آج ہم پانچویں نوع کا آغاز کر رہے ہیں، جو "النوع الخامِسُ حُرُوفٌ تَنْصِبُ الْفِعْلَ الْمُضَارِعَ" کے بارے میں ہے۔ یہ چار حروف ہیں جو فعلِ مضارع کو نصب دیتے ہیں۔ چار انواع جو پہلی گزری ہیں ہم نے پہلے ان عوامل کی بات کی ہے جو اسم پر داخل ہوتے تھے اور اسم میں عمل کرتے تھے ، جیسے حروفِ جارہ، حروفِ مشبہ بالفعل، ما اور لا لیس کے مشابہ ، اور دیگر عوامل جو اسماء میں عمل کرتے تھے ۔  پانچویں نوع ان حروف کے بارے میں ہے جو افعال میں عمل کرتے ہیں اب ہم ان عوامل کے بارے میں بات کریں گے جو افعال میں عمل کرتے ہیں۔ ان کا کام اسماء میں عمل کرنا نہیں، بلکہ افعال میں عمل کرنا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ آج ہم ان حروف کے بارے میں بات کریں گے جو فعلِ مضارع کو نصب دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حروف افعال میں عمل کرتے ہیں، اسماء میں نہیں۔
عمل کیا کرتے ہیں ؟ یہ حروف فعلِ مضارع کو نصب دیتے ہیں۔ ان شاءاللہ، جب ہم مثالیں دیکھیں گے تو واضح ہو جائے گا کہ فعلِ مضارع کیا ہوتا ہے۔ ہم نے اسے صرف میر میں بار بار پڑھا ہے۔ فعلِ مضارع کی مثالیں ہیں: "یضرب "، "ینصر"، "یعلم"، "یشر ف"۔ لیکن یہ حروف جو ہم پڑھ رہے ہیں جو چار ہیں، ان کی تفصیل ہم پڑھیں گے۔ ان کا عمل یہ ہے کہ یہ فعلِ مضارع کے آخر کو نصب دیتے ہیں۔ یعنی اگر "یضربُ" ہے تو جب ان میں سے کوئی حرف آئے گا تو ہم "یضربَ" پڑھیں گے۔ اسی طرح "ینصرُ" کو "ینصرَ" پڑھیں گے۔
یہ چار حروف ہیں: "ان"، "لن"، "کی"، "اذن"۔ یہ چار حروف فعلِ مضارع پر داخل ہو کر اس کے آخر کو نصب دیتے ہیں۔ ان کا عمل تو واضح ہو گیا، لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ حروف کوئی خاص معنی بھی دیتے ہیں؟ کیا ان کے آنے سے معنی پر فرق پڑتا ہے، یا صرف نصب دینا ہی ان کا کام ہے؟
افعال میں فعلِ ماضی، فعلِ مضارع، اور فعلِ امر شامل ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ حروف کس پر داخل ہوتے ہیں اور معنی کے لحاظ سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اب ہم "اَن" سے شروع کرتے ہیں۔ "اَن" استقبال کا معنی دیتا ہے، یعنی مستقبل کے لیے۔ چاہے یہ فعلِ ماضی پر داخل ہو یا فعلِ مضارع پر، یہ استقبال کا معنی ہی دے گا۔ اگر "اَن" فعلِ مضارع پر داخل ہو تو یہ حال اور استقبال دونوں معنی دے گا۔ لیکن اگر یہ فعلِ ماضی پر داخل ہو تو بھی یہ استقبال کا معنی دے گا۔
"اَن" کو "اَنِ مصدریہ" کہتے ہیں، کیونکہ جب یہ اَن فعلِ مضارع پر داخل ہوتا ہے تو اسے مصدر کی تاویل میں کر دیتا ہے۔ یعنی فعل، فعل نہیں رہتا، بلکہ مصدر کا معنی دیتا ہے۔ اس لیے اسے "اَنِ مصدریہ" کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
"اَسلَمتُ اَن اَدخُلَ الَجنۃَ "
یہاں "ادخل" فعلِ مضارع ہے۔ جب "اَن" داخل ہوتا ہے تو "اَدخُلَ" بن جاتا ہے "ادخل"۔ "اَن" نے "ادخل" کی لام کو نصب دیا ہے، اور اس فعل کو مصدر کی تاویل میں کر دیا ہے۔ گویا اصل معنی یہ ہے کہ "اَسلمتُ لِدُخولِ الجنۃ "، یعنی میں نے اسلام قبول کیا تاکہ جنت میں داخل ہوں، یہاں "اَن" نے فعل کو مصدر کی تاویل میں کر دیا ہے، اور اس نے استقبال کا معنی بھی دیا ہے۔
اس طرح ہم نے دیکھا کہ یہ حروف افعال میں کیسے عمل کرتے ہیں اور ان کے معنی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ان شاءاللہ، آگے ہم مزید تفصیلات اور مثالیں دیکھیں گے
النوع الخامِسُ حُرُوفٌ پانچویں نوع ان حروف کے بارے میں ہے تَنْصِبُ الْفِعْلَ الْمُضَارِعَ  جو حروف فعل مضارع کو نصب دیتے ہیں اب یہاں ایک سطر آپ نے خود اضافہ کرنی ہے کہ پہلی چار انواع ان کے بارے میں تھیں جو اسم عمل کرتی تھیں اب شروع کر رہے ہیں ان کو کہ جو افعال میں عمل کرتی ہیں ۔
وهي أربعة أحرف یہ چار حروف ہیں ان و لن و کی و اذن اب فرماتے ہیں ایک تو ہو گیا ان کا عمل کہ یہ فعل مضارع پر داخل ہو کر اس کو نصب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں فان للاستقبال کس کے لیے استقبال کے لیے و ان داخلت علی الماضی چاہے یہ ماضی پر داخل بھی کیوں نہ ہو اب سمجھ آگئی، یعنی اگر یہ مضارع پر داخل ہو تو بھی استقبال کا معنی آیندہ کا معنی دے گا اور اگر یہ ماضی پر داخل ہو تو بھی یہ معنی استقبال کا دے گا اب مضارع کی مثال : اَسلمتُ لان ادخُلَ الجنۃ   ، اور اگر ماضی پر داخل ہو تو مثال یہ ہوگا : اَسلمتُ ان دخلتُ الجنۃ ، اب یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اَن استقبال کے لئے آتا ہے اب فرماتے ہیں بے شک یہ ماضی پر داخل ہو تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا فرماتے ہیں اس لیے کہ جب یہ اَن داخل ہو جائے گا وہ چاہے مضارع ہو چاہے ماضی یہ اس کو مصدر میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ان ، ان مصدریہ ہے جب معنی مصدر میں تبدیل ہو جائے گا پھر مصدر میں تبدیل ہونے کے بعد وہ چاہے ماضی ہو یا مضارع کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
و تسمیٰ ھذہ مصدریۃََ  اور اس اَن کو کہا جاتا ہےمصدریہ اب انہی مثالوں کو دوبارہ دیکھنے گا غور سے کہ مثال کونسی تھی مضارع پر داخل ہونے کی مثال یہی تھی اَسلمتُ لان ادخُلَ الجنۃ   ، یا ماضی کی مثال کیا تھی  اَسلمتُ ان دخلتُ الجنۃ ،اب اس اَن نے اس کو مصدر کی تاویل میں کر دیا تو گویا اصل میں جملہ پھر یوں بن جائے گا ، اَسلمتُ لِدُخولِ الجنۃ  ۔
اب یہاں پر ایک چھوٹی سی بات ہے ممکن ہے کوئی کہے کہ جناب ماضی تو ہوتا ہے گذرہ ہوا زمانہ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آتا ہے استقبال آنے والے زمانے کے لیے تو جب ماضی پر داخل ہوگا ماضی کا معنی ہے کہ یہ کام ہو چکا ہے اور یہ استقبال کے لیے آپ کہیں گے قرآن مجید میں بھی بہت ساری آیات ایسی ہیں کہ جو کام ابھی ہوا نہیں ہے مثال بڑی مشہور ہے قیامت کے بارے میں حتیٰ  اَتاک الیقین اب اَتیٰ  فعل ماضی ہے، ہر وہ کام جس کے ہونے کا یقین ہو اس کو ماضی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو یہ بھی اسی لحاظ سے ٹھیک ہو گیا خوب اتنا فیلحال آپ کیلئے کافی ہے اور باتیں اس میں زیادہ نہیں ۔