔ مصاحبت کا معنی یہ ہے کہ "باء" کبھی مصاحبت کے معنی دیتی ہے۔ مصاحبت کا معنی کیا ہے؟ یعنی "مَعَ" کے معنی میں، یعنی "ساتھ"۔ اردو میں آپ ترجمہ کریں "ساتھ" معنا : یعنی ہمارے ساتھ، مَعِی : میرے ساتھ ۔ جیسے میں کہوں: "اشْتَرَيْتُ الْفَرَسَ بِسَّرْجِہ" (میں نے گھوڑا خریدا اس کی زین کے ساتھ)۔ اشْتَرَيْتُ میں نے خریدا "الْفَرَسَ" (گھوڑا) "بِسَّرْجِہ" (اس کی زین کے ساتھ)۔ "سَرْج" کہتے ہیں زین کو۔ اس کی زین کے ساتھ۔ "باء" "ساتھ" کا معنی دیتی ہے۔ یہ "باء" مصاحبت، یعنی "ساتھ" کا معنی دیتی ہے۔

تعدیہ کے لیے "باء":اسی طرح فرماتے ہیں کہ یہ "باء" تعدیہ کے معنی بھی دیتی ہے۔ تعدیہ کا معنی کیا ہے؟ تعدیہ کا معنی ہے کہ لازم کو متعدی کرنے کے لیے بھی یہ "باء" استعمال ہوتی ہے۔ کیا مطلب؟ کہ ایک فعل اصل میں لازم ہو، اور ہم اگر اس کو متعدی استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو پھر وہاں "باء" کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے آیتِ مجیدہ ہے: "ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ" (اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کو لے لیا)۔ "ذَهَبَ" (وہ گیا) لازم ہے۔ "ذَهَبَ" کا معنی کیا جاتا ہے؟ وہ گیا، وہ چلا گیا۔ ٹھیک ہے؟ یہ لازم ہے، اس کو مفعول کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آیتِ مجیدہ میں کیا ہے؟ "ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ" (اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کو لے لیا)۔ اب دیکھو نا، یہ "ذَهَبَ" لازم تھا، "بِنُورِهِمْ" (ان کے نور)۔ ہم جو "نور" مفعول تھا، اس پر ایک "باء" لگا دی۔ کہا: "بِنُورِهِمْ" (ان کے نور کے ساتھ)۔ اور اس "باء" نے "ذَهَبَ" کو بھی لازم سے متعدی میں تبدیل کر دیا۔

اگر پوچھیں کہ لازم اور متعدی میں کیا فرق ہے، تو آپ کہیں گے: لازم وہ ہوتا ہے جس کو فقط فاعل کی ضرورت ہو۔ جیسے "قَامَ زَيْدٌ" (زید کھڑا ہوا)۔ اب اس کو کسی مفعول کی ضرورت نہیں ہے۔ اور متعدی وہ ہوتا ہے جس کو کسی مفعول کی بھی ضرورت ہو۔ جب تک وہ بیان نہ کیا جائے، تب تک جملہ پورا نہیں ہوتا۔

مثال:اسی طرح فرماتے ہیں: "ذَهَبْتُ بِزَيْدٍ" (میں زید کو لے گیا)۔ اب "ذَهَبْتُ" جب لازم ہو، تو اس کا معنی کیا ہوتا ہے؟ "ذَهَبْتُ" یعنی میں گیا۔ "ذَهَبْتُ" (میں گیا)۔ لیکن اگر ہم اس کو متعدی بنانا چاہتے ہیں، تو پھر فرماتے ہیں: اس میں "باء" اس کے مفعول پر لگا دیں گے۔ کہیں گے: "ذَهَبْتُ بِزَيْدٍ" (میں زید کو لے گیا)۔ اب "ذَهَبْتُ" کا معنی یہ نہیں ہوگا کہ "میں گیا"، بلکہ اب "ذَهَبْتُ" کا معنی کیا ہوگا؟ "ذَهَبْتُ بِزَيْدٍ" (میں زید کو لے گیا)۔ "ذَهَبْتُ" فعل ہے، "أَنَا" فاعل ہے، "وهو" مفعول بن گیا۔ ٹھیک ہے؟

"وَلِلْمُقَابَلَةِ" (مقابلہ کے لیے بھی یہ "باء" آتی ہے)۔ مقابلہ کیا ہے؟ یعنی فلاں شے فلاں شے کے مقابل، فلاں شے فلاں شے کے بدلے۔ جیسے "اِشْتَرَيْتُ الْعَبْدَ بِالْفَرَسِ" (میں نے غلام کو گھوڑے کے مقابلے میں خریدا)۔ "اشْتَرَيْتُ" فعل ہے، اس کا لفظی معنی "میں نے خریدا"۔ "اشْتَرَيْتُ" واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ "اشْتَرَيْتُ" (میں نے خریدا)۔ "الْعَبْدَ" مفعول ہے، یعنی غلام کو۔ "بِالْفَرَسِ" (گھوڑے کے مقابلے میں)۔ کیا مطلب؟ یعنی میں نے عبد (غلام) کو خریدا گھوڑے کے مقابلے میں۔ یعنی عبد (غلام) لیا اور گھوڑا دیا۔
وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ و آلِ مُحَمَّد

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله على نَعمائه الشاملة، وآلائه الكاملة، والصلاة على سيِّد الأنبياء محمّد المصطفى، وعلى آله المجتبى.

اعلم أنّ العوامل في النحو على ما ألّفه الشيخ الإمام أفضل علماء الأنام عبد القاهر بن عبد الرحمن الجُرجانيُّ - سقى الله ثراه وجعل الجنّة مثواه - مائة عامل لفظيّة ومعنويّة؛ فاللفظيّة منها على ضربين سماعيّة وقياسيّة؛ فالسماعيّة منها أحد وتسعون عاملاً، والقياسيّة منها سبعة عوامل، والمعنويّة منها عددان، وتتنوّع السماعيّة منها على ثلاثة عشر نوعاً.

النوع الأوّل

حُروف تجرّ الاسم فقط، وتسمّى «حُروفاً جارّة»، وهي سبعة عشر حرفاً: الباء للإلصاق، وهو اتّصال الشيء بالشيء، إمّا حقيقة، نحو: «به داء» وإمّا مجازا، نحو: «مررت بزيد» أي: التصق مروري بمكان يقرب منه زيد وللاستعانة، نحو: «كتبت بالقلم» وقد تكون للتعليل، نحو قوله تعالى: ﴿إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ [البقرة: ٥٤]، وللمصاحبة، نحو:

«اشتريت الفرس بسرجه»، وللتعدية، نحو قوله تعالى: ﴿ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ [البقرة: ١٧]، ونحو: «ذهبت بزيد» أي: أذهبته، وللمقابلة، نحو: «اشتريت العبد بالفرس»، وللقسم، نحو: «بالله الأفعلنَّ كذا»، وللاستعطاف، نحو: «ارحم بزيد»، وللظرفيّة نحو: «زيد بالبلد»، وللزيادة نحو قوله تعالى: ﴿لا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ [البقرة: ١٩٥]. واللام للاختصاص، نحو: «الجُلّ للفرس»، وللزيادة، نحو: ﴿رَدِفَ لَكُمْ [النمل: ٧٢]، أي: ردفكم، وللتعليل، نحو: «جئتك لإكرامك»، وللقسم نحو: «لله لا يؤخر الأجل»، وللمعاقبة، نحو: «لزم الشرّ للشقاوة». ومن وهي لابتداء الغاية، نحو: «سرت من البصرة إلى الكوفة»، وللتبعيض نحو: «أخذت من الدراهم» أي: بعض الدراهم، وللتبيين نحو قوله تعالى: ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ [الحج: ٣٠]، أي: الرجس الذي هو الأوثان، وللزيادة، نحو قوله تعالى: ﴿وَيَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ [الأحقاف: ٣١]. وإلى لانتهاء الغاية في المكان، نحو: «سرت من البصرة إلى الكوفة»، وللمصاحبة، نحو قوله تعالى: ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ [النساء: ٢]، أي: مع أموالكم، وقد