خوب، ان اسماء جازمہ میں سے ایک ہے مَتَى۔ خوب، یہ مَتَى کیا ہے؟ بہت غور سے۔ یعنی یہ مَتَى بھی اگر معنی اِن پر مشتمل ہو گا تو یہ فعل مضارع کو جزم دے گا۔
جناب، یہ مَتَى استعمال کہاں ہوتا ہے؟ جواب ھُوَ لِلزَّمَانِ ۔ یہ استعمال ہوتا ہے زمان میں، وقت میں، جہاں وقت کی بات ہو رہی ہو، وہاں پر استعمال ہوتا ہے۔ کیوں؟ ایک زمان ہوتا ہے، ایک مکان ہوتا ہے۔ یعنی جگہ کی بات ہو تو پھر کوئی اور ہوگا، اور اگر وقت کی بات ہو تو پھر یہ ہوگا۔
فرق یہ ہے، مثلاً آپ کہتے ہیں:مَتَى تَذْهَبْ أَذْهَبْ ، مَتَى تَذْهَبْ، اب دیکھو، مَتَى تَذْهَبْ فعل مضارع ہے، اس کو بھی جزم دی۔ أَذْهَبْ فعل مضارع ہے، اس کو بھی جزم دی۔ دو فعلوں پر داخل ہوا، پہلا شرط، دوسرا جزا۔ لیکن یہ مَتَى معنی اِن پر مشتمل ہے، لیکن زمانے میں۔
یعنی اصل میں کہنا کیا چاہتا ہے؟ اصل میں کہنا یہ کیا چاہتا ہے:إِنْ تَذْهَبِ الْيَوْمَ أَذْهَبِ الْيَوْمَاگر تو آج جائے گا، تو میں بھی آج جاؤں گا۔ ٹھیک ہے جی۔وَإِنْ تَذْهَبْ غَدًا أَذْهَبْ غَدًا اگر تو کل جائے گا، تو میں کل جاؤں گا۔ أَذْهَبْ کی باء پر بھی جزم پڑھنی ہے۔ کیوں؟ چونکہ وہ اِن آگئی ہے  ۔
تو پس یہ مَتَى جب معنی پر مشتمل ہو گا، فعل مضارع کو جزم دے گا۔ لیکن یہ مَتَى استعمال ہوتا ہے زمان کے لیے، وقت کے لیے۔ جہاں وقت کی بات ہو رہی ہو۔ جیسے یہاں تھا کہ اگر تو آج جائے گا، تو میں آج جاؤں گا۔ اگر تو کل جائے گا، تو میں کل جاؤں گا۔ آج، کل، یہ ساری زمانے کی باتیں ہیں۔ یہ ساری وقت سے مربوط باتیں ہیں۔ جگہ کے بارے میں نہیں۔
اسماء جازمہ میں سے ایک اور اسم ہے أَيْنَمَا۔ أَيْنَمَا بھی جب معنی اِن  پر مشتمل ہو، یہ فعل مضارع کو جزم دیتا ہے۔ لیکن أَيْنَمَا استعمال کہاں ہوتا ہے؟ ھُوَلِلْمَكَانِ۔ یہ استعمال ہوتا ہے مکان میں، یعنی جب جگہ کی بات ہو رہی ہو، مقامیت کے بارے میں گفتگو کرنی ہو، وہاں پر أَيْنَمَا استعمال ہوتا ہے۔
پس مَتَى زمان کے بارے میں گفتگو میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ أَيْنَمَا مکان کے بارے میں جب گفتگو ہوتا ہو، وہاں استعمال ہوتا ہے۔
جیسے مثال:أَيْنَمَا تَمْشِ أَمْشِاچھا، اس أَيْنَمَا نے جزم کہاں دی؟ آپ کہیں گے، شین کے بعد ایک یا تھی، وہ یا جزم کی وجہ سے گر گئی۔ اس طرح أَمْشِ میں بھی شین کے بعد یا تھی، اثر میں  یَمشِی تھا، یا گر گئی ہے، اس جزم کی وجہ سے۔
أَيْنَمَا تَمْشِ أَمْشِ جہاں تو جائے گا، وہاں میں جاؤں گا۔ أَيْنَمَا جگہ، مکان کے بارے میں۔ یعنی جس جگہ تو جائے گا، اس جگہ میں جاؤں گا۔
اب أَيْنَمَا معنی اِن  پر مشتمل ہے، اور یہ داخل ہوا ہے دو فعلوں پر۔ ایک ہے تَمْشِ، اور ایک ہے أَمْشِ۔ دونوں فعلیں مضارع ہیں، دونوں کو اس نے جزم دیئے۔ اور جزم کیا ہے کہ اس نے اس کی آخری حرف تھا یا، اس کو گرا دیا۔
یعنی أَيْنَمَا تَمْشِ أَمْشِجس جگہ تو جائے گا، میں اسی جگہ جاؤں گا۔ گویا کہ یہ کہنا چاہتا ہے:إِنْ تَمْشِ إِلَى الْمَسْجِدِ أَمْشِ إِلَى الْمَسْجِدِاگر تو مسجد میں جائے گا، تو میں مسجد میں جاؤں گا۔إِنْ تَمْشِ إِلَى السُّوقِ أَمْشِ إِلَى السُّوقِاگر تو بازار جائے گا، تو میں بھی بازار جاؤں گا۔
اب یہ مسجد یا بازار، یہ مکان ہیں۔ یہ کوئی زمان نہیں ہے، وقت نہیں ہے۔ بلکہ یہ جگہ سے مربوط ہیں۔
انہی اسماء جازمہ میں ایک اور ہے، وہ ہے أَنَّیٰ۔ أَنَّیٰ ھُوَ اَیضاََ لِلْمَكَانِ۔ یہ أَنَّیٰ اسماء جازمہ میں سے ہے۔ جب یہ معنی اِن  پر مشتمل ہو گا، یہ فعل مضارع کو جزم دے گا،  یہ بھی دو فعلوں پر داخل ہوتا ہے، ایک شرط اور دوسرا جزا۔ اور یہ أَنَّیٰ بھی مکان کے لیے۔
اَیضاََ  کا مطلب کیا ہے؟ جیسے أَيْنَمَا مکان میں استعمال ہوتا تھا، یہ أَنَّى بھی  اردو میں ہم اَیضاََ  کا ترجمہ کرتے ہیں بھی، یہ اَیضاََ  بھی مکان کے لیے۔ یعنی اگر کسی جگہ کی بات کرنی ہو، تو وہاں پر أَنَّى کا استعمال ہوتا ہے۔
جیسے مثال ہم کہتے ہیں:أَنَّى تَكُنْ أَكُنْجس جگہ تو ہو گا، اسی جگہ میں ہو گا۔ جگہ کے معنی ہے، جس جگہ پر تو ہو گا ، میں ہو گا
أي: إن تكن في البلدة أكن في البلدة،  اگر تو شہر میں ہوگا تو میں بھی شہر میں ہونگا ، وإن تكن في البادية أكن في البادية، اگر تم شہر میں نہیں دھات میں ہوگا میں بھی وہیں اسی جنگل یا دات میں ہونگا ۔
اسماء جازمہ میں سے ایک اور اسم ہے مَھمَا ہے ، مَھمَا بھی جب معنی اِن  پر مشتمل ہو، یہ فعل مضارع کو جزم دیتا ہے ، «مَهْمَا» وهو للزمان، لیکن یہ مَھمَا زمان میں استعمال ہوتا ہے ، یعنی اگر وقت کی بات کرنی ہو تو وہاں پر اس مَھمَا کو استعمال کیا جاتا ہے جیسے : مثل: «مهما تذهب أذهب» دیکھیں اس مھما نے تذھب کو بھی جزم دیا اذھب کو بھی جزم دیا اور  یہ مشتمل ہے معنی اِن پر ، جس وقت تو جائے گا میں جائوں گا ، یعنی أي إن تذهب اليوم أذهب اليوم، وإن تذهب غداً أذهب غداً، تو اگر آج جائے گا میں بھی آج جائوں گا اگر تو کل جائے گا میں بھی کل جائوں گا ۔
اسماءِ جازمہ میں سے ایک اور اسم ہے وہ ہے و «حَيْثُمَا» فرماتے ہیں یہ و «حَيْثُمَا» کیا ہے ؟ آپ فرمائیں گے کہ یہ اسماء جازمہ میں سے اور فعل مضارع کو جزم دیتا ہے جب یہ معنی اِن پر مشتمل ہو اور یہ مکان کی معنی رکھتا ہے یعنی جہاں جگہ کی بات ہو مقام کی بات ہو یہ حَيْثُمَا استعمال ہوتا ہے جیسے «حيثما تقعدْ أقعدْ» جس جگہ تو بیٹھے گا  میں بیٹھوں٘ گا ، پس یہ «حيثما» مشتمل ہے معنی اِن  پر گویا یہ کہنا یہ چاہتا ہے أي: إن تقعد في القرية أقعد في القرية، اگر تو گاوٗں میں بیٹھے گا میں بھی گاوٗں میں بیٹھوں گا  ، ، وإن تقعد في البلدة أقعد في البلدة ، اگر تو شہر میں بیٹھے گا میں بھی شہر میں بیٹھوں گا ۔
اس حیثما نے تقعد کو بھی جزم دیا اقعد کو بھی جزم دیا ، تقعد شرط بن جائے گی اور اقعد جزا بن جائے گی اور یہ حیثما معنی اِن پر مشتمل ہے ۔
اسماءِ جازمہ میں سے ایک اور ہے «إذْمَا» فرماتے ہیں یہ «إذْمَا» وهو يستعمل في غير ذوي العقول، اِذمَا اسماءِ جازمہ میں سے ہے اور جب یہ معنی اِن پر مشتمل ہوگا تو یہ جزم دیگا جیسے پہلے اسماء کا بتایا ہے لیکن یہ  اذما وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں غیر ذوی العقول کے متعلق بات ہو تو وہاں اس کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے : «إذما تفعل أفعل» ، یہ کرنا غیر ذوی العقول کے متعلق ہے ، اور یہ معنی اِن پر مشتمل ہے تو گویا یہ کھنا چاہتا ہے : أي: إن تفعل الخياطة أفعل الخياطة، اگر تو درزی کا کام کرے گا میں بھی درزی کا کام کروں گا ، وإن تفعل الزراعة أفعل الزراعة،  اگر تو کھیتی باڑی کا کام کرے گا میں بھی کھیتی  باڑی کا کام کروں گا ۔
پس یہ اذما غیر ذوی العقول کے لیئے جیسے سلائی کرنا کھیتی باڑی کرنا ۔
جب یہ اسماء معنی اِن پر مشتمل ہوں اور ان کے بعد دو جملے آئیں گے ایک ہوگا شرط دوسرا ہوگا جزاء ، اگر یہ دونوں فعلِ مضارع ہوں یا ان میں سے شرط میں استعمال ہونے والا فعل مضارع ہو تو جزم پڑہنا واجب ہے ، نہیں پڑہیں گے تو غلط ہوگا  یہ بات مکمل ہوگئی ۔
وإن كان الفعل الثاني مضارعاً دون الأول،( شرط میں استعمال ہونے والا فعل مضارع نہ ہو تو)  فالوجهان في المضارع: الجزم والرفع،( تو مضارع پر دو وجہیں جائز ہیں آپ چاہیں تو اس مضارع پر جزم بھی پڑہ سکتے ہیں اور رفع بھی پڑہ سکتے ہیں )مثل: «إذما كَتَبتَ أَكتُب»آپ اکتب کی با پر جزم بھی پڑہ سکتے ہیں اور رفع بھی سکتے ہیں ، کیونکہ فقط جملہ جزا میں فعل مضارع ہے اور شرط میں فعل مضارع نہیں ہے۔