درس شرح مائة عامل

درس نمبر 2: اسم کو فقط جر دینے والے حروف 1

 
1

خطبہ

بسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ 

2

ابتدائی عبارتیں

3

اسم کو فقط جر دینے والے حروف

کل آغاز یہاں سے کیا تھا کہ یہ علم نَحو ہمیں سکھاتا ہے کہ صحیح عربی کو کیسے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس میں بہت سارے حروف ہیں، بہت سارے اسماء ہیں جو عَوَامِل کہلاتے ہیں۔ عَامِل کا مطلب یہ ہے کہ وہ جس پر پہلے آ جائیں، جس پر پہلے عَامِل داخل ہو، وہ کسی نہ کسی حرکت کو تبدیل کرتے ہیں۔ کوئی زَبَر دیتا ہے، کوئی زَیر دیتا ہے۔ ان شاء اللہ ہم تفصیل سے پڑھیں گے۔

تو انہوں نے کہا تھا: عَوَامِل لَفظِیَّۃ بھی ہوتے ہیں، عَوَامِل مَعنَوِیَّۃ بھی ہوتے ہیں۔ پھر کہا تھا: عَوَامِل لَفظِیَّۃ کچھ سَماعِیَّۃ ہیں اور کچھ قِیاسِیَّۃ ہیں ۔ سَماعِیَّۃ 91 ذکر کیے تھے، اور قِیاسِیَّۃ 7۔ اب جو یہ عَوَامِل سَماعِیَّۃ ہیں، جن کی تعداد 91 تھی، ان 91 عَوَامِل کو علماءِ نَحو نے خاص طور پر یہاں پر علماء عبد القاہر جُرْجَانِی اور اس کی شرح کرنے والے عبد الرحمٰن جامی نے ان 91 کو تیرہ اقسام میں تقسیم کیا ہے، تاکہ بات سمجھنے میں آسان ہو۔

ذہن نشین رہے کہ سارے حروف ایک جیسا عمل نہیں کرتے، سارے اسماء ایک جیسا عمل نہیں کرتے۔ تو انہوں نے اس کو الگ الگ اقسام میں تقسیم کیا ہے، تاکہ یہ پتہ چل جائے اور آسانی ہو۔ مثلاً پہلی نوع انہوں نے تحریر فرمائی ہے حروف کے بارے میں، کہ کچھ حروف ایسے ہوتے ہیں جن میں دو خوبیاں ہوتی ہیں، یا جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ ایک تو وہ فقط اسم پر داخل ہوتے ہیں، یعنی کسی فعل پر وہ حرف داخل نہیں ہوتے، اور دوسرا پھر جس اسم پر داخل ہوتے ہیں، اس کو وہ جر دیتے ہیں، اس کے آخر میں وہ زَیر بنا دیتے ہیں۔ ان شاءاللہ ہم بتائیں گے کیسے۔

مثلاً یہ حروف ٹوٹل سترہ17 ہیں: بَاء، تَاء، کَاف، لَام، وَاو، مِیم، مِن، إِلَی، عَن، عَلَی، فِي، رُبَّ، مُذ، مُنذُ، حَتَّی، خَلَا، عَدَا۔

اگر آپ نے نحو میر پڑھی ہے تو اس میں یہ شعر تھا:بَاو تَاو کَافُ لَامُ وَاوُ مِیمُ مُذ خَلَا رَبْ حَاشَا۔۔۔

یعنی سترہ حرف ایسے ہیں جو اسم پر داخل ہوتے ہیں اور پھر اس کو جر دیتے ہیں۔ اب اس سے آپ نے دو باتیں سمجھ رہی ہیں:

  1. یہ اسم پر داخل ہوتے ہیں، یعنی فقط اسم پر داخل، فعل پر داخل نہیں ہوتے۔

  2. یہ فقط اسم پر داخل ہو کر جر دیتے ہیں، یعنی ان کا کام ہے جس پر آ جائیں، اس کو جر دینا۔

جب یہ جر دے لیتے ہیں، ان کا وہ کام ختم ہوتا ہے۔ ہم ان شاءاللہ ان سارے سترہ حروف کو ایک ایک کر کے پڑھیں گے۔ چونکہ ہر حرف جہاں وہ اسم کو جر دے رہا ہوتا ہے، وہاں وہ ایک خاص معنی بھی دے رہا ہوتا ہے۔ تو ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ حروف جو حروف جارہ کہلاتے ہیں، جو اسم کے آخر کو جر دیتے ہیں، یہ جر دینے کے علاوہ کس معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی اور معنی بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ہم ان شاءاللہ اس کتاب میں یہ بھی پڑھیں گے کہ ہر حرف جر دینے کے علاوہ ایک اور معنی بھی دیتا ہے، اور ممکن ہے کوئی حرف کئی کئی معنی دیتا ہو۔

مثلاً ہم شروع کرتے ہیں سب سے پہلے حروف جارہ میں سے بَاء کو۔ "بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ" میں اسم سے پہلے آ گئی بَاء۔ تو اس بَاء نے کہا کہ "بِسمِ اللہِ" میں "مِیم" پر زیر پڑھنی ہے، "بَسمَ اللہِ" نہیں پڑھنی۔ کیوں؟ چونکہ یہ بَاء جارہ ہے۔

اگر زید سے پہلے بَاء آ جائے، تو "بِزَیْدٍ" پڑھیں گے۔ "بِزَیْداََ " پڑھنا بھی صحیح نہیں، "بِزَیْدُُ" پڑھنا بھی صحیح نہیں ۔ کیوں؟ چونکہ بَاء جار جس اسم پر داخل ہو جاتی ہے، پھر اس کو یہ جر دیتی ہے، اب بِضَرَبَ یہ صحیح نہیں کیوں ؟ کیونکہ یہ حروف جارہ فعل پر داخل نہیں ہوتے ، بِیَضرِبُ بھی صحیح نہیں ۔

حروف جارہ میں سے سب سے پہلے جس کو شروع فرما رہے ہیں، وہ ہے البَاء: بَاء اسم پر داخل ہوتی ہے، ایک اسم کو جر دیتی ہے ۔ دو، اس کے علاوہ یہی بَاء جو یہاں انہوں نے تحریر فرمائے، تقریباً نو(9) معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ یعنی آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس بَاء جارہ کے نو معنی ہیں ۔ کہ کہیں پر کوئی معنی دے رہی ہوگی، کہیں پر کوئی اور معنی دے رہی ہوگی، کہیں پر کوئی اور۔ یعنی یہ ہر جگہ بَاء ایک معنی کے لیے استعمال  نہیں ہوتی ہے۔

مثالیں ایک دو دیتے ہیں، تو بالکل واضح ہو جائے گا۔ مثلاً اگر میں کہتا ہوں: "جَلَسْتُ بِالمَسْجِدِ"، اب یہاں بھی بَاء ہے، "المَسْجِدِ" پر داخل ہوئی، اس کو اس نے جر دی: "بِالمَسْجِدِ"۔ اب اس کا معنی ہم کیا کریں گے؟ "میں مسجد میں بیٹھا"۔ اب یہاں اس بَاء نے اردو میں "میں" کا معنی دیا ہے۔

کہیں پر یہی بَاء اور معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔ مثلاً "کَتَبتُ بِالقلِمِ"، اب یہاں یہ بَاء موجود ہے، لیکن "میں" کے معنی میں ہم اس کا ترجمہ یہ نہیں کریں گے۔ "میں نے لکھا قلَم کے ساتھ"۔  ہے تو وہی بَاء جو "جَلَسْتُ بِالمَسْجِدِ" میں تھی، لیکن یہاں معنی کوئی اور ہے ۔ یہاں معنی کیا ہے؟ "میں نے لکھا قلَم کے ساتھ"، یعنی قلَم سے مدد لیتے ہوئے میں نے لکھا۔

تو مقصود سمجھانے کا ان کا کیا ہے؟ مقصود ان کا یہ ہے کہ یہ جو حروف جارہ ہیں، جہاں یہ اسم کو جار دیتے ہیں، تو ان کے مختلف معنی ہوتے ہیں۔ مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ سارے حروف جارہ ایک ہی معنی نہیں دیتے، بلکہ جر دینے کے علاوہ ان کے معنی بھی مختلف ہیں۔

بَاء سے کہ بَاء جہاں اسم کو جر دیتی ہے، یہ بَاء تقریباً نو مختلف معنی میں استعمال ہوتی ہے، یا اس کے نو مختلف معنی ہیں۔ اور ہر معنی کی انہوں نے ساتھ مثال بھی دی ہے۔

تیرہ اقسام میں سے پہلی قسم ہے حروف کے بارے میں، کون سے حروف وہ حروف جو اسم کو جر دیتے ہیں، ان کو کہتے ہیں حروف جارہ۔ پہلی قسم آ گئی حروف جارہ کے بارے میں۔

النَوعُ الأَوّلُ : تیرا انواع میں سے پہلی نوع ہے حروف کے بارے میں کون سے حروف ؟ حُرُوفٌ تَجُرُّ الاِسمَ فَقَط وَهِيَ سَبْعَةَ عَشَرَ حَرْفًا، جو اسم کو جر دیتے ہیں پہلی نوع آگئی جو اسم کو جر دیتے ہیں ان کو حروف جارہ کہتے ہیں  یعنی  اسم کو فقط جر دیتے ہیں اور بس اور یہ سترہ حروف ہیں، کل سترہ ہیں۔ ہم ان شاءاللہ ایک ایک کر کے سب کو پڑھیں گے۔ 

4

پہلا حرف جر: باء

الاول :

ان سترہ حروف میں سے سب سے پہلے "با" کا ذکر ہے۔ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" میں بھی "با" جارہ ہے۔ ان شاءاللہ جب ہم ترکیب پڑھیں گے تو "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کی ترکیب یوں پڑھیں گے

  • "با" جارہ

  • "اسم" مضاف

  • "اللہ" مضاف الیہ

  • "الرحمن" صفت اولی

  • "الرحیم" صفت ثانی

لفظ "اللہ" مضاف الیہ ہے، جو دونوں صفتوں کے ساتھ مل کر مضاف الیہ بنتا ہے۔ ان شاءاللہ وہاں ہم پڑھیں گے تو یہی "با" جارہ ہے۔ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے معنی ہیں: میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بہت مہربان، نہایت رحم والا ہے۔

اس "با" کے کئی معنی ہیں، یعنی یہ صرف ایک معنی میں استعمال نہیں ہوتی، بلکہ کئی معنی ہیں، جن میں سے نو9 کو یہاں ذکر کیا گیا ہے۔

پہلا معنی: للاِلْصَاق: اِلْصَاق کا معنی چمٹنا یا چمٹانا ہوتا ہے، یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانا ۔ یہ اِلْصَاق کبھی حقیقی ہوتا ہے اور کبھی مجازی۔

  • حقیقی اِلْصَاق: جب ایک چیز دوسری چیز سے حقیقتاً چمٹی ہوتی ہے، بِزَیدِِ دَاءٌ جیسے بیماری کا زید کے ساتھ چمٹنا۔

  • مجازی اِلْصَاق: جب حقیقت میں چمٹنا نہ ہو، لیکن ہم اسے چمٹا ہوا فرض کرتے ہیں، جیسے "مَرَرْتُ بِزَیْدٍ" (میں زید کے پاس سے گزرا) ۔ یہاں زید کے ساتھ حقیقی چمٹنا نہیں ہے، لیکن ہم اسے مجازی طور پر چمٹا ہوا فرض کرتے ہیں ۔

    اِلتَصَقَ مُرُورِي بِمَوضِعِِ يَقرُبُ مِنهُ زَيدٌ یعنی: میرا گزر ایسے مقام سے ہوا جو زید کے قریب تھا۔

    میرا گزر ایسے مقام سے ہوا جو زید کے قریب تھا۔ یعنی میں ایسی جگہ سے گزرا جہاں زید موجود تھا۔ یہاں "با" کا استعمال مجازی طور پر ہوا ہے، کیونکہ حقیقت میں میرا گزر زید کے بالکل ساتھ نہیں تھا، بلکہ وہ اُس جگہ کے قریب تھا۔ اس لیے یہاں "اِلْصَاق" (چمٹنا) حقیقی نہیں، بلکہ مجازی ہے۔

    لفظی ترجمہ:

  • التصق: چمٹ گیا۔

  • مروري: میرا گزر۔

  • بموضع: ایسی جگہ سے۔

  • يقرب منه: جو اس کے قریب تھا۔

  • زيدٌ: زید۔

دوسرا معنی: للاستعانة: استعانت کا معنی مدد طلب کرنا ہے ۔ "با" استعانت کے لیے بھی آتی ہے، جیسے "کَتَبْتُ بِالْقَلَمِ" (میں نے قلم سے لکھا)۔ یہاں "با" کا مطلب ہے کہ میں نے لکھنے کے لیے قلم سے مدد لی ۔

تیسرا معنی: للمصاحبة : مصاحبت کا معنی ساتھ ہونا ہے ۔ مصاحبہ اردو میں ہم کہتے ہیں ساتھ کو ٹھیک ہے جی ساتھ فلان فلان کا مصاحب ہے یہ صحابی اسی سے ہے صحابہ پیامبر یعنی جو پیغمبر کے ساتھ تھے
مثال : "خَرَجَ زَیْدٌ بِعَشِيرَتِه" (زید اپنے خاندان کے ساتھ نکلا) ۔ یہاں "با" مصاحبت کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔

وَقَد يَجِيءُ بِمَعنى مِن : یہ با ایسی بھی ہے جو کبھی کبھی بَمَعْنَا مِنْ کے بھی استعمال ہوتی ہے جیسے آیتِ مجیدہ ہے: عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ یعنی ایسا چشمہ جسے اللہ کے بندے پانی پیتے ہیں اب بِھَا یہاں بِھَا بَمَعْنَا مِنْھَا کے او مِنْھَا ایسا چشمہ جس سے
وَبِمَعْنی عَنَ اور کبھی کبھی یہ بَمَعْنَا عَن  عین اور نون عَن کے بھی آتی ہے جیسے : فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا   ، فَاسْأَلْ بِهِ یعنی اصل میں فَاسْأَلْ عَنہُ ، فَاسْأَلْ بِهِ ظاہراً بِہ ہے لیکن اسے فَاسْأَلْ عَنہُ  یعنی تو اسے سوال کر ،کس کا ، خَبِیراََ اور خبیر سے مطلق خبر دینے والوں سے خوب

چوتھا معنی: للمقابلة"با" مقابلہ کے لیے بھی آتی ہے،  یہ شیئ اس شیئ کے مقابل واقع ہوئی جیسے بِعْتُ هذا بهذا  میں نے اس شیئ کو بیچا اس شیئ کے بدلے میں جیسے "بِعْتُ الْکِتَابَ بِمِائَةِ رُوْبَۃٍ" (میں نے کتاب سو روپے کے بدلے بیچی)۔ یہاں "با" مقابلہ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ ایک طرف کتاب تھی ایک طرف ۱۰۰ روپیہ تھا ۔

پانچواں معنی: للتِعدِیة

اب تھوڑا سا نحومیر میں آپ نے پڑھا ہوگا، اور صرف میر میں بھی اس کا ذکر آتا ہے کہ یہ جو فعل ہوتے ہیں، یہ فعل دو قسم کے ہوتے ہیں: کچھ لازم ہوتے ہیں اور کچھ متعدی۔ لازم اس کو کہتے ہیں کہ جو فاعل کے ساتھ مکمل ہو جائے، ٹھیک ہے جی؟ اور متعدی اس کو کہتے ہیں جہاں ساتھ مفعول کو بتانے کی بھی ضرورت ہو۔ چھوٹی سی مثالیں دونوں کی دے دیتا ہوں، تو آسان ہو جائے گا۔

مثلاً ہم کہتے ہیں:

  • قَامَ زَيْدٌ (زید کھڑا ہوا)۔یہاں "قَامَ" فعل لازم ہے، کیونکہ اس کے ساتھ مفعول کی ضرورت نہیں ہے۔ بات مکمل ہو گئی۔

لیکن دوسری طرف ہم کہتے ہیں:

  • ضَرَبَ زَيْدٌ عَمْرًا (زید نے عمرو کو مارا) یہاں "ضَرَبَ" فعل متعدی ہے، کیونکہ اس کے ساتھ مفعول (عَمْرًا) کو بیان کرنا پڑتا ہے۔

لازم فعل وہ ہوتا ہے جہاں مفعول کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور متعدی فعل وہ ہوتا ہے جہاں مفعول کو ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ایک آسان بات ہے: کچھ افعال لازم ہوتے ہیں، جن میں صرف فاعل کو ذکر کرنے سے بات مکمل ہو جاتی ہے، اور کچھ افعال متعدی ہوتے ہیں، جن کے ساتھ مفعول کو بھی بیان کرنا پڑتا ہے۔

اب یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ "الخامس للتعدية"، یعنی یہ "با" فعل کو متعدی بنانے کے لیے آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی فعل لازم ہو (یعنی اسے مفعول کی ضرورت نہ ہو)، لیکن اگر اس لازم فعل پر "با" آجائے، تو یہ "با" اس لازم فعل کو متعدی بنا دیتی ہے۔

مثال:

  • ذَهَبَ (وہ گیا)۔ یہ فعل لازم ہے۔

  • ذَهَبَ بِهِ (وہ اسے لے گیا)۔ یہ فعل متعدی ہے۔

یہاں "با" نے فعل "ذَهَبَ" کو متعدی بنا دیا، جس کا مطلب ہے کہ اب اس فعل کو مفعول کی ضرورت ہے۔

مثال کے طور پر:

  • ذَهَبْتُ (میں چلا گیا)۔ یہ فعل لازم ہے، کیونکہ اسے مفعول کی ضرورت نہیں ہے۔

  • ذَهَبْتُ بِزَيْدٍ (میں زید کو لے گیا)۔ یہ فعل متعدی ہے، کیونکہ یہاں "با" نے فعل کو متعدی بنا دیا ہے، اور "زَيْدٍ" مفعول بن گیا ہے

"با" کبھی فعل کو متعدی بنانے کے لیے بھی آتی ہے، جیسے "ذَھَبْتُ بِزَیْدٍ" (میں زید کو لے کر گیا)۔ یہاں "با" نے فعل "ذَھَبَ" کو متعدی بنایا ہے

چھٹا معنی:چھٹا معنی ہے "لِسَبَبِيَّۃِِ"، یعنی "با" بتاتی ہے کہ یہ کام کیوں ہوا۔ یعنی "با" ایک فعل کے سبب یا وجہ کو بیان کرتی ہے۔ جر تو وہ دے گی، لیکن اس کے علاوہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس فعل کے سبب کو واضح کرتی ہے۔

ذرا غور کریں:

  • ضَرَبْتُهُ بِسُوءِ اَدَبِهِ (میں نے اس کو مارا اس کی بری عادت کی وجہ سے)۔ یہاں "با" بتا رہی ہے کہ میرے اس کو مارنے کا سبب کیا تھا۔ وہ سبب اس کی بدتمیزی، بداخلاقی، یا کوئی بری عادت تھی، جو اس فعل (ضرب) کا سبب بنی۔

تو "با" یہاں بیان کر رہی ہے کہ:

  • ضَرَبْتُهُ (میں نے اس کو مارا)۔

  • بِسُوءِ اَدَبِهِ (اس کی بری عادت کی وجہ سے)۔

یعنی "با" نے بتایا کہ میرے اس کو مارنے کی وجہ کیا تھی۔ اس کی بداخلاقی یا بدتمیزی اس فعل کا سبب تھی، جس کی وجہ سے یہ فعل واقع ہوا۔
صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

كتاب شرح العوامل في النّحو

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على سيّدنا محمّد وآله أجمعين.

[العوامل و اقسامها]

أمّا بعد : فإنّ العوامل في النّحو على ما ألّفه الشيخ الفاضل عبد القاهر بن عبد الرّحمن الجرجاني ، مائة عامل ، وهي تنقسم الى قسمين : لفّظيّة ، ومعنويّة.

فاللّفظيّة منها تنقسم الى قسمين : سماعيّة ، وقياسيّة ، والسماعيّة منها : أحَدٌ وتسعون عاملاً ، والقياسيّة منها : سبعة عوامل ، والمعنويّة منها : عددان ، فالجملة : مائة عامل ، والسماعيّة منها تتنوّع على ثلاثة عشر نوعاً :

[بيان انواع العوامل السماعى‏]

النوع الأوّل : حروف تجرّ الاسم فقط وهي سبعة عشر حرفاً :

الأوّل الباء : ولها معانٍ :

الأوّل : للإلصاق إمّا حقيقة نحو : بزَيْدٍ داء ، وإمّا مجازاً ، نحو : مررت بزيد ، أي : التصق مروري بموضع يقرب منه زيد.

الثانى : للاستعانة ، نحو : كتبت بالقَلَمِ ، أي : باستعانته.

الثالث : للمصاحبة ، نحو : خَرَجَ زيدٌ بعشيرتِه أي : بصحبة عشيرته ، وقد يجيء بمعنى من ، نحو : «عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ» (١) ، أي : منها وبمعنى عَنْ ، نحو : فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا (٢) أي : عنه.

الرابع : للمقابلة ، نحو : بِعْتُ هذا بهذا ، أي : بِعْتُ هذا الشيء بمقابلة هذا الشيء.

الخامس : للتعدية ، نحو : ذهَبْتُ بِزَيدٍ.

السادس : للسببيّة ، نحو : ضَرَبْتُهُ بِسُوء أدَبِهِ.

السابعُ : للظرفيّة ، نحو : جَلَسْتُ بالمسْجِدِ.

الثامنُ : للزيادة ، قياساً في النفي والاستفهام ، نحو : ما زيدٌ بقائمٍ ، وهل زيدٌ بقائمٍ ، وسماعاً في المرفوع ، نحو : «وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا» (٣) ، وفي المنصوب نحو : «وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ» (٤) ، ويُعرف بِأنّها لو أسقطت لم يخلّ بالمعنى.

التاسع : للتفدية ، نحو : بأبي وأمّي وتدخُل على المظهر كما مرّ وعلى المضمر نحو : به داءٌ وبك شفاء.

الثاني مِنْ : ولها معان :

أحدها : لابتداء الغاية في المكان ، نحو : سِرْتُ مِنَ الْبَصْرَةِ إلَى الْكُوفَةِ ، وقد يكون لِلزمانِ ، نحو : «لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ» (٥) ويعرف بصحّة وضع زمان فى موضعه.

____________________________

(١) الإنسان : ٦.

(٢) الفرقان : ٥٩.

(٣) نساء : ٧٩.

(٤) بقره : ١٩٥.

(٥) روم : ٤.