درس شرح امثلہ

درس نمبر 11: فعل امر 2

 
1

خطبہ

2

ابتدائی عبارتیں

3

امر حاضر کی کچھ وضاحت

گذارش کی تھی کہ فعلِ امر کے بھی چودہ صیغے ہیں چھ غائب کے جن کی بحث گزشتہ درس میں مکمل ہو گئی چھ اس میں سے حاضر کے ہیں ان چھ میں سے تین مذکر کے لیے اور تین مونث کے لیے ہیں، جو تین مذکر کے لیے ہیں وہ ہیں اِضْرِبْ ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبُوا جو تین مونث کے لیے ہیں وہ ہیں اِضْرِبى ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبْنَ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ صیغے کہاں سے بنے ہیں اور کیسے بنے ہیں؟

4

اِضْرِبْ کیسے بنا ؟

اِضْرِبْ : فرماتے ہیں اِضْرِبْ کا معنی ہے تو ایک مرد مار کیونکہ وہ سامنے کھڑا ہے مخاطب ہے حاضر ہے مخاطب کو کہا جا رہا ہے کہ تو ایک مرد  مار۔ یہ صیغہ ہے مفرد مذکر حاضر کا فعل امر حاضر صحیح مجرد معلوم اب یہ اِضْرِبْ کہاں سے بنا ہے اور کیسے بنا ہے؟اب ذراغور کرنا ہے اِضْرِبْ بر وزن اِفْعِلْ ،  همزه علامت ہوگیا امر حاضر کی ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ،  جیسے پہلے تھا اِضْرِبْ تَضْرِبُ سے بنا ہے کیسے ؟ فرماتے ہیں تَضْرِبُ سے وہ تو تھا فعل مضارع مستقبل اب جب تا کو جو کہ علامت استقبال تھی علامت حرف مضارع تھی جب تا کو ہٹا لیا تو ضاد ساکن تھاضاد جب ساکن تھا تو ساکن سے چونکہ ابتدا ہو ہی نہیں سکتی تو اب مجبوری ہے ہماری کہ اس ضاد ساکن سے پہلے کچھ نہ کچھ لگانا ہوگا تاکہ ہم اس جملے کو بیان کرسکیں تو ہم نے  اس کی ابتدا میں ایک همزه لگایا اور اس همزه کو اب حرکت دینی تھی جب حرکت دینی تھی تو حرکت کون سی دیں تو اس کے لئے فرماتے ہیں حرکت دینے کے لئے دیکھا کہ راء  جو عين الفعل تھاوہ مکسور تھا اس پر کسرہ تھا تو لہٰذا اس عین الفعل کی مناسبت سے ابتدا میں جو همزه لے آئے اس همزه کو بھی ہم نے کسرہ دے دیا اور جب کسرہ دے دیا تو یہ بن گیا ، تَضْرِبُ  سے اِضْرِبُ ، لیکن کیوں کہ یہ امر تھا اور امر کے آخر میں ہم نے وقف کرنا ہوتا ہے اس کی آخری حرکت کو گرانا ہوتا ہے تو یہ تَضْرِبُ   سے بنا اِضْرِبُ  اور اِضْرِبُ  سے اِضْرِبْ یعنی تُو ایک مرد مار ۔
یہ ہے اِضْرِبْ بالکل آسان  تا  حرف مضارع تھا اسے گرا دیا اس کے بعد حرف ساکن تھا اور ساکن سے ابتداء ہو نہیں سکتی مجبوراً ضاد سے پہلے ہمیں ایک همزه وصل کی ضرورت پڑی اور همزه وصل لگایا تو اب اس پر بھی کوئی نہ کوئی حرکت دینی تھی اب چونکہ عین الفعل را مکسور تھاہم نے همزه وصل کو بھی مکسور کر دیا اور اس کے آخر کو چونکہ امر تھا وقف کر دیا اور جو آخری حرکت تھی وہ  وقف کی وجہ سے گر گیی تو یہ بن گیا تَضْرِبُ  سے اِضْرِبْ ۔

5

اِضْرِبٰا کیسے بنا ؟

اِضْرِبٰا : یہ اِضْرِبٰا کہاں سے لیا ہے؟ اگر آپ پہلے صیغے  کو سمجھ لیں تو یہ بھی سمجھ آ جائے گا۔اِضْرِبٰا تم دو مرد مارو صیغہ تثنیہ مذکر فعل امر حاضر صحیح مجرد معلوم ،  اِضْرِبٰا ، اِفْعِلٰا کے وزن پر ہے اِضْرِبٰا یہ مشتق ہے تَضرِبانِ سے  وہاں تھا  تَضرِبُ تَضرِبانِ یہاں ہوگا اِضْرِبْ ، اِضْرِبٰا ، یعنی تَضرِبانِ سے مشتق ہے ۔
تَضرِبانِ میں تا علامت حرف مضارع تھی اس کو گرا دیا اس کا مابعد چونکہ ضاد ساکن تھا ساکن سے ابتدا ہونہیں سکتی تھی ہم نے اس کے لئے ابتداء میں ایک ھمزہ لگایا اور چونکہ ھمزہ پر ہم نے کوئی حرکت دینی تھی تاکہ ہم اس کے مابعد کے ساتھ ملا سکیں تو چونکہ عین الفعل پر کسرہ تھا تو ہم نے عین الفعل کی مناسبت سے ھمزہ کو بھی کسرہ دے دیا تو یہ اس کی ابتدا میں آ گیا اور چونکہ امر تھا آخر میں وقف کرنا تھا تو اس وقف کی وجہ سے اس کی جو تَضرِبانِ کی نون اعرابی تھی وہ بھی گر گئی چونکہ وہ نون اعرابی  عوضِ رفع (ضمہ) کے ہوتی ہے تو اب یہ بن گیا اِضْرِبٰا ۔

6

اِضْرِبُوا کیسے بنا ؟

اِضْرِبُوا : اِضْرِبُوا  تم سب مرد مارو یہ بھی صیغہ ہے جمع مذکر کا فعل امر حاضر صحیح مجرد معلومِ، اِضْرِبُوا تَضْرِبُونَ سے بنا ہے اِضْرِبُوا تَضْرِبُونَ سے بنا ہے بالکل وہی ترتیب جو پہلے میں نے گزارش کی تَضْرِبُونَ سے بنا ہے کیسے؟ تَضْرِبُونَ میں تَا حرفِ مضارع تھا اس کو گرا دیا جب گرایا تو ضاد فاءالفِعْل وہ ساکن تھا اب ساکن سے تو ابتداء  ہو نہیں سکتی ہماری مجبوری تھی کہ ابتداء میں ہم کوئی نہ کوئی چیز لائیں ہم ابتداء میں ھمزہِ وصل لائے اب ھمزہِ وصل پر کونسی حرکت ہو؟ فرماتے ہیں چونکہ تَضْرِبُونَ میں را جو عین الفعل تھی وہ مکسور تھی اس کی مناسبت سے ہم نے ھمزہ کو بھی کسرہ دیا اور چونکہ یہ فعل فعلِ امر تھا اس کے آخر میں ہم نے وقف کرنا تھا تو اس وقف کی وجہ سے تَضْرِبُونَ کی جو آخری نون تھی وہ حرکتِ اعرابی بھی گر گئی تو یہ بن گیا اِضْرِبُوا ۔

7

اِضْرِبى کیسے بنا ؟

اِضْرِبى  : تین صیغے مونث کے ہیں اِضْرِبى تُو ایک عورت مار ، اِضْرِبٰا تُم دو عورتیں مارو ،  اِضْرِبْنَ تُم سب عورتیں مارو ، اب دیکھنا ہے کہ یہ کون سا صیغہ کہاں سے مشتق ہوا ہے  ۔

 اِضْرِبى تُو ایک عورت مار صیغہ مفرد مونث کا ہے فعل امر حاضر ہے صحیح مجرد معلوم ہے اِضْرِبى اِفْعِلِی کے وزن پر ہے اِضْرِبى یہ کہاں سے مشتق ہے ؟فرماتے ہیں پیچھے فعل مستقبل میں جاؤ وہاں کیا تھا؟ وہاں صیغہ واحد مونث کا کونسا تھاحاضر میں ؟تَضْرِبِینَ وہاں تھا تَضْرِبِِینَ یہ اسی تَضْرِبِِینَ سے مشتق ہے کیسے تَضْرِبِِینَ میں تا حرفِ مضارع تھا اُس کو گِرا دیا بعد میں ضاد (فاء الفعل) ساکن تھی ساکن سے تو ابتدا ہونہیں سکتی مجبور ہوئے کہ ہم ابتدا میں ایک ھمزہ وصل لائیں اب ھمزہ وصل پر کسرہ کیوں دیا؟ اس لیے کہ جو تَضْرِبِِینَ میں را تھی وہ مکسور تھی تو عین الفعل کی مناسبت سے ہم نے ھمزہ وصل پر بھی کسرہ دیا اب چونکہ وقف کرنا تھا فعلِ امر تھا تو اس وقف کی وجہ سے تَضْرِبِِینَ کی جو آخری نون تھی علامت اعرابی وہ گِر گئی تو یہ بن گیا اِضْرِبى۔

8

اِضْرِبٰا کیسے بنا ؟

اِضْرِبٰا : اِضْرِبٰا تم دو عورتیں مارو زمانِ حال  صیغہ تثنیہ مخاطبہ مونث کا فعل امر حاضر ، صحيح مجرّد اور معلوم. ہے اِضْرِبٰا بر وزن اِفْعِلَا  ۔
اِضْرِبٰا یہ کہاں سے مشتق ہے؟ فرماتے ہیں یہ  تَضْرِبَانِ سے مشتق ہے اچھا تَضْرِبَانِ سے مشتق ہے تو پھر کیسے بنا؟  تَضْرِبَانِ تَا حرفِ مضارع تھا اس کو گرا دیا ضاد ساکن تھی ساکن سے ابتداء ہونہیں سکتی مجبورا ابتدا میں ہمیں ھمزہ وصل لانا پڑا ھمزہ وصل کو را کی مناسبت سے جوکہ عین الفعل  اور مکسور تھی کسرہ دے دیا۔ اچھا آخر میں جو نون تھی وہ جو نونِ اعرابی تھی وہ نونِ اعرابی وقف کی وجہ سے گر گئی تو تَضْرِبَانِ سے یہ بن گیا اِضْرِبَا، نون گر گئی۔

9

اِضْرِبْنَ کیسے بنا ؟

اِضْرِبْنَ اِضْرِبْنَ تم سب عورتیں مارو اِضْرِبْنَ صیغہ جمع مونث حاضر کا ہے فعل امر حاضر ہے صحیح ہے معلوم ہے مجرد ہے اِضْرِبْنَ بروزن اِفْعِلْنَ ،  اِضْرِبْنَ کہاں سے مشتق ہے؟ فرماتے ہیں اِضْرِبْنَ مشتق ہے مستقبل  کے صیغہ تَضْرِبْنَ  سے وہ تھا ناں تَضْرِبِینَ تَضْرِبَانِ تَضْرِبْنَ تو یہ اُسی سے مشتق ہے تَضْرِبْنَ سے اِضْرِبْنَ اچھا یہ کیسے بنا؟ فرماتے ہیں تَضْرِبْنَ میں جو تا ہے یہ تا حرفِ مضارع اس حرفِ مضارع کو گرا دیا اور اس کے بدلے میں چونکہ ضاد ساکن تھی مجبورا ہم محتاج ہوئے ھمزہ وصل کے ابتداء میں ایک ھمزہ وصل لائے چونکہ مضارع میں عین الفعل را مکسور تھی ھمزہ وصل کو بھی ہم نے کسرہ دیا تو یہ بن گیا اِضْرِبْنَ تو آپ کہیں کہ جناب تَضْرِبِینَ میں آپ نے نون کو گرا دیا تھا تَضْرِبَان میں بھی نون کو گرا دیا تھا تو یہاں اِضْرِبْنَ تَضْرِبْنَ یہاں بھی تو ایک نون ہے اس کو گرا دیں  ، جواب بہت آسان جواب یہ ہے ہم یہ کہیں گے چونکہ  ہم نے تَضْرِبِینَ میں نون کو گرایا تھا یا تَضْرِبَانِ میں گرایا تھا اُس نون اور اِس نون میں فرق ہے، تَضْرِبْنَ میں جو نون ہے یہ علامت ہے جمع کی یہ کسی اور چیز کا عوض نہیں ہے تاکہ اس کو گرا دیں اور جو علامت ہوتی ہے اس علامت کو نہ حذف کیا جاتا ہے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کی جاتی ہے " وَالْعَلٰامَةُ لٰا تُغَيَّرُ وَلٰا تُحْذَفُ" لہٰذا تَضْرِبْنَ کی نون اسی طرح باقی رہے گی فقط ابتداء میں تبدیلی کریں گے تا کی بجائے ایک ھمزہ مکسور لایں گے اور یہ بن جائے گا اِضْرِبْنَ یعنی تم سب عورتیں مارو ٹھیک ہو گیا جی چھ اور چھ بارہ صیغے مکمل۔

10

لِأضْرِبْ اور لِنَضْرِبْ کیسے بنے ؟

لِأضْرِبْ  اور لِنَضْرِبْ : باقی رہ گئے دو متکلم کے لِأضْرِبْ ، لِنَضْرِبْ ،  لِأضْرِبْ میں ایک مرد یا میں ایک عورت ماروں واحد متکلم صیغہ فعلِ امر ہے صحیح مجرد معلوم ،  لِاَضْرِبْ بر وزن لِاَفْعِلْ ،  لِاَضْرِبْ اصل میں اَضْرِبُ تھا اَضْرِبُ نَضْرِبُ بالکل آسان۔ اب یہاں پر ہم نے کیا کیا اَضْرِبُ جو مضارع میں واحد متکلم تھااس پر ہم نے لامِ امر کو داخل کر دیا جب لامِ امر کو داخل کیا تو اس لامِ امر نے دو کام کئے، ایک اس کے معنی میں تبدیلی کی اور ایک اس کے لفظ میں ، لفظ میں کون سی کہ اَضْرِبُ کی با کو ساکن کر دیا لِاَضْرِبْ اور معنی میں تبدیلی وہاں تھا اَضْرِبُ میں ماروں گا اب یہاں پر ہے لِاَضْرِبْ چاہیے کہ میں ماروں تو اس لام نے یہ تبدیلی کی یہ بن گیا لِاَضْرِبْ ۔

دوسرا صیغہ  جمع متکلم کا ہے لِنَضْرِبْ ، لِنَضْرِبْ چاہیے کہ ہم سب ماریں وہی فعل فعلِ امر ہے صحیح مجرد معلوم ہے لِنَضْرِبْ لِنَفْعِلْ کے وزن پر ہے لام لامِ امر ہے نون علامت جمع متکلم ہے ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.
لِنَضْرِبْ اصل میں نَضْرِبُ تھا اصل میں لِنَضْرِبْ نَضْرِبُ سے مشتق ہے فرماتے ہیں نَضْرِبُ پر ہم نے لامِ امر کو داخل کیا تو اس لامِ امر نے دو کام کیے ایک لفظ میں تبدیلی کی کہ نَضْرِبُ کی با کو ساکن کیا اور دوسرا معنی میں تبدیلی کی نَضْرِبُ کا معنی تھا ہم سب ماریں گے لیکن وہ خبر تھی اب اس نے اس کو انشاء میں تبدیل کیا لِنَضْرِبْ چاہیے کہ ہم سب ماریں تو پس امر کے چودہ صیغوں کی بحث  یوں مکمل ہوئی چودہ صیغے یہ تھے : لِیَضْرِبْ ، لِیَضْرِبا ، لِیَضْرِبُوا ، لتَضْرِبْ ، لتَضْرِبا ، لِیَضْرِبْنَ ، اِضْرِبْ ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبُوا. : اِضْرِبى ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبْنَ لِاَضْرِبْ ، لِنَضْرِبْ
صلی اللہ علی محمد و آلہ

حرف استقبال ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون علامت جمع مؤنّث و ضمير فاعل.

[ ليضربن ] در اصل يَضْرِبْنَ بود ( جمع مؤنّث غايبه بود از فعل مضارع ) خواستيم جمع مغايبه مؤنّث بنا كنيم از فعل امر غايب ، لام امر غايب بر سرش درآورديم ، لفظاً عمل نكرد زيرا كه نون علامت جمع است نه عوض رفع ، ومعنًى عمل نموده وخبر را بدل به انشاء كرده لِيَضْرِبْنَ شد.

* * *

و از امر حاضر نيز شش وجه بازمى‌گردد : سه مذكّر را بود ، و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : اِضْرِبْ ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبُوا.

اِضْرِبْ : يعنى بزن تو يك مرد حاضر در زمان حال يا در زمان آينده. صيغه مفرد مذكّر حاضر است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم. اِضْرِبْ بر وزن اِفْعِلْ. همزه علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

اِضْرِبْ امر است از تَضْرِبُ ، تاء كه حرف مضارع بود از اوّلش انداختيم ، ما بعد تاء ساكن و ابتداء بساكن محال بود محتاج بهمزه وصل شديم ، نظر كرديم به عين الفعلش مكسور بود ، همزه وصل مكسور بر سرش درآورديم وآخرش را وقف كرديم ، حركت آخر به وقفى بيفتاد اِضْرِبْ شد.

اِضْرِبٰا : يعنى بزنيد شما دو مردان حاضر در زمان حال يا زمان

آينده. صيغه تثنيه مذكّر است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم. اِضْرِبٰا بر وزن اِفْعِلٰا. همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف ، علامت تثنيه و ضمير فاعل است.

اِضْرِبٰا امر است از تَضْرِبٰانِ ، تاء كه حرف مضارع بود از اولش انداختيم ما بعد حرف مضارع ساكن و ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل ، به عين الفعلش نظر كرديم مكسور بود ، همزه وصل مكسوره در اولش درآورديم و آخرش را وقف كرديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبٰا شد.

اِضْرِبُوا : يعنى بزنيد شما گروه مردان حاضر در زمان حال يا زمان آينده. صيغه جمع مذكّر است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم. اِضْرِبُوا بر وزن اِفْعِلُوا ، همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، واو ، علامت جمع مذكّر و هَم ضمير فاعل.

اِضْرِبُوا امر است از تَضْرِبُونَ ، تاء كه حرف مضارع بود از اولش برداشتيم مابعد تاء ، ساكن و ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل و نظر به عين الفعل او كرديم مكسور بود ، همزه وصل مكسوره در سرش درآورديم و آخرش را وقف كرديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبُوا شد.

* * *

و آن سه كه مؤنّث را بود : اِضْرِبى ، اِضْرِبٰا ، اِضْرِبْنَ.

اِضْرِبى : يعنى بزن تو يك زن حاضره در اين زمان يا زمان آينده. صيغه مفرده مؤنّث است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

اِضْرِبى بر وزن اِفْعِلى ، همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، ياء ، علامت مخاطبه مؤنّث و هَم ضمير فاعل است.

اِضْرِبى امر است از تَضْرِبِينَ ، تاء كه حرف استقبال است از اولش انداختيم ما بعد تاء ، ساكن ، ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل ، نظر به عين الفعل او كرديم مكسور بود ، همزه وصل مكسوره در اولش درآورديم و آخر را وقف نموديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبى شد.

اِضْرِبٰا : يعنى بزنيد شما دو زنان حاضره در زمان حال يا زمان آينده. صيغه تثنيه مخاطبه مؤنّث است از فعل امر حاضر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

اِضْرِبٰا بر وزن اِفْعِلٰا ، همزه ، علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، الف علامت تثنيه و ضمير فاعل.

اِضْرِبٰا امر است از تَضْرِبٰانِ ، تاء كه حرف استقبال بود از اولش برداشتيم ، ما بعد حرف مضارع ساكن ، ابتداء بساكن محال بود محتاج شديم به همزه وصل ، نظر به عين الفعل او كرديم مكسور بود همزه وصل مكسوره در اولش درآورديم وآخرش را وقف كرديم ، نون اعرابى به وقفى بيفتاد اِضْرِبٰا شد.

* * *

اِضْرِبْنَ : يعنى بزنيد شما گروه زنان حاضر در زمان حال يا زمان آينده. صيغه جمع مؤنّث حاضره است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

اِضْرِبْنَ بر وزن اِفْعِلْنَ ، همزه علامت امر حاضر ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل ، نون ، علامت جمع مؤنّث و هَم ضمير فاعل است.

اِضْرِبْنَ در اصل تَضْرِبْنَ بود ، ( جمع مؤنّث بود از فعل مضارع ) خواستيم كه جمع مؤنّث بنا كنيم از فعل امر حاضر ، تاء كه حرف استقبال بود از اولش برداشتيم ما بعد آن ساكن بود ، ابتداء بساكن محال بود همزه وصل مكسور در اولش درآورديم وآخرش را وقف نكرديم ونون را بر حال خود گذاشتيم زيرا كه نون علامت جمع است نه عوض رفع ( وَالْعَلٰامَةُ لٰا تُغَيَّرُ وَلٰا تُحْذَفُ ، يعنى : علامت ، تغيير داده و حذف كرده نمى شود ) اِضْرِبْنَ شد.

* * *

و آن دو كه حكايت نفس متكلّم را بود : لِاَضْرِبْ ، لِنَضْرِبْ.

لِأضْرِبْ : يعنى بايد بزنم من يك مرد يا يك زن در زمان حال يا زمان آينده. صيغه متكلّم وحده است از فعل امر ، صحيح و مجرّد و معلوم.

لِاَضْرِبْ بر وزن لِاَفْعِلْ ، لام ، لام امر غايب ، همزه ، علامت متكلّم وحده ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

لِاَضْرِبْ در اصل اَضْرِبُ بود ( متكلّم وحده بود از فعل مضارع )

خواستيم متكلّم وحده بنا كنيم از فعل امر ، لام امر غائب را بر سرش درآورديم ، دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لِاَضْرِبْ شد.

لِنَضْرِبْ : يعنى بايد بزنيم ما دو مردان يا دو زنان يا گروه مردان يا گروه زنان در زمان حال يا زمان آينده. صيغه متكلّم مع الغير است از فعل امر ، صحيح و مجرد و معلوم. لِنَضْرِبْ بر وزن لِنَفْعِلْ ، لام ، لام امر غايب و نون ، علامت متكلم مع الغير ، ضاد فاء الفعل ، راء عين الفعل ، باء لام الفعل.

لِنَضْرِبْ در اصل نَضْرِبُ بود ، متكلّم مع الغير بود از فعل مضارع خواستيم متكلّم مع الغير بنا نماييم از فعل امر لام امر غايب بر سرش درآورديم دو عمل كرد : لفظاً و معنًى ، لفظاً عمل كرد حركت آخر را به جزمى ساقط كرد ، و معنًى عمل كرد خبر را بدل به انشاء كرد لِنَضْرِبْ شد.

[ نهى ]

و از نهى نيز چهارده وجه باز مى‌گردد : شش مغايب را بود و شش مخاطب را و دو حكايت نفس متكلّم را. آن شش كه مغايب را بود سه مذكّر را بود ، و سه مؤنّث را.

آن سه كه مذكّر را بود : لٰا يَضْرِبْ ، لٰا يَضْرِبٰا ، لٰا يَضْرِبُوا.