درس شرح مائة عامل

درس نمبر 1: عوامل

 
1

خطبہ

2

عربی گرامر کی ضرورت

أَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ.

( بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ، الحَمدُ لِلہِ رَبِّ العَالَمِینَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ أَجمَعِینَ۔ أَمَّا بَعدُ:

فَإِنَّ العَوَامِلَ فِي النَّحوِ عَلَى مَا أَلَّفَہُ الشَّیخُ الفَاضِلُ عَبدُ القَاھِرِ بنُ عَبدِ الرَّحمٰنِ الجُرْجَانِیُّ )۔

گزارش کی تھی کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کو سمجھنے کے لیے ہمیں عربی گرامر سے آگاہ ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ کوئی بھی زبان ہو، اس زبان کے اپنے کچھ قواعد اور ضوابط ہوتے ہیں ۔ جب تک ہم اس زبان کے ان قواعد اور ضوابط سے آگاہ نہ ہوں، ہم اس زبان سے صحیح مطلب کو سمجھ نہیں پاتے ۔ قرآن مجید عربی میں ہے، احادیث مبارکہ عربی میں ہیں ۔ عربی ایک مستقل زبان ہے، جس کا ایک لغت ہے۔ اس زبان کے ان قواعد کو بھی جاننا ضروری ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید "بِسمِ اللہِ" کی ابتدا سے لے کر "وَالنَّاسِ" تک کسی حرف پر زبر ہوتی ہے، کسی پر زیر ہوتی ہے، کسی پر پیش ہوتی ہے، کسی پر دو زبر ہوتی ہیں، اور کوئی جگہ ساکن ہوتی ہے جس پر کوئی حرکت نہیں ہوتی ۔ تو ہمیں ان سب قواعد اور قوانین کو جاننا ہوگا جو ہمیں یہ بات سمجھا سکیں کہ جہاں زبر ہے تو کیوں ہے، زیر ہے تو کیوں ہے، پیش ہے تو کیوں ہے، اور اگر کوئی جگہ حرکت نہیں ہے تو وہ کیوں ہے ۔ جس علم نے ہمیں یہ چیز سمجھانی ہے، اسے عِلمُ النَّحو کہتے ہیں۔

عِلمُ النَّحو کے بارے میں ایک مشہور جملہ ہے: "النَّحو فِی الکَلَامِ کَالْمِلْحِ فِی الطَّعَامِ"۔ علم نحو کی عربی گفتگو میں وہی حیثیت ہے جو نمک کی کھانے میں ہوتی ہے۔ اگر آپ کی روٹی میں نمک نہ ہو تو میرا خیال ہے کہ کوئی بندہ بغیر نمک کے کھانا نہیں کھا سکتا۔ بیمار مجبور ہوتے ہیں، ورنہ کھانا بے ذائقہ ہو جاتا ہے۔ تو جو لوگ نحو نہیں جانتے ہوتے، نحو نہیں سمجھتے ہوتے، ان کی عربی بھی ویسی ہوگی، غلط سلط ہو جائے گی۔ تو علم نحو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

علم نحو کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ تاریخ میں ایک شخصیت ہیں، أَبُو الأَسوَدِ الدُّؤَلِیُّ، جو أمیر المؤمنین علی بن أبی طالب علیہ السلام کے زمانے میں تھے۔ لکھا ہے کہ ایک دن وہ مولا علی علیہ السلام کی خدمت میں آتے ہیں تو امام پریشان بیٹھے تھے۔ أَبُو الأَسوَدِ نے سوال کیا: "جناب، آج آپ پریشان ہیں؟" فرمایا: "میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ عرب ہیں اور کچھ عجمی، اور عجمی بھی ایسے ہیں جو عربی بولتے ہیں، عرب میں آ کر رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر عجمیوں کو عربی قوانین کی صحیح سمجھ نہ آئی تو یہ عربی صحیح طرح سے بگڑ جائے گی۔" اس کے بعد لکھا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے دو سطریں أَبُو الأَسوَدِ کو لکھ کر دیں اور کہا: "یہ معیار ہے، اب اس کے مطابق جاؤ اور عربی زبان کے کچھ قوانین مرتب کرو۔" پھر أَبُو الأَسوَدِ نے کچھ قوانین مرتب کیے، کچھ حروف لکھے، کچھ جملے لکھے، افعال لکھے، اور پھر ان کی تصحیح ہوتی رہی۔ اس طرح سے علم نحو کی بنیاد رکھی گئی۔(ایک قول یہ ہے اور بھی ہیں)

"نَحْو" کے لغت میں بعض نے بارہ معانی ذکر کیے ہیں، بعض نے چودہ معانی ذکر کیئے ہیں کہ "نَحْو" کا لغوی معنی ہے: "قصد" "نَحْو" کا لغوی معنی ہے: طرف "نَحْو" کا لغوی معنی ہے: "مثل"   "نَحْو" کا لغوی معنی ہے: کسی کی پیروی کرنا ، "نَحْو" کا لغوی معنی ہے: کسی پر اعتماد کرنا ، "نَحْو" کا لغوی معنی ہے: کسی سے دور ہونا ۔ آخر میں بارہ یا چودہ مانی مختلف کتب میں اس لفظ "نَحْو" کے ذکر ہوئے ہیں۔

خوب! اب ہماری جو بحث علم "نَحْو" میں ہے، تو اب ہمارا سوال یہ ہوگا: علم "نَحْو" کسے کہتے ہیں؟

علم نحو کی تعریف جو علماء علم نحو نے کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسے قواعد اور قوانین کا علم ہے جو اسم، فعل، اور حرف کے بارے میں بتا سکے کہ کہاں معرب ہوتے ہیں اور کون سے مبنی ہوتے ہیں۔ اگر معرب ہیں تو ان پر اعراب کیا ہوتا ہے؟ اور وہ قوانین ہمیں بتائیں گے کہ کون سا کلمہ کس کلمے کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے اور کون سا نہیں ملایا جا سکتا۔ یہ کام بھی علم نحو کرتا ہے۔ علم نحو سے ہماری غرض یہ ہوتی ہے کہ ہم خطائے لفظی سے بچ سکیں، یعنی اگر ہم علم نحو کے عالم ہوں گے تو عربی الفاظ کو غلط اعراب کے ساتھ نہ لکھیں گے، نہ پڑھیں گے۔ یہ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔

ہم علم نحو کی بالکل ابتدائی اور پہلی کتاب "شَرحُ مَائۃِ عَامِل" پڑھ رہے ہیں۔ "مِأَۃُ عَامِل" عبد القاہر الجرجانی کی ہے۔ جرجان ایران میں خراسان کے قریب کا علاقہ ہے۔ وہاں کے رہنے والے ایک شخصیت تھے۔ انہوں نے سو عامل کو جمع کر کے ایک کتابچے کی شکل دی۔ بعد میں اس کی شرح عبد الرحمن جامی نے لکھی۔ عبد الرحمن بہت بڑے نحوی تھے، ملا جامی کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے اس کی شرح کی، جو ہم شروع کر رہے ہیں، یہ وہی ملا جامی والی شرح ہے۔ "شَرحُ مَائۃِ عَامِل" عربی میں لکھی گئی ہے۔ پاکستان کے تمام مذہبی کتاب خانوں پر یہ موجود ہے۔ بہت ساری اس پر اردو میں ترجمے اور شروحات بھی آ چکی ہیں۔ تمام مدارس، خواہ شیعہ ہوں یا سنی، پہلے سال کے کورس میں اس کو پڑھاتے ہیں۔ حوزات علمیہ ایران اور عراق میں بھی، بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی دینی علوم پڑھائے جاتے ہیں، ابتدا میں یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے۔

اس میں کسی حد تک آپ کو آشنائی ہو جائے گی ۔ صرف آپ کو جو مشکل پیش آئے گی، وہ یہ ہوگی کہ چونکہ کتاب عربی میں ہے اور پہلی ہے، آپ نے اس سے پہلے عربی کی کوئی اور کتاب نہیں پڑھی ہے ۔ اس حوالے سے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ کتاب وہ بندہ شروع کرے، وہ طالب علم یا وہ خواتین و حضرات جو گھر میں بیٹھ کر پڑھنا چاہتے ہیں، جن کو قرآن مجید ناظرہ پڑھنا آتا ہو۔ چونکہ اگر وہ قرآن مجید کو ناظرہ پڑھ سکتے ہوں گے تو ان کا ذہن اور ان کی زبان عربی لغت سے آشنا ہوگی۔ ان کو پتہ ہوگا کہ زیر، زبر، پیش کیا ہوتے ہیں، کہیں پر وقف ہوتا ہے تو وہ کیا ہوتا ہے۔ تو جب تک قرآن مجید ناظرہ پڑھنا بھی انسان کو اگر حافظ آئے تو سبحان اللہ، لیکن کم از کم ناظرہ پڑھنا آتا ہو، پھر اس کتاب کو شروع کرے۔ اس سے پہلے اگر وہ شروع کر دے گا تو اس کو زیادہ مشکل ہوگی، چونکہ نہ اس کا ذہن عربی الفاظ کے ساتھ مانوس ہے، نہ اس کی زبان عربی الفاظ کے ساتھ مانوس ہے۔ تو میری گزارش یہ ہے کہ جو حضرات بھی اس کو شروع کر رہے ہیں، وہ پہلے قرآن مجید کم از کم ناظرہ پڑھنا سیکھ لیں، تاکہ اس کو سمجھنے میں ان کو آسانی ہو۔

3

عوامل اور ان کی اقسام

شرح مِأَۃُ عَامِل : مِئۃُ کہتے ہیں عربی میں "سو ۱۰۰" کو "عَامِل" کا مَعنی ہوتا ہے، یعنی "عَمَل کرنے والا"۔ ویسے تو "عَامِل" اب آپ ان شاءاللہ عِراق جائیں گے یا جس بھی عربی ملک میں جائیں گے، تو "عَامِل" وہ کہتے ہیں مَزدُور کو، کام کرنے والے کو۔ فلان بندہ کون ہے؟ فلان شَخْص "عَامِل" ہے، یعنی وہ کام کرتا ہے، یعنی "عَامِل" ہوتا ہے۔ مُتَعَلِّم کے مُقابِل میں، فلان "مُتَعَلِّم" ہے، یعنی وہ اسٹوڈنٹ ہے، فلان "عَامِل" ہے، یعنی کام کرتا ہے۔ کوئی بھی کام کرتا ہو۔

یہاں جو ہم بحث شروع کر رہے ہیں، عِلمِ نَحو میں وہ یہ ہے کہ سو عَامِل ہیں۔ کیا مطلب؟ یعنی یہ سو قِسمیں ہیں: اِسم، فِعل، حُرُوف۔ ان شاءاللہ سارے آپ کی خِدمت میں عَرض کریں گے۔ یہ عَامِل ہیں کہ، مثال آپ کو سمجھا دوں، پھر آپ کے ذہن میں ایک چیز بیٹھ جائے گی۔ مثلاً یہ حرف "عَامِل" ہے، یعنی عَامِل ہے تو کیا؟ یعنی جس پر بھی یہ داخل ہوگا، اُس میں کوئی نہ کوئی حرکت کے حوالے سے، اِعراب کے حوالے سے عَمَل کرے گا۔ مثلاً آسان، مثلاً ہم پڑھتے ہیں: "بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ"۔ اب ہم نے "بِسمِ اللہِ" یہ جو "مِیم" پر زَیر پڑھ رہے ہیں، کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اِس "مِیم" پر زَیر پڑھنے کا جواب کیوں پڑھ رہے ہیں؟ یہ ہمیں عِلمِ نَحو بتائے گا۔ کیوں؟ عِلمِ نَحو یہ بتائے گا کہ اِسم سے پہلے آ گئی ہے "بَاء" (بِسمِ اللہِ)، اور "بَاء" جس اِسم سے پہلے بھی آ جاتی ہے، اُس اِسم کے آخر میں زَیر پڑھی جاتی ہے۔ لہٰذا "بِسمِ اللہِ" پڑھیں گے، تو یہ نَحوی قوانین کے مطابق آپ کی دُرست ہوگی۔ اگر "بَسمَ اللہِ" پڑھیں گے، تو وہ غلط ہو جائے گا۔ یہ ہے، یہ ہوتا ہے کہ یہ "بَاء" جو "بِسمِ اللہِ" میں ہے، یہ عَامِل ہے۔

اِسی طرح "بِسمِ اللہِ" میں "اللہ" کی "ہَاء" پر بھی ہم زَیر پڑھ رہے ہیں: "بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ" پڑھ رہے ہیں، نہ کہ "بِسمِ اللہَ الرَّحمٰنِ" تو نہیں پڑھ رہے ہیں ، "بِسمِ اللہُ الرَّحمٰنِ" بھی نہیں پڑھ رہے تو یہ بھی یہ عِلمِ نَحو ہمیں بتائے گا کہ "بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ" میں "اللہ" کی "ہَاء" پر زَیر کیوں پڑھنی ہے ۔ یہ عِلمِ نَحو کا کام ہے ۔ کیوں؟ عِلمِ نَحو کہتا ہے کہ اِسم مُضاف ہے لفظ "اللہ" کی طرف، اور جو مُضاف الیہ ہوتا ہے، اُس پر ہمیشہ زَیر (کسرَہ) پڑھا جاتا ہے۔

اب ہم دو چار چیزیں اصل کتاب سے پہلے اِن کو ذہن نشین کر لیں ۔ اردو میں ہم جسے زَبر کہتے ہیں، عربی گرامر میں اُسے "فَتحَہ" کہتے ہیں ۔ ایک زَبر کو "فَتحَہ"، دو زَبر کو "نَصب"، ایک پیش کو "ضَمَّہ"، دو پیش ہوں تو اُس کو عربی میں "رَفعہ" کہتے ہیں۔ ایک زَیر ہوں تو "کسرَہ"، اور دو زَیر ہوں تو اُس کو عربی میں "جَرّ" کہتے ہیں۔ اب آپ نے اِس کو یاد کر لینا ہے، کیونکہ آگے ساری بحثیں پھر اِسی پر ہوں گی۔

بس ، جب ہم کہتے ہیں کہ "بَاء" اِسم کو کسرَہ دے رہی ہے، تو اِس کا مطلب ہے "بَاء" اِسم کو کسرَہ دے رہی ہے، یعنی "بَاء" جس پر داخل ہو گی، اُس پر آخر میں زَیر آ جائے گی۔ تو پہلے یہ نام آپ یاد کر لیں:

  • فَتحَہ: ایک زَبر

  • نَصب: دو زَبر

  • ضَمَّہ: ایک پیش

  • رَفع: دو پیش

  • کسرَہ: ایک زَیر

  • جَرّ: دو زَیر

یہ اچھی طرح آپ کو یاد ہونے چاہئیں، کیونکہ بار بار اِن کا ذکر آئے گا۔ پھر آپ کو پریشان ہوگی: یہ کیا ہے؟ ٹھیک ہے۔

مِئۃُ عَامِل، سو عَامِل، یعنی سو عَامِل ایسے ہیں: بعض اِن میں سے اِسم ہیں، بعض اِن میں سے حُرُوف ہیں، کہ جو عَمَل کرتے ہیں، کہ جس پر وہ داخل ہوتے ہیں، اُس پر کون سا اِعراب پڑھنا ہے، اُس کو کون سی حرکت دینی ہے، اِس میں یہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان شاءاللہ ہم اِس کو پڑھیں گے۔

 اب اِن میں سے کچھ عَوامِل ہیں، اِن کو کہا جاتا ہے "عَوامِلِ لَفظِیَّہ"، اور کچھ کو کہا جاتا ہے "عَوامِلِ مَعنَوِیَّہ"۔ 

لَفظِیَّہ اُن کو کہتے ہیں جو زبان پر جاری ہو سکیں ۔ مَعنَوِیَّہ اُن کو کہتے ہیں کہ جو زبان پر جاری نہ ہوں، جیسے ہم نے کہا: "بِسمِ اللہِ"، "بَاء" یہ ہماری زبان پر جاری ہوئی، ٹھیک ہے۔

کچھ ایسے ہوتے ہیں جو زبان پر جاری نہیں ہوتے، اُن کو کہتے ہیں "عَوامِلِ مَعنَوِیَّہ"، وہ ان شاءاللہ آخر میں آئیں گے، کہ یہ کونسے ہیں ۔ مثلاً مُبتَدَا اور خَبَر کی وہاں مثال آئے گی۔

خوب! اب فرماتے ہیں کہ یہ عَوامِل جو لَفظِیَّہ ہیں، جو زبان پر جاری ہو سکتے ہیں، اِن کی پھر دو قسمیں ہیں: ایک کو کہتے ہیں "عَوامِلِ قِیاسِیَّہ"، اور ایک قسم کو کہتے ہیں "عَوامِلِ سَماعِیَّہ"۔ کیا فرق ہے عَوامِلِ قِیاسِیَّہ اور سَماعِیَّہ میں؟ بالکل آسان، آپ جواب دیں گے: سَماعِیَّہ اُن کو کہتے ہیں کہ جیسے ہم نے اُس لُغت والوں سے، اُس زبان والوں سے سُنا ہے، ویسے اُس کو ہم نے آگے چلانا ہے، کہ وہ کہتے ہیں اِس طرح، ہم بھی کہیں گے اِس طرح ۔ اور قِیاسِیَّہ وہ ہوتے ہیں جو ایک قاعِدہ، قانون اور ضابطے کے تحت ہوتے ہیں، کہ ایک قانون ہوتا ہے، کہ جو لفظ بھی ایسا ہوگا، جو اِس قانون پر پورا آئے گا، وہاں عَامِل ہوگا، اِس کو کہتے ہیں قِیاسِیَّہ ۔ اور جو فقط جیسے ہم نے عرب والوں سے سُنیں، بس اُسی کو لے کے آگے چلتے رہنا ہے، تو اُس کو کہتے ہیں عَوامِلِ سَماعِیَّہ۔ یعنی "سَمْع" کہتے ہیں سُننے کو، یعنی سُنی سُنائی پر چلنا۔ اور "قِیاس" ہوتا ہے کہ نہیں، قواعد اور ضوابط اور قانون کے مطابق چلنا۔

تو یہ عَوامِلِ لَفظِیَّہ، کچھ سَماعِیَّہ ہیں، اور کچھ قِیاسِیَّہ۔ یعنی کچھ کے لیے ہمارے پاس ایک ضابطہ، ایک قانون موجود ہے، جو جو بھی اِس قانون پر پورا آئے گا، ہم کہیں گے یہ عَامِل ہے۔ اور کچھ سَماعِیَّہ ہیں، کہ جیسے ہم نے عرب سے سُنا ہے، بس اُسی کی اتباع کریں گے، کہ ٹھیک ہے جناب، یہ آگے ہیں جو عَوامِلِ سَماعِیَّہ ہیں، کہ جیسے ہم نے عرب سے سُنا، ہم بھی اُن کی اتباع کرتے ہیں، کیونکہ عرب والے اُن کو عَامِل کہتے ہیں، ہم بھی اُن کو عَامِل کہیں گے ، تو اُن کی تعداد ہے 91 (سَماعِیَّہ) اور جو عَوامِلِ قِیاسِیَّہ ہیں، یعنی جن کے لیے ایک ضابطہ اور قاعِدہ کلیہ دیا گیا ہے، وہ ہیں 7۔ 91 اور 7 کتنے ہو گئے؟ 98۔ اور دو عَامِل ہیں مَعنَوِیَّہ۔ جب دو وہ ساتھ ملائیں گے، تو یہ کتنے ہو جائیں گے؟ پورے سو 100 ٹھیک ہے۔

بس عَوامِلِ سَماعِیَّہ کو تیرہ فصلوں میں اُنہوں نے تقسیم کیا ہے۔ ان شاءاللہ ہم ایک ایک فصل کر کے اُس کو پڑھیں گے، اُس کے بعد پھر ساتھ آ جائیں گے عَوامِلِ قِیاسِیَّہ، اور آخر میں ان شاءاللہ دو آئیں گے مَعنَوِیَّہ ۔ آج پہلا دن ہے، اِتنا میرا خیال ہے دراصل کافی ہے۔

4

تطبیق: عوامل اور ان کی اقسام

بسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ، الحَمدُ لِلہِ رَبِّ العَالَمِینَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ أَجمَعِینَ۔ أَمَّا بَعدُ:

فَإِنَّ العَوَامِلَ فِی النَّحوِ عَلَی مَا أَلَّفَہُ الشَّیخُ الفَاضِلُ عَبدُ القَاہِرِ بنُ عَبدِ الرَّحمٰنِ الجُرْجَانِیُّ ۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اصل جو کتاب چھوٹی ہے، اُس کا نام "العَوَامِلَ فِی النَّحوِ ہے، جو عبد القاہر جرجانی کی ہے۔ ہم "شَرحُ مِأَۃِ عَامِل" پڑھ رہے ہیں۔ یہ شرح عبد الرحمٰن جامی نے کی ہے، جو مُلَا جامی کے نام سے بہت مشہور ہیں۔ اُنہوں نے اس کی شرح کی ہے۔ فرماتے ہیں: فَاِنَّ العَوَامِلَ فِی النَّحوِ مِنَ الَّذِینَ یعنی علم نحو میں  جن کو عوامل کھا گیا ہے جو حرکت کو تبدیل کرتے ہیں کہیں دیتے ہیں گہیں گراتے ہیں عَلَی مَا أَلَّفَہُ الشَّیخُ الفَاضِلُ عَبدُ القَاہِرِ بنُ عَبدِ الرَّحمٰنِ الجُرْجَانِیُّ ۔

اب اس بات کو ذرا سمجھنا ہے۔ یعنی عبد القاہر بن عبد الرحمٰن جرجانی نے جو سو عوامل تالیف کیے تھے، وہ پہلے سے موجود تو تھے، اس لیے کہ عربی زبان اُس زمانے کی نہیں ہے، اُس سے پہلے کی ہے۔ اگرچہ پہلے سے تھی، لیکن تالیف اُنہوں نے کی ۔ یہ عبد القاہر چار سو اکھتر(۴۷۱) ہجری میں فوت ہوئے، یعنی تقریباً ایک ہزار سال پہلے۔ جب یہ فوت ہوئے، تو اُن کی تالیف کے مطابق جو اُن نے جمع کیے تھے، وہ ہیں "مِائۃُ عَامِل"، یعنی سو عامل۔

یہ سو عوامل جو ہم نے کہے ہیں، یہ عوامل دو قسموں پر تقسیم ہوتے ہیں:

  1. عَوَامِلُ لَفظِیَّۃٌ

  2. عَوَامِلُ مَعنَوِیَّۃٌ

یعنی ایک قسم کا نام ہے "عَوَامِلُ لَفظِیَّۃٌ"، اور دوسری قسم کا نام ہے "عَوَامِلُ مَعنَوِیَّۃٌ"۔ میں نے وضاحت کر دی: لفظیہ یعنی وہ عوامل جو زبان پر جاری ہوتے ہیں، اور معنویہ وہ عوامل ہیں جو زبان پر جاری نہیں ہوتے، بلکہ فقط دل و دماغ میں ہوتے ہیں۔

پھر جو لفظیہ ہیں، جو زبان پر جاری ہوتے ہیں، وہ پھر دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:

  1. عَوَامِلُ سَماعِیَّۃٌ

  2. عَوَامِلُ قِیاسِیَّۃٌ

سماعیہ وہ ہیں جو ہم نے عرب سے سُنے ہیں، بس اسی سنی سنائی پر چلتے ہیں۔ کیونکہ وہ اُن کو عامل کہتے ہیں، ہم بھی اسی حساب سے اُن کو عامل قرار دیتے ہیں۔ اور قیاسیہ وہ ہوتے ہیں جو کسی قاعدہ، قانون، یا ضابطہ کے تحت ہوتے ہیں۔ جو بھی ایسا ہوگا، وہ عامل ہوگا۔

ان عوامل میں سے جو سماعیہ ہیں، جو ہم نے عرب سے سُنے ہیں، وہ ہیں 91۔ اور جو قیاسیہ ہیں، وہ ہیں 7۔ جو عوامل معنویہ ہیں، جو زبان پر جاری نہیں ہوتے، لیکن دل و دماغ میں ہوتے ہیں، وہ ہیں 2۔ تو کل ہو گئے سو عامل۔

یہ جو 91 سماعیہ ہیں، ان شاءاللہ ہم اُن کو تقسیم کر کے آگے بتائیں گے۔ اُن کو 13 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ان 13 حصوں میں ہم ان 91 عوامل لفظیہ سماعیہ کو بیان کریں گے۔

صَلَّی اللہُ عَلَی محمد وآلہ وَسَلَّم

كتاب شرح العوامل في النّحو

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على سيّدنا محمّد وآله أجمعين.

[العوامل و اقسامها]

أمّا بعد : فإنّ العوامل في النّحو على ما ألّفه الشيخ الفاضل عبد القاهر بن عبد الرّحمن الجرجاني ، مائة عامل ، وهي تنقسم الى قسمين : لفّظيّة ، ومعنويّة.

فاللّفظيّة منها تنقسم الى قسمين : سماعيّة ، وقياسيّة ، والسماعيّة منها : أحَدٌ وتسعون عاملاً ، والقياسيّة منها : سبعة عوامل ، والمعنويّة منها : عددان ، فالجملة : مائة عامل ، والسماعيّة منها تتنوّع على ثلاثة عشر نوعاً :

[بيان انواع العوامل السماعى‏]

النوع الأوّل : حروف تجرّ الاسم فقط وهي سبعة عشر حرفاً :

الأوّل الباء : ولها معانٍ :

الأوّل : للإلصاق إمّا حقيقة نحو : بزَيْدٍ داء ، وإمّا مجازاً ، نحو : مررت بزيد ، أي : التصق مروري بموضع يقرب منه زيد.

الثانى : للاستعانة ، نحو : كتبت بالقَلَمِ ، أي : باستعانته.